ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات کی ’جامعہ خلیفہ‘ میں سائنسدانوں نے ایسا ہولوگرام اسٹیکر تیار کرلیا ہے جسے کھا کر ہضم بھی جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ برسوں کے دوران مختلف ’’اصلی مصنوعات‘‘ کی شناخت میں اسٹیکر جیسے ’’تھری ڈی ہولوگرامز‘‘ کا استعمال بڑھتا جارہا ہے کیونکہ ان کی قیمت مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔
اب تک کاغذ، لکڑی اور پلاسٹک پر ہولوگرامز چھاپنے میں کامیابی حاصل کی جاچکی ہے، تاہم کھانے پینے کی چیزوں میں صرف چاکلیٹ پر ہولوگرام بنانے میں ہی نہایت محدود کامیابی مل سکی ہے۔
انہی کوششوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے، جامعہ خلیفہ کے ڈاکٹر بدرالقطان اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر حیدر بٹ کی سربراہی میں ایک تحقیقی ٹیم نے کورن سیرپ اور وینیلا میں پانی ملا کر ایسے ہولوگرام تیار کیے ہیں جنہیں کھانے پینے کی کسی بھی چیز (مثلاً پھل) پر بھی نقش کیا جاسکے گا اور آرام سے کھایا بھی جاسکے گا۔
اس ’’خوردنی‘‘ (کھائے جانے کے قابل) ہولوگرام کی تیاری میں نینو ٹیکنالوجی کے علاوہ جدید لیزر تکنیکوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے، تاہم اسے آخری شکل دینے سے ذرا پہلے خاص طرح کے سیاہ رنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اگرچہ سب سے آخری مرحلے میں لیزر نقش کاری (لیزر ایچنگ) کے دوران یہ سیاہ رنگ بھی مکمل طور پر ختم کردیا جاتا ہے لیکن اب ماہرین یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اسے بھی کسی فوڈ گریڈ کلر (کھائے جانے کے قابل رنگ) سے بدل دیا جائے تاکہ یہ خوردنی ہولوگرام اور بھی بہتر ہوسکے۔
اس طرح کے خوردنی ہولوگرامز نہ صرف اصل غذائی مصنوعات کو شناخت کرنے میں مدد دیں گے بلکہ ان کے تازہ یا خراب ہونے کا پتا بھی دے سکیں گے۔
اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’اے سی ایس نینو‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
اضافی طور پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ ڈاکٹر حیدر بٹ کا تعلق کشمیری نژاد برطانوی خاندان سے ہے۔
ڈاکٹر بٹ اس سے پہلے گلوکوز محسوس کرنے والے کونٹیکٹ لینس، کلر بلائنڈ افراد کےلیے کونٹیکٹ لینس اور کاربن نینوٹیوب ہولوگرامز جیسی اہم ایجادات کرچکے ہیں۔
کیمبرج اور برمنگھم یونیورسٹی میں تحقیق و تدریس کا وسیع تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر حیدر بٹ 2017 سے جامعہ خلیفہ کا حصہ ہیں۔
The post اس ہولوگرام کو کھایا بھی جاسکتا ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3sr9h5W
via IFTTT
No comments:
Post a Comment