Saturday, June 30, 2018

سندھی مڈل کلاس کو آخر کیسا متبادل چاہیے؟ ایکسپریس اردو

ایک ایسا صوبہ جس کی 60 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں بستی ہے اور دیہی علاقوں کے 30 سے 35 فیصد تک لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ایسی زندگی بسر کرتے ہیں جس میں خواندگی کی شرح بھی بہت کم ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے ووٹ کی معرفت اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے بجائے عام لوگ وڈیروں، جاگیرداروں اور مرشدوں کے تقاضوں پر سرِتسلیم خم کرلیتے ہیں۔

شہروں میں بسے سندھی بولنے والی مڈل کلاس نے 2013 کے انتخابات کے فوری بعد سوشل میڈیا پر لاکھوں پیغامات اور اخبارات میں سیکڑوں مضامین لکھتے ہوئے اس بحث کا آغاز کردیا کہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی تسلی بخش نہیں، اس لیے سندھ کو پیپلز پارٹی کا متبادل تلاش کرنا ہوگا۔

یہ وہ وقت تھا کہ جب پیپلز پارٹی کی قیادت پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) اور دیگر جماعتوں کے الیکٹیبلز کو کسی نہ کسی طرح سے اپنی جماعت میں شامل کرنے میں مگن تھی۔ حالانکہ 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں کو یکجا کرتے ہوئے مسلم لیگ (فنکشنل) نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بنا کر سندھ کے مڈل کلاس طبقے کو یہ موقعہ دیا کہ وہ اس الائنس کو پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر قبول کریں۔

متبادل سے متعلق سندھ کی مڈل کلاس کی تشفی پھر بھی نہ ہوئی اور اب نئے انتخابات 25 جولائی 2018 کو ہوں گے۔ سندھ میں صورتحال لگ بھگ 2013 جیسی ہی ہے۔ آصف زرداری دبے لفظوں میں پیغام دے رہے ہیں کہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ سے ان کے معاملات ٹھیک چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی والوں نے چہ مگوئیوں کی صورت اشارہ دیا کہ ’’موافق ماحول‘‘ کی بنیاد پر فریال تالپور صوبے کی وزیراعلیٰ بن سکتی ہیں۔ ایسا ہوا تو پیپلز پارٹی ایک اور نئی تاریخ رقم کرنے کا سہرا اپنے سر پر سجا سکے گی۔

لیکن ٹکٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ناراض ہو کر پیپلز پارٹی کے لگ بھگ 25 رہنما پارٹی کے نامزد امیدواروں کے خلاف انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کرچکے ہیں۔ الیکشن ٹربیونلز نے پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر نثار کھوڑو اور سابق صوبائی وزیر منظور وسان کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے ہیں جبکہ شبیر بجارانی جیسے بہ آسانی جیت جانے والے امیدوار گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا رخ کرنے لگے ہیں۔

صورتحال پیر صاحب پگاڑا کی قیادت میں سرگرم گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے حق میں ہوتے ہوئے بھی سندھی مڈل کلاس جی ڈی اے کو بطور متبادل قبول نہیں کر رہی۔ سندھی زبان کے مقبول اخبار کاوش کے ایڈیٹر محمد علی قاضی نے طویل سرگرمی اور سوچ بچار کے بعد ’’تبدیلی پسند پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھ دی۔ ان کی جماعت نے عام لوگوں کو ٹکٹیں دی ہیں۔ تاہم متبادل کی تلاش میں سرگرداں سندھ کے مڈل کلاس طبقے کی پیاس پھر بھی نہیں بجھی۔

وقت تیزی سے گزر رہا ہے، پولنگ کا دن قریب تر آتا جارہا ہے لیکن سندھ کا مڈل کلاس طبقہ یہی طے نہیں کر پایا کہ کون سی جماعت یا انتخابی اتحاد پیپلز پارٹی کا متبادل ہے! اندازہ یہی ہے کہ کم خواندہ لوگوں کے ووٹوں کی بدولت نئی حکومت کا فیصلہ بھی ہوجائے گا لیکن شہروں میں آباد، پڑھی لکھی مڈل کلاس ’’متبادل! متبادل!‘‘ کی گردان ہی کرتی رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سندھی مڈل کلاس کو آخر کیسا متبادل چاہیے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2yZcWRE
via IFTTT

No comments:

Post a Comment