سرگودھا: تاریخ گواہ ہے کہ جن اداروں کو وقت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپ گریڈ نہیں کیا گیا تو وہ ادارے اپنے قیام کا مقصد ہی کھو دیتے ہیں، لوگوں کا اعتماد ان اداروں سے اٹھ جاتا ہے اور معاشرے عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔
بدقسمتی سے پولیس کا محکمہ بھی ایسے ہی اداروںمیں شامل ہے، خصوصی طور پر ضلع سرگودہا کی پولیس کو وقت کے تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ نہیں کیا جا سکا، سرگودھا پولیس کو مطلوبہ وسائل فراہم کئے گئے اور نہ ہی مطلوبہ نفری دی گئی۔
سرگودھا کے ہمسایہ اضلاع کا اس سے موازنہ کیا جائے تو آبادی اور نفری کے حوالے سے سرگودھا ان کی درجہ بندی میں نچلی پوزیشن پر ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ سرگودھا کے سیاست دانوں کی عدم توجہ بھی ہے۔
سرگودھا سے کئی وفاقی اور صوبائی وزیر بنے تاہم بدقسمتی سے پولیس سے روابط تو رکھے گئے لیکن اس کی نفری میں اضافہ کے لئے سنجیدہ اقدامات نہ ہونے سے آج بھی سرگودھا پولیس کو نفری کی کمی کا سامنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سرگودھا میں 1980ء میں منظور ہونے والی نفری میں آبادی میں کئی لاکھ اضافہ ہونے کے باوجود اضافہ نہیں ہو سکا۔
بدقسمتی سے ضلع سرگودھا میں پولیس کی نفری مطلوبہ تعداد سے 84 فیصدکم ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سرگودھا میں کرائم کی شرح میں دن بدن اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ ضلع میں کرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے 27 تھانے قائم کئے گئے ہیں لیکن کوئی ایک پولیس سٹیشن بھی ایسا نہیں جہاں نفری کی تعداد پوری ہو۔
محض ایک سال میںکرائم کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو سرگودھا میں گزشتہ ایک سال کے دوران قتل کی مختلف وارداتوں میں 199افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ صرف 2020ء کے آخری مہینہ دسمبر میں 13افراد کو موت کے منہ میںدھکیل دیا گیا جبکہ ڈکیتی کے دوران اپنی جمع پونجی بچانے کی کوشش میں 3 افراد بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ 347 ایسے واقعات بھی رونما ہوئے، جن میں شہریوں پر قتل کے لئے وار تو ہوئے تاہم قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور وہ محفوظ رہے، لیکن اس دوران647 زخمی ہوگئے۔
ایک سال کے دوران پولیس حراست سے 4 ملزمان بھی فرار ہو گئے جبکہ ضلع میں 15پولیس مقابلے ،پولیس مزاحمت کے 32 واقعات اور کار سرکار کے 88واقعات بھی رونما ہوئے۔ ضلع میں500 سے زائد واقعات میں شہریوں کو مختلف مقاصد کے لئے اغواء کیا گیا۔ ایک سال کے دوران 123خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 9 خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں اور 28بچوں کو بھی درندگی کانشانہ بنایا گیا۔
ضلع میں ڈاکوؤں کی دیدہ دلیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ضلع کے 27تھانوں میں ایک سال کے دوران ڈکیتی کی 421وارداتیں ہوئیں، ان وارداتوں میں شہری کروڑوں روپے کے مال و زر سے محروم ہو گئے۔ شہریوں کے گھروں کے تالے توڑنے اور نقب زنی 574وارداتوں میں بھی شہری کروڑوں روپے کے مال و زر سے محروم ہوئے۔
جرائم کی شرح کا جائزہ لیا جائے تو ہر سال جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ پولیس کی نفری بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جا رہی ہے۔ سرگودھا کی آبادی 38 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے محکمہ کو مجموعی طور پر17ہزار311پولیس اہلکاروں ،انسپکٹرز اور تھانیداروں کی ضرورت ہے۔
تاہم ضلع کے پاس محض 2ہزار819 پولیس اہلکاروں ،انسپکٹرز اور تھانیداروں موجود ہیں، مطلوبہ نفری میں سے انسپکٹرز کی 88، سب انسپکٹرز کی455، اے ایس آئی کی 848، ہیڈ کانسٹیبل کی 1681، کانسٹیبلز کی 14239 اسامیوں کی ضرورت ہے۔
تاہم ضلعی پولیس کے پاس محض 42 انسپکٹرز، 144 سب انسپکٹرز، 276 اے ایس آئیز، 232 ہیڈ کانسٹیبلز، اور 2125 کانسٹیبلز دستیاب ہیں، تھانوں کی بات کی جائے تو سرگودہا میں تھانوں کی نفری بھی انتہائی کم ہے۔جس کی وجہ سے کرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔نفری کی کمی کے باعث جرائم کو کنٹرول کرنا پولیس افسران کے لئے چیلنج بن چکا ہے۔
The post 2020: جرائم کا گراف ایک بار پھر بڑھ گیا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MsI17J
via IFTTT
No comments:
Post a Comment