Wednesday, May 29, 2019

ون وِیلنگ: تفریح یا خودکشی ایکسپریس اردو

سنسان سڑک پر گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے میں کسی گاڑی یا مدد کا انتظار کررہا تھا۔ شہر کے بیچوں بیچ غیر مصروف شاہراہ، جو شہر کے دو کونوں کو ملاتی تھی، اُس پر کھڑا رات کے پچھلے پہر ٹھنڈ سے اب میں کپکپا رہا تھا۔ ایک دوست جس کا اپنا گیراج تھا، اس کو کال کرکے لوکیشن سمجھائی تو اس نے کہا ’’چونکہ رات بہت ہوچکی ہے اس لیے کسی کو بھی آنے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔‘‘ بات ادھوری رہ گئی اور ساتھ ہی میرے فون کی بیٹری بھی ختم ہوگئی تو میں بس فون کو گھور کر رہ گیا۔ مصیبت ہمیشہ غول میں حملہ آور ہوتی ہے۔ میں تیز ترین مواصلاتی دور میں سڑک کے کنارے دنیا سے منقطع ہوکر کھڑا تھا۔

گہرے بادلوں نے چاند کو کالی چادر اوڑھا دی تھی۔ گاڑی کا بونٹ کھلا تھا، مگر کوئی بھی گاڑی آتی تو ویران سڑک پر فراٹے بھرتی گزر جاتی۔ یا یہ کہہ لیں کہ گاڑی کا بونٹ کھلا دیکھ کر چور اُچکا سمجھ کر گاڑیوں کی رفتار مجھے دیکھنے کے بعد مزید بڑھ جاتی اور میں ہاتھ ہلاتا رہ جاتا۔ شاید میں خود بھی ہوتا تو رات کے اس پہر ایسی ویران اور خاموش جگہ کسی کی مدد کو نہ رکتا۔ امید تو تھی کہ کوئی نہ کوئی مدد پہنچے گی مگر صبر کا پیمانہ لبریز ہونا شروع ہوچکا تھا۔

قریب ایک گھنٹہ انتظار کے بعد ایک کار آتی دکھائی دی اور اس کی رفتار مجھے دیکھ کر کم ہوئی تو میں نے خوشی سے زور زور سے ہاتھ ہلانا شروع کیا۔ گاڑی قریب آکر پھر اچانک سے تیز ہوئی اور مجھی اپنی آخری امید کسی گہری کھائی میں جاتی محسوس ہوئی۔ وہ ایک ٹیکسی کار تھی۔ لیکن کچھ دور جاکر گاڑی رک گئی اور پیچھے آنا شروع ہوئی تو میری جان میں جان آئی۔ لیکن میں اپنی جگہ سے نہ ہلا کہ شاید میری ہلکی سی جنبش سے آنے والے مسیحا کا ذہن پھر نہ تبدیل ہوجائے۔ کیونکہ جو بھی تھا، رکنے والے کی یہ بہت دلیرانہ حرکت تھی اور یہ نیکی اس کی جان و مال کےلیے خطرہ بھی ہوسکتی تھی اور میرے ساتھ بھی اس ویرانے میں کچھ بھیانک ہوسکتا تھا۔

میں گم صم سا کھڑا تھا، میرے برابر پہنچ کر گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے ایک ضعیف العمر شخص نے چِلا کر پوچھا ’’ارے میاں کیا ہوگیا؟‘‘

اور بے اختیار میرے لبوں کو چھو کر رب کی ثنا ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ میں بھاگ کر گیا اور سلام کرکے ہاتھ ملانے کےلیے ہاتھ بڑھا دیا۔ چہرہ کچھ جانا پہچانا لگا۔ سفید گھنی داڑھی اور چشموں کے پیچھے سوالیہ مہربان آنکھیں ابھی تک جواب کے انتظار میں تھیں۔ میں نے کہا ’’گاڑی خراب ہوکر بند ہوچکی ہے اور اب گھر پہنچنا بھی مشکل نظر آرہا ہے۔ گاڑی تو گیراج والا لے کر جاسکتا ہے، مگر فون میں چارجنگ نہ ہونے کی وجہ سے رابطہ نہیں ہوپا رہا۔‘‘

’’ارے تو میرے فون سے کال کرلوِ‘‘ وہ شفقت سے بولے، لیکن مجھے نمبر کہاں یاد تھا۔ ایک قریبی دوست کا نمبر یاد تھا تو اسی کو کال ملائی اور صورت حال بتائی۔ اتفاق سے وہ بھی گیراج والے کو جانتا تھا تو اس نے کہا ’’گاڑی بند کرکے نکل جاؤ اور راستے میں گیراج میں چابی دے دینا۔‘‘

ٹیکسی والے بابا سے پوچھا اور جانے کا کہا تو انھوں نے کہا ’’میں اسی محلے میں رہتا ہوں اور آپ کو شکل سے جانتا بھی ہوں، کوئی بات نہیں آپ آجائیں۔‘‘

میں ضروری سامان لے کر ٹیکسی میں بیٹھ گیا اور ٹیکسی چل پڑی۔

’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا ’’علی بخش‘‘۔

میں ابھی تک گومگو کی کیفیت میں تھا، تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر سوال پوچھ ہی بیٹھا۔ ’’آپ کو ڈر نہیں لگا ایسی ویران جگہ میں ایک اجنبی شخص کےلیے رکتے ہوئے؟‘‘

وہ بولے ’’بالکل ڈر لگا تھا، اسی لیے جاتے جاتے رک گیا، ان بوڑھی آنکھوں کو آپ کا چہرہ شاید اسی دن کےلیے یاد رہ گیا تھا۔ اکثر آپ کو محلے کے کریانہ اسٹور پر آتے جاتے دیکھا تھا اور سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں شاید میرا پاؤں اچانک بریک پر آ گیا اور یہ سوچ کر رک گیا کہ اللہ مالک ہے اب جو بھی ہو قبول ہے۔‘‘

ان کے ہاتھوں میں تھوڑی لرزش تھی لیکن چہرے پر طمانیت آچکی تھی۔ تقریباً پانچ منٹ کے بعد گیراج آگیا اور ہم گیراج میں چابی دے کر گھر کی طرف چل دیے۔

’’آپ کی عمر کتنی ہے؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔

انھوں نے مسکرا کر جواب دیا ’’65 بہاریں دیکھ چکا ہوں، الحمدللہ۔‘‘

’’بچے نہیں ہیں آپ کے؟ مطلب اس عمر میں بھی آپ کام کررہے ہیں؟‘‘

اک گمبھیر خاموشی کے بعد وہ گویا ہوئے ’’جوان بیٹا 25 سال کی عمر میں ’موٹر سائیکل ون ویلنگ‘ کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملا۔‘‘ ایک بے باک آنسو ان کی داڑھی میں گرکر چھپ گیا۔ ’’پانچ بیٹیاں ہیں، الحمدللہ سب کی شادی کردی۔ اہلیہ بستر مرگ پر ہیں، جوان بیٹے کی جدائی اُن کو عمر سے بہت پہلے بوڑھا کرچکی تھی۔ عموماً شام کے وقت نواسی کو گھر چھوڑ کر نکلتا ہوں اور رات گئے گھر لوٹتا ہوں۔ اللہ پاک کا بہت احسان ہے کہ حلال کمانے کے قابل ہوں اور دُعا ہے کہ جتنی بھی زندگی ہے وہ عزت و ایمان سے گزرے۔‘‘

اتنے میں ہم اپنے محلے میں پہنچ گئے۔ میرے گھر کے سامنے گاڑی رکی تو میں نے پیسے نکالنے کےلیے بٹوہ نکالا، لیکن کپکپاتے ہاتھوں نے میرا ہاتھ تھام لیا اور بولے۔ ’’نا بیٹا نا… میں آج جتنا سوچ کر نکلا تھا، اس سے زیادہ کما کر آرہا تھا اور راستے میں آپ مل گئے۔ اس کے پیسے میں نہیں لوں گا۔‘‘

میں بہت شرمندہ ہورہا تھا کہ اس غیرت مند انسان کےلیے کیسے کچھ کرسکوں اور شاید بٹوے میں موجود سب کچھ دینے کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا۔ ایک بار پھر کوشش کی، لیکن اب کی بار غصے سے جھڑک دیا۔ میں نیچے اترا اور پھر مڑ کر ان کی طرف گیا اور ان کو گاڑی سے نیچے اتار کر احترام کی شدت اور غم و دکھ کی ملی جلی کیفیت میں ان کو گلے سے لگالیا۔ بوجھل قدموں سے اپنے گھر کی طرف مڑا، مجھے لگ رہا تھا کہ آنکھیں میرے آنسو نگل کر دل کے اندر گرا رہی ہیں۔ سلام ایسے غیرت مند اور حوصلے والے بہادر باپ کو جس نے رزق حلال کےلیے اپنا آپ وار دیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ امیر کون اور غریب کون؟ اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہوا، کیونکہ دنیا کے امیر ترین شخص سے ابھی ابھی ملاقات ہوئی تھی۔

موت تو برحق ہے، ہر کسی کو آنی ہے، مگر نوجوانوں سے گزارش ہے کہ بے شک اپنے وقت مقرر پر چلے جانا مگر اپنوں کو لاپروائی کی موت کا دکھ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے نہ دے کر جانا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر سال 1.35 ملین دنیا کی آبادی ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوجاتی ہے۔

ریسکیو 1122 کے مطابق سال 2016 سے 2018 کے بیچ ضلع راولپنڈی میں 25277 ٹریفک حادثات ہوئے، جس میں تقریباً 20 ہزار حادثات موٹرسائیکل کے تھے۔ جس کی بڑی وجوہات کم عمر ڈرائیورز، ٹریفک قوانین کی معلومات کا فقدان، اوور اسپیڈ اور وَن ویلنگ تھیں۔ ہر 25 میں سے 20 حادثات موٹرسائیکل کے ہیں۔ حادثات کا شکار ہونے والوں میں 3 میں سے ایک شخص 21 سے 30 سال کی عمر کا ہوتا ہے اور حادثات کا شکار ہونے والے 200 میں سے 4 جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ پورے پاکستان کے ٹوٹل حادثات میں 56 فیصد حادثات موٹرسائیکل کے ہوتے ہیں۔ اکتوبر 2004 سے اپریل 2019 تک صرف پنجاب میں 2165037 ٹریفک حادثات ریسکیو 1122 نے ریکارڈ کیے۔ یہ کچھ اعدادو شمار اُن حادثات کے ہیں، جو ریکارڈ میں موجود ہیں۔

اگر علی بخش چچا کو دیکھا جائے تو ریاست ایسے غیرت مند و ضعیف العمر محنت کشوں کو کب تک نظر انداز کرے گی کہ عمر بھر کے دھکے کھانے کے بعد بھی دو وقت کی روٹی کےلیے ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں؟ ایسے غیرت مند لوگ بھیک کے نام پر دی گئی مدد اور فلاحی کاموں کے فوٹو سیشن کروانا گوارا نہیں کرتے تو اس مد میں بے حسی کو بھگت رہے ہیں؟ یا پھر ہمیں اپنی ذات سے ہٹ کر درد نظر آنا بند ہوچکے ہیں؟

دوسری بات یہ کہ ہر سال کتنے ہی نوجوان دوسروں کو متاثر کرنے کےلیے موٹر سائیکل پر کرتب دکھاتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملتے ہیں۔ انھیں جانے سے روکا تو نہیں جاسکتا، لیکن کم از کم بے فکری یا لاپرواہی کے عنوان سے تو نہ جائیں۔ ہیلمٹ، اسپیڈ کنٹرول یا ٹریفک قوانین کا احترام کون سکھائے گا انھیں؟

کیا ہمارے ادارے اتنے کمزور، نااہل اور بے خبر ہیں کہ کوئی بھی لائسنس کے بغیر گاڑی لے کر نکل جاتا ہے؟

علی بخش چچا کے جواں سال بیٹے نے اُن کو عمر بھر سہنے کا جو درد دیا، کیا وہ ہر شخص برداشت کرکے علی بخش بن سکتا ہے؟ نہیں! سیکڑوں اسی درد کے ساتھ ہی زندہ رہ کر بھی مرجاتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post ون وِیلنگ: تفریح یا خودکشی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2JKVAwp
via IFTTT

No comments:

Post a Comment