استنبول: منی ایچر پینٹنگ دنیا میں آرٹ کی ایک اہم قسم سمجھی جاتی ہے تاہم ترکی کے ایک فنکار نے اس فن کو ایک نیا عروج عطا کیا ہے۔ ان کی بنائی ہوئی بعض پینٹنگز کو دیکھنے کے لیے محدب عدسے (میگنیفائنگ گلاس) کی ضرورت ہوتی ہے۔
حسن قال کو ترکی کا ’مائیکروانجیلو‘ بھی کہا جاتا ہے اور وہ بیجوں، ماچس کی تیلی کے روغنی کناروں اور میووں کے چھلکوں پر نہایت محنت اور مہارت سے تفصیلی خردبینی پینٹنگ بناتے ہیں اور اسی بنا پر اب دنیا بھر میں مشہور ہوچکے ہیں۔
ان کےمشہور فن پاروں میں ’پلپ فکشن‘ فلم کا ایک منظر بھی جو انہوں نے پاپ کارن کے اندر بنایا ہے ۔ ایک اور حیرت انگیز شاہکار میں انہوں نے چاول کے دانے پر ترکی کے رہنما مصطفیٰ کمال اتاترک کا پورٹریٹ بھی بنایا ہے۔ اپنے فن کے متعلق حسن نے کہا کہ انہوں نے 25 برس پہلے اس سفر کا آغاز کیا تاکہ وہ آرٹ کی ایک نئی جہت کو روشناس کراسکیں۔ اپنے استنبول کے اسٹوڈیو میں انہوں نے چھوٹی چھوٹی اشیا کو ’ مصوری کے کیپسول‘ قرار دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ کام سخت محنت اور نظم و ضبط مانگتا ہے ایک پینٹنگ بنانے میں انہیں چھ ماہ تک لگ جاتے ہیں۔ حسن کی عمر اب 60 برس ہے اور انہوں نے 1980 کے عشرے میں اپنا تخلیقی سفر شروع کیا تھا۔ لیکن 1995 میں انہوں نے باقاعدہ طور پر انتہائی باریک مصوری کا کام شروع کیا۔
پہلے انہوں نے خشک لوبیا کے بیج پر استنبول کی ایک عمارت بنائی جسے لوگوں نےبہت سراہا اور اس کے بعد حسن کو اس کام میں لطف آنے لگا اور انہوں نے ہر لمحہ بہتر سے بہتر کاموں کے لیے وقف کردیا۔
انہوں نے دانت میں پھنس جانے والی مچھلی کے کانٹے پر بھی پینٹنگ بنائی اور ساحل پر رکھے پتھروں پر بھی کام کیا ہے ۔ اس طرح وہ کل 300 سے زائد اشیا پر رنگ برنگی مصوری کے انتہائی حیرت انگیز نمونے نقش کرچکے ہیں۔ حسن نے شکر کےدانےاور سورج مکھی کے بیجوں پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔
حسن کہتے ہیں کہ قدیم ترکی میں نقاس عثمان نامی ایک عظیم فنکار گزرا ہے جو مغلیہ طرز کی چھوٹی پینٹنگ کے ماہر تھے۔ حسن کہتے ہیں کہ یہ شوق محنت اور بے حد صبر مانگتا ہے لیکن اس میں مالی منافع نہ ہونے کے برابر ہے۔ شروعات میں تو ان کی مصوری کسی نے نہیں خریدی لیکن اب دنیا بھر میں ان کے مداح ہیں اور ہزاروں ڈالرز میں ان کے شاہکار فروخت ہورہے ہیں۔
The post ترک فنکار کے خرد مصوری کے حیرت انگیز شاہکار appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2kkcFSD
via IFTTT
No comments:
Post a Comment