لاہور: وزیر اعظم عمران خان گزشتہ ایک برس سے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا دفاعی حصار بنے ہوئے ہیں،اس دوران انہوں نے نہ صرف اپنی جماعت کی تنقید برداشت کی ہے بلکہ عسکری حلقوں، افسرشاہی، میڈیا اور اپوزیشن کے شدید ترین دباو کو ابھی تک برداشت کیا ہوا ہے۔
سردار عثمان بزدار پر تنقید تو کی جاتی ہے لیکن یہ نکتہ پس پشت ڈال دیا جاتا ہے کہ سردار صاحب کے پاس اختیارات کس حد تک قابل استعمال ہیں۔گزشتہ ایک برس سے سردار عثمان بزدار اپنی کرسی بچانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں، نہ صرف تحریک انصاف بلکہ اتحادی جماعتوں کے درجنوں اراکین پنجاب اسمبلی وزیر اعلی بننے کی مہم چلاتے پھرتے ہیں۔
ایسے میں عثمان بزدار کی حکومتی گرفت نہ تو مضبوط ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس صورتحال میں عثمان بزدار کی کارکردگی کو پرکھا جا سکتا ہے کیونکہ کرسی بچانے کے چکر میں عثمان بزدار ہر کسی کے دباو میں آجاتے ہیں،تھوک کے حساب سے ہونے والے تقرر وتبادلے بھی اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے سردار عثمان بزدار کو اس مرتبہ آخری لائف لائن دی ہے اور ساتھ انہیں کہا ہے کہ وہ جیسے چاہتے ہیں اپنی ٹیم بنائیں لیکن کارکردگی دکھائیں۔
یہ اطلاعات بھی گردش میں ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پنجاب میں تبدیلی کیلئے کپتان پر دباو بڑھتا جا رہا ہے۔ پنجاب میں وزارت اعلی کے حوالے سے عمران خان کی سوچ اور انتخاب کا سمجھنے کیلئے گزشتہ دو برس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔2017 ء تک پورے ملک میں یہ معلوم تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن جیتا تو جہانگیر ترین پنجاب کے وزیر اعلی ہوں گے۔ جہانگیر ترین نے تحریک انصاف کی مضبوطی اور وسعت کیلئے بطور سیکرٹری جنرل جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ سیاسی تاریخ کا ایک باب ہے۔اربوں روپے کے مالی وسائل فراہم کیے۔
پھر پانامہ کیس میں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ’’توازن‘‘ قائم کرنے کیلئے تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان اور جہانگیر ترین میں سے کسی ایک کی قربانی چاہئے تھی یوں انھوں نے قربانی دیدی۔ عمران خان سمیت پوری تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ جہانگیر ترین کی نا اہلی سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد تحریک انصاف میں وزارت اعلیٰ پنجاب کیلئے بہت سے امیدوار منظرعام پرآنا شروع ہوئے لیکن عمران خان اور جہانگیر ترین نے عبدالعلیم خان کو اپنا امیدوار سمجھا۔ جہانگیر ترین کے بعد گزشتہ سات یا آٹھ برس میں جس فرد نے تحریک انصاف کیلئے بے مثال کام کیا ہے وہ عبدالعلیم خان ہیں۔
جنہوں نے مالی وسائل بھی پارٹی کیلئے وقف کئے اور انتھک محنت بھی کی۔ بہت سے لوگ علیم خان کے بعض فیصلوں کو غلطی قرار دیتے ہیں لیکن غلطی بھی اسی شخص سے ہوتی ہے جو کام کرتا ہے نکموں سے تو غلطی بھی نہیں ہو اکرتی۔ لاہور میں ن لیگ کی اجارہ داری ختم کرنے کا کریڈٹ علیم خان کو جاتا ہے۔25 جولائی کے الیکشن ڈے سے قبل ہر ایک کو معلوم تھا کہ علیم خان وزارت اعلی کے امیدوار ہوں گے۔
سیاسی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ اچانک ہی پارٹی کے بعض لوگوں نے جہانگیر ترین کو اس بہکاوے کا شکار کردیا کہ آپ کی نا اہلی کے خلاف اپیل التواء میں ہے اگر علیم خان وزیر اعلیٰ بن جاتے ہیں اور چند ماہ بعد آپ کی اپیل منظور ہو جاتی ہے تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو علیم خان سے واپس لینا مشکل ہو جائے گا۔
علیم خان کے خلاف نیب بھی اچانک متحرک ہو گیا اور نوٹسز کی برسات ہو گئی۔ اسی دوران پارٹی میں نئے نام سامنے آنے لگے، شاہ محمود قریشی اور چوہدری محمد سرور بھی امیدوار تھے، سب سے زیادہ مضبوط نام میاں اسلم اقبال کا معلوم ہونے لگا، ہمایوں یاسر، مخدوم ہاشم جواں بخت کا نام بھی سامنے آیا لیکن ’’روحانی‘‘ وسیلوں اور ’’دوستوں‘‘ کی جانب سے عثمان بزدار کی نامزدگی کام دکھا گئی اور انہیں وزیر اعلی بنا دیا گیا۔عثمان بزدار مختلف وجوہات کی بناء پر خود کو کپتان کا وسیم اکرم پلس ثابت نہیں کر سکے اور کپتان پر تبدیلی کیلئے دباو بڑھتا چلا گیا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران کم ازکم تین مرتبہ وزیر اعلی پنجاب کی تبدیلی کی مہم بھرپور طریقے سے چلی ہے۔
تحریک انصاف میں کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ چار یا پانچ ماہ سے جہانگیر ترین میاں اسلم اقبال کو ’’تبدیلی‘‘ کیلئے متبادل آپشن کے طور پر پروموٹ کر رہے ہیں،اس تاثر نے تحریک انصاف کے اندر جہانگیر ترین کے مخالفین کی تعداد بڑھائی ہے اور ترین صاحب کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ عون چوہدری کو بھی عہدے سے اسی وجہ سے ہٹایا گیا جبکہ صوبائی وزیر اجمل چیمہ بھی انہی اعتراضات کا شکار ہیں۔
باخبر حلقوں کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران صورتحال ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے اور عمران خان بہت مضبوطی سے یہ رائے اپنا چکے ہیں کہ ’’اگر‘‘ پنجاب میں تبدیلی لانا بھی پڑی تو میاں اسلم اقبال متبادل نہیں ہوں گے۔کہا جاتا ہے کہ ’’دوستوں‘‘ کی جانب سے بھی میاں صاحب پر اعتراضات اور تحفظات سامنے آ چکے ہیں۔ متبادل وزیر اعلیٰ کے طور پر عبدالعلیم خان کا نام اب بھی لیا جاتا ہے، عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کے درمیان تعلقات کی سابقہ گرمجوشی پیدا ہونے میں ابھی مزید کچھ وقت لگے گا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ماضی بحال ہو جائے گا کیونکہ’’دوست‘‘ بھی یہی چاہتے ہیں۔
علیم خان اور جہانگیر ترین ہمیشہ ایکدوسرے کی طاقت کا محور رہے ہیں۔ جہانگیر ترین نے خود الیکشن لڑا یا ان کے صاحبزادے کا الیکشن ہوا، علیم خان نے غیر معمولی انداز میں اس میں حصہ لیا۔ کچھ عرصہ قبل جب جہانگیر ترین ایک موذی مرض میں مبتلا ہوئے تو علیم خان کے گھر میں کئی ہفتوں تک ان کی صحت کیلئے صدقے کے بکرے ذبح ہوتے رہے لیکن وزارت اعلی کے معاملہ پر الیکشن کے بعد جو تلخی پیدا ہوئی اس نے دونوں کو نقصان پہنچایا،اس صورتحال سے دونوں کے سیاسی مخالفین نے بھی فائدہ اٹھایا اور مختلف افواہیں پھیلانا شروع کردیں۔
ان افواہوں میں یہ افواہ بھی شامل ہے کہ چند ماہ قبل عبدالعلیم خان کی گرفتاری کے پیچھے بھی جہانگیر ترین تھے لیکن جو لوگ جہانگیر ترین کو قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ جہانگیر ترین ایک خاندانی آدمی ہے وہ اس طرح کی حرکت اپنے مخالفین سے نہیں کرتا تو اپنے بھائی جیسے دوست سے کیسے کر سکتا ہے۔ فی الوقت تو سردار عثمان بزدار کی اونچی اڑان کو کوئی نہیں پکڑ پا رہا۔
وہ کابینہ میں بڑی تبدیلیاں بھی کرنے والے ہیں اور افسر شاہی میں بھی ایسی تبدیلیاں کر رہے ہیں کہ جو وزراء وزیرا علی بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں انہیں ’’ٹف ٹائم‘‘ ملے۔ عثمان بزدار کو اب حکومتی امور کی سمجھ آ چکی ہے اس لئے اپنی آخری لائف لائن کو استعمال کرتے ہوئے انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ یہ استعداد رکھتے ہیں کہ پرفارم کر سکیں اور اپنے مخالفین سے نبٹ سکیں۔
The post سردار عثمان بزدار نے وزیر اعلیٰ بننے کے خواہشمندوں کا راستہ روک لیا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2muitK8
via IFTTT
No comments:
Post a Comment