اشنا چہ پہ وعدہ دے اعتبار وکڑم کہ نہ
حیران یمہ چہ بیا دے انتظار وکڑم کہ نہ
(ترجمہ: محبوب آپ کے وعدے پہ اعتبار کرلوں یا نہیں، حیران ہوں کہ پھر آپ کا انتظار کرلوں یا نہیں؟)
پشتو کی خوبرو اور معروف گلوکارہ ماہ جبین قزلباش کی سُریلی اور میٹھی آواز میں جب بھی ریڈیو پاکستان پشاورسے مذکورہ غزل نشرہوتی توسامعین ہمہ تن گوش ہوجایا کرتے کیوں کہ ایک تواس غزل کا ہرشعر نئے معانی کا ایک جہان کھولتا ہے، دوسرے اس غزل کوماہ جبین قزلباش نے جس خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے، اس کی نغمگی اورسحر اب بھی اسی طرح برقرارہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال قبل تھا۔
صاحب سیف و قلم خوش حال خان خٹک کے صاحب زادے اور پشتو زبان کے صاحب دیوان شاعر عبدالقادرخان خٹک اپنے ایک شعرمیں فرماتے ہیں کہ ’’میں خدا سے ایک ایسا دوست اور بہی خواہ مانگتا ہوں جو مجھے میرے عیب اورکم زوریاں پیشگی بتائے۔‘‘ ہمارے ممدوح نے بھی یہی روش اختیار کر رکھی ہے، وہ زبانی اورتحریری طور پر سچائی کوچھپانے یا اس پر کسی قسم کی مصلحت کا رنگ اور لبادہ ڈالنے کے ہرگز قائل نہیں۔ انقلابی اور بامقصد پیغام کوکبھی کبھار مزاح کی زبان میں پیش کرنے کا ہنر توکوئی ان سے سیکھے، جس طرح لکھنے میں محتاط رہتے ہیں اس طرح بولنے میں بھی بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ وہ انتہائی کم گو مگر دل آویز شخصیت ہیں۔ تقریر کے بجائے تحریر کے آدمی ہیں۔
اپنے سے بہت کم عمر کے نوجوان شاعروں، ادیبوں کے ساتھ ایک دوست جیسا رویہ اور تعلق رکھتے ہیں۔ وہ عمر کے اس حصے میں بھی بڑے چاق و چوبند نظر آتے ہیں اور پشتو زبان میں ترقی پسند اور معیاری ادب کے فروغ کی خاطر انہیں جہاں بھی مدعوکیا جاتا ہے وہ کمربستہ رہتے ہیں۔ لباس کی طرح خوراک کے معاملے میں بھی سادگی پسند ہیں۔ انہیں ہر وہ رنگ پسند ہے جس میں زندگی کی جھلک نظرآئے۔ بطور ڈاکٹرعلم نفسیات سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔
مرنجاں مرنج، بذلہ سنج، نقطہ رس، آزاد طبع شخصیت ڈاکٹراسرار نہ صرف پشتو ادب میں ایک منفرد لب ولہجے اوراُسلوب کے شاعر، ادیب، مترجم، نقاد اوردانشورکے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں بلکہ پشتو انشاء، رسم الخط پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سامنے بولتے وقت استاد قسم کے پشتو دان بھی بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ ظرافت و بصیرت کا جو حسین امتزاج ان کے ہاں ملتا ہے وہ پشتو میں اپنی مثال آپ ہے، اگر پشتوادب میں پشتوانشائیہ کے موجودہ دور کو کسی نام سے منسوب کیا جاسکتا ہے تو اس کے اصل حق دار ڈاکٹراسرار ہی ہو سکتے ہیں۔ ظاہری شکل صورت سے اتنی علمی، ادبی شخصیت اورایم بی بی ایس ڈاکٹر کے بجائے، عام دیہاتی قسم کے انسان نظر آتے ہیں۔ کندھے پر سفید ہلکی سی چادر ان کے لباس کا لازمی جزو بن چکی ہے، جسے زیب تن کیے بغیر کے بغیر وہ نہیں رہ سکتے۔
معصومانہ چہرہ اور سرمئی نیلی آنکھیں مخاطب کو پہلی ہی ملاقات میں اپنا گرویدہ بنا لیتی ہیں، بلاضرورت، بے موقع محل بولنے سے اسی طرح سخت پرہیزکرتے ہیں جیسے جاپانی صنف ہائیکوسے۔ بطور ایک مانے ہوئے نقادکے کسی فن پارے پراس وقت تک اپنی رائے کا اظہارنہیں کرتے جب تک شرکائے مجلس کی تمام آراء سامنے نہیں آتیں، وہ تنقید برائے تعمیر بمع دلیل کے قائل ہیں۔ اگرچہ خودترقی پسند ادبی تحریک میں نہیں رہے مگرنظریاتی طور پر ترقی پسند نظریہ ادب کے وکیل اورطرف دار ہیں، جسے وہ عقل پسندی کا نام دیتے ہیں۔
ان کے بقول عقل سے بڑھ کرکوئی رہنماء نہیں مگربدقسمتی سے ہمارے ہاں زیادہ کام جذبات سے لیا جاتا ہے جس کی زندہ مثال مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا معاملہ ہے۔ وہ لوگ جو اس مسئلے پر اپنی جذباتیت کا اظہار کرتے ہیں اگر عقل و فہم سے کام لیں توان کا سارا تذبذب ختم ہو جائے گا۔
ڈاکٹر اسرار 15دسمبر1938ء کو ہوتی مردان کے سیدگھرانے میں سید شمال شاہ باچا کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدا سے میٹرک تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول مردان سے حاصل کی۔ شعر وشاعری کا چسکا انہیں بچپن ہی سے لگا تھا کیوں کہ اس زمانے میں نہ صرف حجروں میں ادبی اورروایتی موسیقی کی محفلیں سجتی تھیں بلکہ باچاخان کی قیادت میں چلنے والی خدائی خدمت گار تحریک کے زیر اہتمام ہر جلسے میں بھی انقلابی اورقوم پرستی پر مبنی نظمیں پیش کی جاتیں، جس نے ڈاکٹر اسرارکے اندر خوابیدہ شاعرکوبیدار کیا۔
بعدازاں اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا، وہاں ان دنوں پشتو کے معروف شاعر ادیب اور نقاد قلندر مومند نے ’’زلمی لیکوال‘‘ کے نام سے ایک ادبی تنظیم بنا رکھی تھی۔ قلندر مومند ان دنوں ایم اے انگریزی کر رہے تھے، ڈاکٹر اسرار بھی اس تنظیم سے وابستہ ہو گئے جہاں پر ان کو عبدالرحیم مجذوب، ڈاکٹر محمد اعظم اعظم، ارباب سیف الرحمان جیسے لوگوں کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا۔
اس دوران انہوں نے پشتو کی مشہور ترقی پسند ادبی تنظیم اولسی ادبی جرگہ میں بھی ایک دو بار نہ صرف شرکت کی بلکہ پہلی بار اپنی ایک غزل بھی تنقید کے لیے پیش کی جسے وہ اپنے لیے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔ ایف ایس سی کرنے کے بعد خیبر میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، لیکن انہی دنوں وہ اچانک بیمار ہوگئے اور بیماری اس قدر طویل ہوئی کہ ان کو کالج تک چھوڑنا پڑا اور دو سال تک بستر سے لگے رہے لیکن جب تندرست ہوئے تو پھر سے خیبر میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا اور 1965ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔
اس کے بعد فوج میں بطور ڈاکٹر بھرتی ہو گئے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد الگ ہو گئے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں کا ماحول ان کی طبعیت سے میل نہیں کھاتا تھا۔ جب وہ ڈیوٹی کے لیے روانہ ہوتے تو ہسپتال کے گیٹ پر سنتری ان کو دیکھتے ہی سیلوٹ کرتا جو ان کو گراں گزرتا، اسی طرح واپسی پر بھی ان کو سلیوٹ کیا جاتا اس سے بچنے کے لیے انہوں نے راستہ تبدیل کر لیا، اس پر سنتری سے سامنا نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بھی کبھی وہ دیکھ لیتا تو فوراً سلیوٹ مار دیتا جس پر وہ دل میں بہت کڑھتے کہ یار یہ بھی انسان ہے اس کو سلیوٹ نہیں کرنا چاہیے۔
چونکہ وہ محکمے کے انداز تبدیل نہیں کرا سکتے تھے اس لیے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور سول سروس کی طرف میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے آئے اور کرم ایجنسی میں ان کی پہلی پوسٹنگ ہوئی اور کچھ عرصہ بعد ڈیرہ اسماعیل خان تبادلہ ہوا جہاں پر وہ سات سال تک رہے۔
1970ء میں اپنے والدین کی مرضی سے شادی کی۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے چار بچوں تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا ہے۔ جس وقت وہ محکمہ صحت میں سیکشن آفیسر مقرر ہوئے تواپنے محکمے کی جانب سے لیبیا بھیجے گئے، چند ماہ بعد تنزانیہ نے یوگنڈا پر حملہ کیا چوںکہ لیبیا کے صدر کے یوگنڈا کے ساتھ اچھے مراسم تھے تو جن ڈاکٹروں اور فوجیوں کو یوگنڈا بھیجا گیا ان میں ڈاکٹر اسرار بھی شامل تھے۔ تنزانیہ نے وہ جنگ جیت لی اور ڈاکٹر اسرار بھی دیگر فوجیوں سمیت قیدی کی حیثیت سے تنزانیہ بھیجے گئے۔ وہاں ایک صحت افزاء مقام ڈوڈوما کی ایک جیل میں رکھے گئے۔
کافی سال تک ڈاکٹر اسرار کا گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا اور پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ ان دنوں شاعروں ادیبوں نے ان کی رہائی کے لیے تحریک چلائی جس میں قلندر مومند اور اندیش شمس القمر پیش پیش تھے۔ کچھ عرصہ بعد ان کا پتہ چل گیا اور ایک روز وہ گھر پہنچ گئے، یہاں پر پھر سے سروس شروع کی اور چند سال بعد محکمہ صحت سے بطور ڈپٹی ڈائریکٹر ریٹائرڈ ہوئے۔ یوں بقول مرحوم ایوب صابر، قیدی ایک اورملک چار، یعنی بطورقیدی انہوں نے لیبیا، تنزانیہ، یوگنڈا اور نائجیریاکی سیاحت کی۔
ویسے تو ادبی اصناف میں ڈاکٹر اسرارکے بہت سے حوالے ہیں، تاہم انشائیہ جسے پشتومیں ’’تکل‘‘ کہتے ہیں ان کا ایک ایسا معتبرحوالہ بن چکا ہے کہ جب اور جہاں بھی پشتو ادب میں انشائیہ کا ذکر ہوتا رہے گا ان کا نام سب سے پہلے لیاجائے گاکیوں کہ وہ نہ صرف ایک مانے ہوئے انشائیہ نگارہیں بلکہ ایک بہترین نقاد بھی ہیں۔
انشائیوں پر مشتمل کتاب ’’دتکل پہ تکل کے‘‘ اور شاعری کا مجموعہ ’’دجوند نغمہ‘‘ چھپ چکے ہیں۔ انہوں نے دوران ملازمت مختلف وقتوں میں سیاسی و دینی موضوعات پر انگریزی، اردو اور پشتو میں فضل داد، قاضی فضل داد، مولانا عبدالرشید اور محمد انور بنگش اور ملاگوری کے فرضی ناموں سے مضامین بھی لکھے۔ بچپن سے ڈاکٹر اسرار کو استاد بننے کا شوق تھا اور ایک مرتبہ انہوں نے اس کے لیے انٹرویو بھی دیا اور جب منتخب امیدواروں کی فہرست لگی تو ان کا نام سب سے اوپر تھا، جس پر دوستوں نے مبارک باد دی، وہ بھی مطمئن تھے کہ ملازمت پر بلا لیا جائے گا لیکن کافی روز تک کچھ پتہ نہ چلا، انہوں نے جا کر معلوم کیا تو بتایا گیا کہ اس پوسٹ پر تو تعیناتی ہو گئی ہے۔ ان دنوں 1965ء کی جنگ شروع ہو گئی جس پر فوج کی طرف سے ان کو بلا لیا گیا۔
ایک زمانے میں بلا کے سگریٹ نوش تھے، اچھی شاعری اور معیاری موسیقی کے بہت دلدادہ ہیں۔ ایک زمانے میں فلمیں بھی دیکھاکرتے تھے، فارغ وقت میں ان کا محبوب مشعلہ مطالعہ کرنا ہوتا ہے، وہ اس وقت مردان سے نکلنے والے ترقی پسند پشتو مجلے ’’پاسون‘‘کے نگران ہیں۔ ان کے بقول انفارمیشن ٹیکنالوجی ہی آج کی اہم ضرورت ہے اوراس سے قوموں کی زبانوں اور ثقافتوں کوکوئی خطرہ لاحق نہیں، خطرہ ان زبانوں کودرپیش ہے جوانفاریشن ٹیکنالوجی سے احتراز بھرتے ہیں۔
پشتوزبان نے اسے اپنا کرآج بہت ترقی کی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج پشتوکی بے شمار ویب سائٹس اورایف ایم ریڈیوچینلزموجود ہیں۔ دنیاکے بڑے بڑے ممالک میں پشتو بولی اور سنی جاتی ہے۔ ڈاکٹر اسرارکا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے عصری تقاضوں کو پوراکرنا ہے، عالمگیریت کی ضرورت اورنزاکت کوسمجھنا ہوگا۔ پشتو ادب نے بہت زیادہ ترقی کی ہے، اچھے اچھے لکھنے والے سامنے آئے ہیں خصوصاً جدید پشتو غزل میں نئے نئے تجربے بھی ہو رہے ہیں، موضوعات کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر اسرار سمجھتے ہیں کہ جدید پشتو نظم کو جو لب و لہجہ مضامین اور اُسلوب اجمل خٹک، قلندر مومند اور ولی محمد طوفان نے بخشا وہ نئے لکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ پشتو افسانہ بھی زمانہ قدیم کی نسبت ترقی کر گیا ہے تاہم قلندر مومند کے افسانے تکنیکی لحاظ سے ایسے افسانے ہیں جنہیں ہم دیگر زبانوں کے بڑے بڑے افسانہ نگاروں کے افسانوں کے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔
بقول ان کے، سب سے بہتر اور معیاری افسانہ وہ ہے جو پڑھنے والے کو متاثر کرے اور تادیر اس کو یاد رہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے توماسٹرکریم اور قلندر مومندکے افسانے اس معیار پر پورا اترتے ہیں جس کی ایک وجہ ان لکھاریوں کی اپنے نظریے سے کمٹمنٹ تھی، نئے افسانہ نگاروں میں نظریاتی لکھاری بہت کم ہیں، اگرچہ نظریے کے بغیرادب کا وجود ہی ممکن نہیں۔ ہائیکوکے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ہماری زبان میں مشہورعوامی صنف ’’ٹپہ‘‘کے علاوہ قطعہ اور رباعی موجود ہیں اس لیے ہائیکوکی ضرورت نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں لوگوں نے ہائیکوسے منظوم لطیفے بنارکھے ہیں، ہائیکونے اب تک اردو میں اپنی حیثت نہیں منوائی پشتومیں کیا منوائے گی۔
ابتدا میں ڈاکٹر اسرار پشتوکے شاعرانسانیت رحمان بابا اورعوامی شاعر احمد دین طالب کی شاعری سے بہت متاثر تھے مگرجس وقت وہ اسلامیہ کالج آئے توصاحب سیف وقلم خوشحال خان خٹک کی شاعری سے بھی متعارف ہوئے، ان کے بقول اگرخوشحال خان خٹک نہ ہوتے توہماری قومیت، زبان اورادب بھی ادھورا ہوتاکیوں کہ ان کے پاس ادب، تاریخ، فلسفہ، سیاست، قومیت اورتصوف سب کچھ موجود ہے۔
پشتو میں پہلی بار خوشحال خان خٹک کواپنی اصل شکل و صورت میں پیش کرنے کا سہرہ مرحوم دوست محمد خان کامل اورقلندر مومندکے سر ہے۔ ان کے خیال میں جدید پختون نیشنلزم کے خدوخال خوشحال خان خٹک کی شاعری میں ملتے ہیں تاہم اس کے بانی خان عبدالغفارخان المعروف باچاخان ہیں۔ ڈاکٹراسراراس حقیقت کومانتے ہیں کہ پشتومیں نثر کی بہت کمی ہے اوراس وقت پشتوکوعلمی نثرکی اشد ضرورت ہے۔ ڈاکٹراسرارنے کبھی عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا تاہم نظریاتی لحاظ سے وہ باچاخان اورخان شہید عبدالصمدخان اچکزئی کے پیروکار ہیں۔ وہ صوبے کے نام میں تبدیلی اور اٹھارویں ترمیم کوعوامی نیشنل پارٹی کا ایک ناقابل فراموش اور تاریخی کارنامہ گرادانتے ہیں جس نے تریسٹھ برس بعد پختونوں کو اپنی شناخت اور پہچان دی۔
ڈاکٹر اسرارکا کہنا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں اور دانشوروں کو نئی دنیا کے تقاضوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ ملک میں امن اور جمہوریت کے قیام کے لیے عوام کے بنیادی انسانی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا، اس امن کا کوئی فائدہ اورنتیجہ نہیں نکلے گا جو انسان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا ہو۔ پائیدار امن اور جمہوریت کا تعلق انصاف اورمساوات سے جڑا ہوا ہے۔ دہشت گردی اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک اس سوچ کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا جو اس کے پیچھے ہے۔
ہمارا دین اسلام تو ہمیں امن، سلامتی، محبت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے جس میں شدت پسندی، تنگ نظری اورکسی کی دل آزاری کرنے کی کسی کوبھی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پختون اپنی دھرتی پر امن اور ترقی چاہتے ہیں، ان کے بچے قلم اورکتاب مانگتے ہیں اور پورے ایشیاء کا امن اور ترقی پختون سرزمین کے امن اورترقی سے وابستہ ہے، جسے علامہ اقبال نے ایشیاء کا دل کہا ہے اور جب تک کسی وجود کا سلطان البدن یعنی دل بے آرام اور بے چین ہو توظاہرہے کہ پورا جسم بے قرار اور بے چین رہے گا، لیکن خدا جانے کہ ہمارے ملک کے سابق اور موجودہ حکمرانوں اور دانشوروں کی نظروں سے شاعر مشرق کے اس قسم کے افکارکیوں اوجھل رہتے ہیں؟
ڈاکٹر اسرار کے چند مشہور اشعار:
خُلہ مے سوال تہ نہ جوڑیگی لویہ خدایہ
ہرچہ خہ وی تہ ئے مالا بے دعا را
تہ زما لہ اختیاجہ خہ خبرئے
زہ بہ سہ وایم چہ دا راکا یا دا را
(ترجمہ۔ میرے ہاتھ دعا کے لیے نہیں اٹھتے، جو میرے لیے بہتر ہے وہ بغیر دعا کے ہی دے دو کیوں کہ تُو میری حاجت سے باخبر ہے، میں کیا کہتا رہوں گا کہ یہ دے دو یا یہ دے دو۔)
یادے یادھم لکہ ستا راسرہ پریخوہ
یا زما دتصور سانگونہ مات دی
دہ سکون سادرمے واغستواودہ شوم
سوازولے مے وعدے د ملاقات دی
(ترجمہ۔ یا تو آپ کی یاد نے بھی آپ ہی کی طرح میرا ساتھ چھوڑ دیا یا پھر میرے تصور کے پر ٹوٹ گئے ہیں، سکون کی چادر اوڑھ کر سو گیا ہوں، ملاقات کے وعدوں کو جلا کر)
اے اوخکوا سویلوسوو سلگودار مانونو
خندا بہ درنہ ھم چرے یووار اوکڑم کہ نہ؟
(ترجمہ۔ اے میرے ارمانوں کے آنسوؤ، آہو، اور جلی ہوئی سسکیو!
کبھی مجھے ایک بار مسکرانے بھی دو گے کہ نہیں؟)
ھُم عشق کوو، ھم گرزو خاریو کے، خُورو او سکُو
عاشق وو خو زمونگہ غوندے پوھے نہ وو مجنون
(ترجمہ۔ عشق بھی کرتے ہیں، شہروں میں بھی گھوم پھر کر کھاتے پیتے بھی ہیں۔ مجنوں بھی عاشق تھا مگر ہماری طرح سمجھ دار نہیں تھا۔)
’’میٹھا اور گول مٹول شعر‘‘
ڈاکٹر اسرار انتہائی شگفتہ مزاج شخصیت ہیں۔ آج سے تقریباً تیس سال قبل کی بات ہے کہ ہم نے پشتوکے ایک روزنامے کے دفتر میں ایک ادبی فورم کی بنیاد رکھی جس کے پندرہ روزہ تنقیدی اجلاس ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ہمارے ایک نوخیزشاعر نے اپنی ایک غیرمعیاری غزل تنقیدکے لیے پیش کی، تاہم وہ اپنے ساتھ رس گلوں کا ڈبہ اورکچھ گرم سموسے لائے تھے جو دوران اجلاس ہم مزے سے کھا رہے تھے۔ جب ہم کسی شعر پر تنقید کرتے اس وقت ڈاکٹر اسرار کے ہاتھ میں رس گلہ ہوتا تو وہ جواب میںکہتے کہ یہ توبہت میٹھا اورگول مٹول شعر ہے اور اگر ان کے ہاتھ میں سموسہ ہوتا تو اسے مصالحہ دار شعرکا نام دیتے۔ جس کی وضاحت انہوں نے اجلاس ختم ہونے اور اس نوخیز شاعرکے چلے جانے کے بعد کر دی کہ تم بھی بڑے عجیب ہو، بھلا گرم سموسوں اور رس گلوں سے ہماری کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟
The post نئی دنیا کے تقاضوں کا ادراک کیے بغیر ترقی ممکن نہیں ، ڈاکٹر اسرار appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PEuYkv
via IFTTT
No comments:
Post a Comment