لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
قذاقِ اجل نقارہ بجا بجا کر دن رات لوگوں کو لوٹ رہا ہے اور اس کے آگے سب کے سب بے بس اور لاچار ہیں۔ ابھی عظیم اداکار و ہدایت کار اور ڈرامہ پروڈیوسر عابد علی کی وفات کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ دنیائے کرکٹ کے نابغہ روزگار اورگوہرِ نایاب رائٹ آرم لیگ اسپنر عبدالقادر کے سانحہ ارتحال کی غم ناک خبر کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ لیجنڈری نیوزکاسٹر ثریا شہاب کی مسحورکن آوازکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجانے کی دل شکن منحوس خبر سننے کو ملی۔ آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز۔ یہ لافانی آواز ریڈیو اور ٹی وی کے بے شمار سامعین کے کانوں میں سدا رس گھولتی رہے گی۔
اخباری ذرایع کے مطابق وہ عرصہ دراز سے سرطان اور الزائمر کے مرض میں مبتلا تھیں اور اسلام آباد میں مقیم تھیں۔ ان کے لواحقین میں دو صاحب زادے اور ایک صاحب زادی شامل ہیں۔ سامعین کی صورت میں ان کے سوگ وار پرستاروں کا کوئی شمار نہیں جن کے دل اداس اور آنکھیں اشک بار ہیں۔ 12 ستمبر جمعرات کی شام ان کی طبیعت اچانک اتنی خراب ہوگئی کہ انھیں اسپتال لے جانے کا موقع بھی نہ مل سکا اور جمعہ کی مبارک صبح وہ سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں اور یوں ان کے تحریرکردہ شاہکار ناول ’’سفر جاری ہے‘‘ کے عنوان کا ہر حرف عین حقیقت ہے بقول شاعر:
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر
ریڈیو پاکستان جو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا نگہبان، مملکت خداداد کا ترجمان، پاکستانی قوم اور دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان ہے فنکاروں اور نشرکاروں کی اولین اور بہترین تربیت گاہ بھی ہے جن کے ناموں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ان کا احاطہ کرنا بھی ممکن نہیں۔ سچ پوچھیے تو اسی ادارے سے تربیت یافتہ ناموروں نے پی ٹی وی کی بھی آبیاری کرکے اسے بام عروج تک پہنچایا۔
چنانچہ ثریا شہاب جیسی غیر معمولی صلاحیت والی صداکارہ کو آواز کی دنیا بشمول ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن میں متعارف کرانے کا سہرا عظیم براڈکاسٹر اور ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی آغا ناصر جیسے جوہر شناس کے سر ہے۔ ثریا شہاب نے اپنے براڈ کاسٹنگ کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے ممتاز و معروف شاعر، ادبی شخصیت اور منفرد ڈرامہ نویس سلیم احمد (مرحوم) کے تحریرکیے ہوئے ایک خوبصورت ڈرامے سے کیا جس نے ان کی شہرت اور مقبولیت کے ڈنکے بجا دیے۔
ثریا شہاب کی عمر اس وقت 15-14 سال کے لگ بھگ تھی۔ بمشکل ایک سال ہی گزرا تھا کہ ان کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا اور انھیں ریڈیو ایران زاہدان سے بلاوا آگیا جہاں انھوں نے دس سال تک اپنی آوازکا جادو جگایا اور ریڈیو تہران کے ایک میگزین پروگرام کو غیر معمولی مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ پھر وہ وطن عزیز پاکستان آگئیں اور نیوزکاسٹرکی حیثیت سے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہوگئیں اور یہاں بھی اپنی کامیابی اور غیر معمولی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ان کی آواز اور شخصیت میں بلا کی کشش اور غیر معمولی جاذبیت تھی۔ حسن سیرت کے بغیر خوبصورتی نامکمل اور ناتمام ہے۔ اس حوالے سے کسی شاعر نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کیا خوب فرمایا ہے:
سیرت کے ہم غلام ہیں‘ صورت ہوئی توکیا
سرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا
رب کریم نے ثریا شہاب کو ظاہری حسن سے بھی زیادہ باطنی حسن سے نوازا تھا۔ وہ انسانی ہمدردی، سادگی اور خوش گفتاری کا پیکر تھیں۔ عاجزی اور انکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حسن اخلاق ان کا طرہ امتیاز تھا۔ دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کرنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن تھا جس کی تکمیل میں وہ ہمہ تن زندگی بھر مصروف رہیں۔ ’’یوتھ لیگ‘‘(Youth Lieague) نامی فلاحی تنظیم کے پلیٹ فارم سے انھوں نے خدمت خلق کے بے شمار کام انجام دیے جو ان کی بخشش اور مغفرت کا سامان بنیں گے۔ ان کی شخصیت اعلیٰ اوصاف اور بلند اقدار کا مجموعہ تھی۔
ان سے مل کر ہمیشہ تازگی اور فرحت کا احساس ہوتا تھا ۔جو بھی ان سے ملتا تھا وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ ان سے ہماری پہلی ملاقات ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے شعبہ خبر کے اردو سیکشن میں ہوئی جہاں اکثر ہماری بیٹھک ممتاز نیوز کاسٹرز کے ساتھ ہوا کرتی تھی جس میں عبدالسلام (مرحوم) کے علاوہ دیگر ممتاز نیوز کاسٹرز خالد حمید اور حمید اختر کے نام قابل ذکر ہیں۔ اردو یونٹ کے پیارے اور محبتی ارکان بشمول وقار علی شاہ سے ہمارے یارانے کا آغاز بھی اسی زمانے میں ہوا۔ سب سے بڑھ کر ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر آف نیوز اور جوہر قابل سید نذیر بخاری کے ساتھ نیاز مندی کا اٹوٹ تعلق بھی اسی سنہری دور میں قائم ہوا۔
’ش‘۔ ’ق‘ کے درست تلفظ اور بہترین Pause اور Stress کے ساتھ آواز کے زیر و بم پر مکمل کنٹرول پر عبور رکھتے ہوئے شائستہ لب و لہجے میں بروقت خبریں پڑھنا کبھی ریڈیو پاکستان کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔ افسوس کہ اب وہ درخشندہ روایت برقرار نہیں رہی اور عالم یہ ہے کہ بعض نیوز کاسٹرز تو اپنے نام میں شامل ش ق کا درست تلفظ تک نہیں کرسکتے۔ براڈ کاسٹنگ ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔ اس کے کچھ مخصوص تقاضے اور لوازمات ہیں۔ لیکن نجی نشریاتی اداروں کی بھرمار اور یلغار نے براڈ کاسٹنگ کے شعبے کی مٹی پلید کردی ہے۔ جسے دیکھیے اینکر اور نیوز کاسٹر بنا ہوا ہے۔
ہم نے ریڈیو پاکستان کے ممتاز نیوز کاسٹرزکو بہت قریب سے دیکھا ہے، ان میں اپنے ہم نام لیجنڈری نیوز کاسٹر اور 1965 کی پاک بھارت جنگ میں اپنے گھن گرج والے منفرد اور مخصوص انداز میں خبریں پڑھ کر پاکستانی عوام اور افواج پاکستان کے حوصلے بلند کرنے والے شکیل احمد کے علاوہ شمیم اعجاز اور انور بہزاد جیسے عظیم نیوز کاسٹرز بھی شامل ہیں جو خبروں کے پڑھنے سے پہلے ریہرسل کے لیے کم ازکم ایک گھنٹے پہلے آکر نیوز بلیٹن کو Scan کرکے اس کا اس حد تک پوسٹ مارٹم کردیا کرتے تھے کہ اس کا خاصہ بڑا حصہ انھیں حفظ ہوجاتا تھا۔
ثریا شہاب کی کامیابی کا اصل راز اپنے پیش روؤں کی اسی روایت کی پیروی میں مضمر ہے۔ وہ نیوز بلیٹن کے نشر ہونے کے مقررہ وقت سے بہت پہلے آتی تھیں اور نہایت خاموشی اور یکسوئی کے ساتھ خبریں پڑھنے کی ریہرسل میں منہمک ہوجاتی تھیں۔ وہ آج کل کی نیوز کاسٹرز جیسی بالکل بھی نہیں تھیں جو ’’کاتا اور لے دوڑی‘‘ کی غلط روش پر گامزن ہیں اور بغیر کسی تیاری کے مائیکرو فون پر آکر خبریں پڑھنا شروع کردیتی ہیں اور غلطی پر غلطی کرتی ہیں اور بار بار لڑکھڑا لڑکھڑا کر نیوز بلیٹن کا بیڑا غرق کردیتی ہیں۔ ثریا شہاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ریڈیو پاکستان کی دو نمایاں نیوز کاسٹرز عشرت ثاقب اور ثمینہ وقار اپنا مقام بنا رہی ہیں۔
ثریا شہاب نے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے علاوہ معروف بین الاقوامی نشریاتی اداروں بی بی سی، وائس آف امریکا اور وائس آف جرمنی کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اگرچہ بنیادی طور پر ثریا ایک براڈ کاسٹر تھیں لیکن شعر و ادب بھی ان کی شخصیت کا ایک قابل ذکر حوالہ ہے۔ ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں جن میں شاعری کی ایک کتاب ، افسانوں کا ایک مجموعہ اور دو ناول شامل ہیں۔ شاعری میں پنجابی زبان کی شاعری کی مقبول صنف ’’ماہیا‘‘ بھی شامل ہے۔ کم سنی میں ریڈیو ایران زاہدان سے وابستگی کی وجہ سے ثریا شہاب کی تعلیم ادھوری رہ گئی تھی جس کی تکمیل انھوں نے وطن واپسی کے بعد کی۔ جرنلزم اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ پولیٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کرنا چاہ رہی تھیں کہ انھیں کینسر کا موذی مرض لاحق ہوگیا اور ان کی یہ خواہش ادھوری رہ گئی۔
ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے قومی نشریاتی رابطے پر پیش کیے جانے والے بے حد مقبول پروگرام ’’صبح پاکستان‘‘ میں گزشتہ 15 ستمبر بروز اتوار ثریا شہاب کی رحلت کے حوالے سے ایک خصوصی تعزیتی رپورٹ نشرکی گئی جو ریڈیو پاکستان کے چند سابق ارکان کے تاثرات پر مبنی محض ایک رسمی کارروائی تھی۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ افسوس کہ انھیں ان کی زندگی میں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق تھیں۔ یہی سلوک ریڈیو پاکستان کے بے مثل نیوزکاسٹر شکیل احمد (مرحوم) کے ساتھ روا رکھا گیا جو نشریاتی محاذ پر قوم کے عظیم ہیرو تھے۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ برسوں تک ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی سمیت مختلف نشریاتی اداروں سے دنیا بھر کی خبریں سنانے والی نابغہ روزگار نیوز کاسٹر ثریا شہاب کے انتقال پر ملال کی خبر ان کے پرستاروں کو تاخیر سے ملی۔ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ان کی پاکیزہ روح یہ صدا بلند کر رہی ہو:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفس وہ خواب ہیں ہم
The post گوہرِ نایاب ثریا شہاب appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mH6FEh
via IFTTT
No comments:
Post a Comment