موقر بھارتی اخبار دی ہندو کے یکم ستمبر کے شمارے میں صحافی کے سدھرشن کا ایک مضمون شایع ہوا جو ایک سابق سفارت کار بھرت راج متھو کمار کی یادداشتانہ گفتگو کی مدد سے مرتب کیا گیا ہے۔متھوکمار انیس سو چھیانوے سے سن دو ہزار تک تاجکستان میں بھارتی سفیر رہے۔
اس مضمون کے مطابق چھبیس ستمبر انیس سو چھیانوے کو طالبان نے کابل پر قبضہ کیا۔اقوامِ متحدہ کے دفتر کے احاطے میں پناہ گزین سابق افغان صدر نجیب اللہ کو حراست میں لیا اور انھیں ہلاک کر کے لاش بجلی کے کھمبے سے لٹکا دی گئی۔لاش کے منہ اور نتھنوں میں سگریٹ ٹھونس دیے گئے اور پھر یہ تصویر عالمی اخبارات میں بکثرت شایع ہوئی۔اس تصویر سے اندازہ ہوا کہ آنے والے دنوں میں افغانستان کی کیا سمت ہو گی۔
بھارتی سفارتی عملے نے تین اکتوبر کو کابل کا سفارتخانہ خالی کر دیا اور ایک خصوصی طیارے میں دلی روانہ ہو گیا۔متھو کمار کی بطور سفیر اگلی پوسٹنگ تاجکستان میں ہو گئی۔اس وقت امر اللہ صالح دوشنبے کے افغان سفارت خانے میں بطور افسر رابطہ برائے شمالی اتحاد فرائض انجام دے رہے تھے (یہ وہی امر اللہ صالح ہیں جو کرزئی دور میں دوہزار چار تا دو ہزار دس افغان انٹیلی جینس این ڈی ایس کے سربراہ اور پھر اشرف غنی حکومت میں اس سال جنوری تک وزیرِ داخلہ رہے)۔
متھو کمار بتاتے ہیں کہ انیس سو چھیانوے میں دوشنبے میں تعیناتی کے چند روز بعد امراللہ صالح کا فون آیا کہ کمانڈر ( احمد شاہ مسعود)آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔متھو کمار نے دہلی سے رابطہ کیا اور انھیں ملاقات کی اجازت مل گئی۔متھو کمار اور ان کے نائب ڈاکٹر ایس اے قریشی نے دوشنبے کے علاقے کرامووا اولیسی میں رہائش پذیر احمد شاہ مسعود سے متعدد طویل ملاقاتیں کیں۔ان ملاقاتوں میں امراللہ صالح احمد شاہ کے انگریزی مترجم کے فرائض انجام دیتے تھے۔
احمد شاہ مسعود نے استفسار کیا کہ بھارت اس گھڑی میں شمالی اتحاد کی کیا اور کتنی مدد کر سکتا ہے۔متھو کمار نے یہ سوال دہلی بھیج دیا۔دہلی نے پوچھا کہ شمالی اتحاد کی مدد سے بھارت کو کیا ملے گا ؟ متھو کمار نے جواب دیا کہ شمالی اتحاد طالبان کا دشمن ہے اور طالبان پاکستان کے اتحادی ہیں۔ وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ نے متھو کمار کو براہ راست فون کر کے کہا کہ ’’ کمانڈر کو بتا دو کہ ہم سے جو بن پڑے گا کریں گے‘‘۔
اس کے بعد لندن میں مقیم احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ولی مسعود کو رقومات بجھوانے کا سلسلہ شروع ہوا۔شمالی اتحاد کے دستوں کے لیے موسمِ گرما و سرما میں کام آنے والی یونیفارمز ، بارود ، مورٹار ، چھوٹے ہتھیار ، کشمیر میں جہادیوں سے چھینی جانے والی کلاشنکوفوں کا ذخیرہ ، ڈبہ بند خوراک اور ادویات کی رسد سپلائی کی گئی۔کچھ سامان براہ راست دلی سے دوشنبے بھیجا جاتا اور کچھ سامان دوست ممالک کا چکر کٹوا کر بجھوایا جاتا۔سپلائی کا انتظام بھارتی ملٹری انٹیلی جینس کے ہاتھ میں تھا۔
دوشنبے ایئرپورٹ سے یہ رسد باآسانی کسٹمز کلیرنس کے بعد تاجک افغان سرحدی قصبے فرخور تک پہنچائی جاتی۔ وہاں شمالی اتحاد کے دس ہیلی کاپٹر رکھے گئے تھے۔یہ رسد ان ہیلی کاپٹروں کے ذریعے شمالی افغانستان منتقل کی جاتی۔ان ہیلی کاپٹروں کے لیے فاضل پرزوں کی فراہمی اور دیکھ بھال کا کام بھی بھارتی ٹیکنیشنز کرتے تھے۔انیس سو چھیانوے سے ننانوے کے درمیان بھارت نے دو روسی ساختہ ایم آئی ایٹ ہیلی کاپٹر بھی شمالی اتحاد کو دان کیے۔
فارخور میں ایک پرانی اسپتالی عمارت کو پھر سے کارآمد بنایا گیا۔وہاں محاذِ جنگ کے زخمی سپاہی ہیلی کاپٹروں سے منقل کیے جاتے۔شدید زخمیوں کو دوشنبے اور دلی منتقل کیا جاتا۔جب کہ دیگر زخمیوں اور مریضوں کا فارخور میں ہی علاج ہوتا۔
اس اسپتال میں دو آپریشن تھیٹر اور چوبیس بستر تھے۔ آئی سی یو سیکشن میں چھ سے آٹھ مریض رکھے جا سکتے تھے۔ اس اسپتال کا انتظام پانچ بھارتی ڈاکٹروں اور چوبیس رکنی نیم طبی عملے کے ذمے تھا۔اس طبی منصوبے پر اس زمانے میں پچھتر لاکھ ڈالر کے اخراجات آئے۔اسپتال کی او پی ڈی سے مقامی تاجک بھی فائدہ اٹھاتے تھے۔
بھارتی سفیر متھو کمار نے اس اسپتال کے نزدیک ہیلی پیڈ بنانے کی بھی دلی کے افسرانِ بالا سے درخواست کی مگر اکاؤنٹس کے بابوؤں کے اعتراضات کے سبب یہ کام نہ ہو سکا۔چنانچہ اس کا مقامی حل یہ نکالا گیا کہ کپاس کے گٹھوں کو جوڑ کر ایک لچکدار ہیلی پیڈ بنایا گیا۔اس پر ہیلی کاپٹر بغیر جھٹکا لیے آرام سے اتر سکتا تھا۔
جنوری انیس سو ننانوے میں تاجک صدر امام علی رحمانوف ویتنام سے وطن واپس جاتے ہوئے چند گھنٹوں کے لیے دلی میں رکے اور وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں تاجک ایئر بیس عینی کے استعمال کا معاملہ زیرِبحث آیا۔سوویت دور میں یہ ایئر بیس افغان مشنز کے لیے سوویت فضائیہ کے استعمال میں تھا لیکن کچھ عرصے سے روسی فضائیہ نے اسے ترک کر دیا تھا۔
بھارت چاہتا تھا کہ صدر رحمانوف عینی کو بطور فارورڈ بیس بھارتی فضائیہ کو استعمال کرنے کی اجازت دے دیں۔ اجازت مل گئی۔بھارت نے ایئر بیس کے رن وے میں توسیع کی۔ایک گروپ کیپٹن کی کمان میں فضائیہ کا پانچ رکنی عملہ بھی مستقل متعین کیا۔اگرچہ یہاں سے بھارتی فضائیہ نے کوئی آپریشن نہیں کیا مگر آج بھی عینی بھارت کے فارورڈ بیسز کی فہرست میں شامل ہے۔
سن دو ہزار میں متھو کمار کا تاجکستان سے بیلا روس تبادلہ ہو گیا۔نوستمبر دو ہزار ایک کو انھیں اطلاع ملی کہ مزار شریف میں احمد شاہ مسعود ایک قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو گئے اور انھیں طبی امداد کے لیے فارخور کے طبی مرکز منتقل کیا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔نائن الیون کے ایک ماہ بعد جب افغانستان پر امریکی بمباری شروع ہوئی اور شمالی اتحاد نے کابل کی جانب پیش قدمی شروع کی تو فارخور کی اسپتالی سہولتوں کو بھی نئے حالات میں مزار شریف منتقل کر دیا گیا۔
اپنی موت سے تین ماہ قبل احمد شاہ مسعود نے دلی کا خفیہ دورہ کیا اور وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ سے آنے والے حالات اور ممکنہ تعاون پر تبادلہِ خیالات کیا۔ اس ملاقات کا تذکرہ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’اے کال ٹو آنر ’’ میں بھی کیا ہے۔
متھو کمار جو اب سفارت کاری سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اپنے تجربے کی روشنی میں اس بات کے حق میں نہیں کہ بھارت کسی بھی مرحلے پر افغانستان کے اندر کسی کے بھی کہنے پر اپنے فوجی اتارے۔متھو کمار نے اس تناظر میں احمد شاہ مسعود کے حوالے سے یہ واقعہ سنایا۔
’’ جب انیس سو اٹھانوے کے موسمِ گرما میں طالبان نے مزار شریف پر قبضے کے بعد بیس سے زائد ایرانی سفارت کاروں کو قتل کر دیا۔تو اس کے ردِ عمل میں ایران نے ڈھائی لاکھ فوج افغان سرحد پر بھیج دی۔میں نے ( احمد شاہ مسعود ) ایرانی قیادت سے درخواست کی کہ تحمل سے کام لیں۔ہم آج تک نہ صرف اپنی لڑائی لڑتے آ رہے ہیں بلکہ افغانستان میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف بھی نبرد آزما ہیں۔لہذا اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کرنے سے بہتر ہے کہ ہماری مدد کرو تاکہ تمہاری مدد سے ہم طالبان اور ان کے پاکستانی سرپرستوں کو پسپا کر سکیں اور ایک عام افغان کی نظر میں تمہاری عزت اور وقار بھی بطور ایک دوست ملک برقرار رہے‘‘۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
The post بھارت، احمد شاہ مسعود اور افغانستان appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZAbr9u
via IFTTT
No comments:
Post a Comment