امریکی تھنک ٹینک جیو پولیٹیکل انٹیلی جنس پلیٹ فارم اسٹریٹ فورکی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
تنازعہ کشمیر جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کو چنگاری فراہم کرسکتا ہے، رواں سال فروری میں پاکستان نے بھارتی طیارہ گرایا تھا تاہم مارچ میں پاکستان نے اس کے پائلٹ ابھی نندن ورتمان کو رہا کر دیا تھا لیکن نریندر مودی نے ابھی تک اس کا اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی بھارتی حکومت ابھی تک مسئلہ کشمیر پر پاکستان سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
ایٹمی ملکوں نے دنیا پر احسان کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کا اعلان کیا تھا ، لیکن بھارت کے جن سنگھی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایٹمی ہتھیار کے استعمال میں پہل نہ کرنے کے وعدے سے انحراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بھارت مستقبل میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال حالات دیکھ کر کرے گا ‘‘ بھارت اور پاکستان کے پاس اسٹرٹیجک اور ٹیکنیکل ایٹمی ہتھیار ہیں جو مقامی کمانڈر میدان جنگ میں استعمال کرسکتے ہیں۔
دریں اثناء امریکی اخبار نیویارک ٹائمزکی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے کشمیر میں انتہائی قدم اٹھانے کی سازش میں تین مرحلوں میں عمل کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں گرفتاریاں اور لاک ڈاؤن ایک مرحلے کا حصہ ہیں اس سازش پر عملدرآمد کا آغاز بی جے پی کی اچانک مقبوضہ کشمیر حکومت سے علیحدگی سے ہوا تھا۔ دوسرے مرحلے میں ریاستی گورنر نے ریاستی اسمبلی تحلیل کردی۔ تیسرے مرحلے میں 5 اگست کو آرٹیکل 370 ہی ختم کردیا گیا۔
پوری وادی میں لاک ڈاؤن اور ہزاروں کشمیریوں کی غیر قانونی گرفتاریاں بھی اسی مرحلے کا حصہ ہیں۔اب بھارتی فوج منتخب نمایندوں اساتذہ اور 17 سال کی عمر کے طلبا کو رات کی تاریکی میں گھروں سے اٹھا کر فوجی جہازوں میں بھر بھر کر بھارت کے دوسرے شہروں کی جیلوں میں منتقل کر رہی ہے۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے۔ جمہوریت میں حکومتیں انتخابات کے موقعے پر اپنا منشور جاری کرتی ہیں کیا بھارت کے منشور میں پاکستان کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال شامل ہے؟ اصل میں سرمایہ دارانہ جمہوریت میں بجٹ کا بہت بڑا حصہ دفاع پر رکھا جاتا ہے اور یہ بہت بڑا حصہ عوام کا پیٹ کاٹ کر رکھا جاتا ہے چونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں جنگ ناگزیر ہوتی ہے اس لیے عوام کا پیٹ کاٹ کر ایک بھاری رقم دفاع پر رکھی جاتی ہے۔بھارت اور پاکستان دونوں کا تعلق دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔
ان ملکوں کی اہم اور بنیادی ضرورت عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنا ہے لیکن ان ملکوں کی ترجیح میں عوام کا معیار زندگی بلند کرنا آتا ہی نہیں لہٰذا حکومتیں عوام کی زندگی میں بہتری کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتیں۔ جن ملکوں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتا ہے کیا اس کی ضرورت ایٹمی ہتھیار ہوتے ہیں؟ یہ دنیا کے سیاستدانوں کا کھیل ہے اور دنیا کے سیاستدان سرمایہ دارانہ نظام کے غلام ہیں تو پھر ان سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟
عوام کو ریاستی مفادات کے نام پر اس قدر پابند کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کی غلطیوں اور بلینڈر پر آواز نہیں اٹھا سکتے۔کیا دو ملکوں کے درمیان جنگ سے ریاستی عوام کو کسی قسم کا کوئی فائدہ ہوسکتا ہے؟ پھر جنگوں کے کلچرکو اتنا پھیلانے کی ضرورت کیا ہے پاکستان اور ہندوستان کی پوری تاریخ جنگوں اور جنگوں کی تیاری کی تاریخ ہے جس ملک کے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گذار رہے ہوں۔
اس ملک کا حکمران طبقہ جنگوں اور جنگوں کی تیاریوں کو اپنی ترجیح بناتا ہے تو کیا عوام کا یہی فرض ہے کہ وہ منہ بند کرکے بیٹھے رہیں؟ حکمران طبقات کی ترجیحات میں عموماً عوامی دولت کی لوٹ مار پہلی ترجیح بنا ہوا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک عوام منہ نہیں کھولیں گے۔جمہوریت کو اشرافیہ نے اپنی لوٹ مار کا ذریعہ بنالیا ہے اور جمہوریت عوام کو یہ حق دیتی ہے کہ ناپسندیدہ جنگ باز حکمران طبقے کو نکال باہر کریں، لیکن سرمایہ دارانہ جمہوریت کے پالیسی سازوں نے حکومت کے ساتھ ایک حکومت کا دم چھلا اپوزیشن بنادیا ہے حالانکہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہوتے ہیں لیکن جمہوریت کے معماروں نے انھیں بہ ظاہر ایک دوسرے کے مخالف بنائے رکھا ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حکمران طبقات بہ ظاہر ایک دوسرے کے دشمن نظر آتے ہیں لیکن وہ اندر سے ایک ہوتے ہیں کیونکہ ان کے مفادات ایک ہوتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ دونوں ہی طبقات عوام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے اور اس حوالے سے انسانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ کرہ ارض پر رہنے والوں کی اجتماعی بھلائی کے لیے کام کریں لیکن اشرافیائی مساوات کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ عوام کو مذہب، رنگ، نسل، زبان، قومیت وغیرہ کے نام پر اس طرح بانٹ کر رکھا جائے کہ یہ معصوم مخلوق کبھی ایک دوسرے کے قریب نہ آسکے۔
ذرا ملاحظہ فرمائیے کشمیری ہزاروں سال سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں ان کی نسل ایک ہے ان کی زبان ایک ہے ان کا کلچر ایک ہے لیکن مذہب کے نام پر یہ معصوم بندے ایک دوسرے کا خون بہانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں کیا یہ ایک دوسرے کے دشمن کبھی یہ سوچنے کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ آدم سارے انسانوں کا جد امجد ہے، اس حوالے سے دنیا کے سارے انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
1947 میں ملک تقسیم ہوا کہا جاتا ہے کہ تقسیم کے فسادات میں 22 لاکھ انسان مارے گئے کیونکہ انھیں مذہبی جنون میں مبتلا کرکے رکھ دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیر کی جنگ میں اب تک 70 لاکھ کشمیری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ان کا گناہ کیا تھا۔ یہ مسلمان تھے۔ مسلمان ہونا کیا اتنا بڑا جرم ہے کہ 70 لاکھ انسانوں کو مار دیا جائے۔ مسلمان بھی آپس میں سخت تقسیم کا شکار ہیں اور جب تک مسلمان اس تقسیم سے باہر نہیں آتے وہ لڑتے رہیں گے مرتے رہیں گے۔ ایک خبر کے مطابق امارات اور بحرین دونوں مسلم ملک ہیں، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے ملکوں کا سب سے بڑا سول اعزاز دیا ہے۔ مودی نے بحرین میں کرشنا ناتھ مندر کا افتتاح کیا۔
The post عرب بادشاہوں کی مفاد پرستی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PMwAZA
via IFTTT
No comments:
Post a Comment