کراچی: پورے ملک میں بغیر امتحانات کے میٹرک اور انٹر کے طلبہ کو ’’ پروموشن پالیسی‘‘کے تحت پاس کرنے کے انتہائی گمبھیر اور حیران کن حقائق و نتائج سامنے آئے ہیں۔
کووڈ 19 کے سبب سندھ سمیت پورے ملک میں بغیر امتحانات کے میٹرک اور انٹر کے طلبہ کو ’’ پروموشن پالیسی‘‘کے تحت پاس کرنے کے انتہائی گمبھیر اور حیران کن حقائق و نتائج سامنے آئے ہیں اور انٹر بورڈ کراچی کی جانب سے پروموشن پالیسی کے تحت جاری کردہ انٹر سال دوئم پری میڈیکل ، پری انجینیئرنگ اور کامرس کے نتائج میں تاریخ میں پہلی بار”ای اور ڈی” گریڈ میں 45 فیصد سے کم مارکس لے کر پاس ہونے والے طلبہ کی تعداد 40ہزار سے زائد ہے جس میں تینوں فیکلٹیز میں ای گریڈ میں پاس طلبہ کی تعداد 33639 ہے۔
گذشتہ برس 2019 میں صرف 735 طلبہ نے ان تینوں فیکلٹیز میں ای گریڈ میں پاس ہوئے تھے 40 ہزار سے زائد ہے یہ طلبہ ایچ ای سی کے قواعد کے تحت کسی بھی یونیورسٹی یا ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹ میں داخلے کے اہل نہیں رہے، ان طلبہ پر بظاہر اعلی تعلیم کے دروازے بند ہوگئے ہیں کیونکہ پالیسی سازوں نے اس پالیسی کے تسلسل میں ایچ ای سی یا جامعات کو اس بات کا پابند نہیں کیا کہ وہ ایسے طلبہ کے داخلوں پر بھی غور کریں جو پروموشن پالیسی کے سبب بہتر مارکس لے کر انٹر میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں ایچ ای سی نے سرکاری جامعات کو ایک خط کے ذریعے الحاق شدہ کالجوں میں دو سالہ ڈگری پروگرام بند کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
اعلی ثانوی تعلیمی بورڈز کراچی سے موصولہ پروموشن پالیسی کے تحت جاری کیے گئے نتائج اور گزشتہ برس 2019 کے امتحانی نتائج کے اعداد و شمار کے تجزیے کے مطابق پری انجینیئرنگ فیکلٹی میں گزشتہ برس 2019 میں ” ڈی اور ای” گریڈز میں بالترتیب 2834اور 201 طلبہ پاس ہوئے تھے تاہم اس برس پروموشن پالیسی کے تحت “ڈی” گریڈ میں 11673 اور “ای” گریڈ میں 9503 طلبہ نے پری انجینیئرنگ کا امتحان پاس کیا ہے۔
اسی طرح پری میڈیکل میں گزشتہ برس 2019 میں ڈی گریڈ میں 1001 طلبہ پاس ہوئے تھے اور اس سال 2020 میں 7624 طلبہ نے ڈی گریڈ لیا جبکہ گذشتہ برس 28 طلبہ نے ای گریڈ لیا تھا تاہم پروموشن پالیسی کے بعد 2020 میں 3965 طلبہ نے ای گریڈ لیا ،ذرائع بتاتے ہیں کہ طلبہ کے ڈی اور ای گریڈ میں پاس ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسے طلبہ جو انٹر سال اول میں ایک یا دو پرچوں میں فیل تھے۔
تاہم دیگر پاس مضامین میں ان کا نتیجہ 60 فیصد یا اس سے زائد تھا پروموشن پالیسی کے تحت انھیں تو انٹر سال اول کے فیل پرچوں اور انٹر سال دوئم میں ان ہی مضامین میں دیگر مضامین سے تناسب لے کر ایوریج مارکنگ کی بنیاد پر پاس کردیا گیا تاہم وہ طلبہ جو انٹر سال اول میں ایک یا دو پرچوں میں فیل تھے تاہم پاس کیے گئے مضامین میں انٹر سال اول میں ان کا نتیجہ 60 فیصد سے کم تھا، ان طلبہ کو پاس مضامین کے تناسب سے ایوریج مارکنگ کے بجائے انٹر سال اول کے فیل مضامین اور انٹر سال دوئم کے ان ہی مضامین میں 33/33 مارکس دے کر پاس کیا گیا۔
دوسری جانب چیئرمین اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ (انٹرمیڈیٹ بورڈ)کراچی پروفیسر انعام احمد سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں میں ہمارے بورڈ کے نتائج کا تناسب 40 سے 60 فیصد کے درمیان ہی رہا ہے باقی طلبہ فیل ہوتے ہیں۔
ڈی اور ای گریڈ میں اتنی بڑی تعداد میں پاس ہونے والے بچے وہی ہیں جو ہر سال فیل ہوتے ہیں ،چیئرمین انٹر بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ انٹر سال اول میں جن طلبہ ایک یا دو پرچے رک گئے تھے تاہم باقی پرچوں میں ان کا نتیجہ 60 فیصد یا اس سے زیادہ تھا انھیں فیل پرچوں اور سیکنڈ ایئر میں ان ہی پرچوں میں 33/33 مارکس دے کر پاس نہیں کیا گیا بلکہ متعلقہ پرچوں میں ان کی دیگر پاس پرچوں کے حوالے سے ایوریج مارکنگ کی گئی ہے 33/33 مارکس دے کر صرف انھیں پاس کیا گیا ہے۔
سندھ کے ایک تعلیمی بورڈ کے چیئرمین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پالیسی اور اس کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے طلبہ کے پاس یہ ” چانس” ہوتا ہے کہ وہ اسکورنگ سبجیکٹ میں محنت اور understanding کی بنیاد پر اپنی percentage کو سیکنڈ ائیر میں بڑھا لیں اور اس کی مثالیں بھی موجود ہیں تاہم جب طالب علم سیکنڈ ائیر کے امتحان میں شریک ہی نہیں ہوا اس نے اسکورنگ سبجیکٹ کا امتحان بھی نہیں دیا تو اس کے پاس سے نہ صرف یہ موقع چلا گیا کہ وہ اپنی percentage کو بڑھاتا یا اسے maintain رکھتا بلکہ اس کے برعکس اس کی percentage مزید گرگئی ۔
The post پروموشن پالیسی، ملکی تاریخ میں پہلی بار ہزاروں طلبہ پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2JuFaJz
via IFTTT
No comments:
Post a Comment