Friday, August 31, 2018

الیکشن ری پلے ایکسپریس اردو

الیکشن کمیشن کی صراحی سے قطرہ قطرہ ٹپکتے نتائج نے ایک پرانے فلمی گانے کی یاد دلادی، جس کے بول تھے:

لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے

مجبور کر رہی ہے پھر گردش زمانہ
ہم چھیڑ دیں وہیں سے گزرا ہوا فسانہ

لیکن کوئی بتادے بھولے ہیں ہم کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے

یہ بھولا بسرا گیت ہمیں بھولے بسرے الیکشن کی یاد دلا گیا۔ آج کی نئی نسل یہ سمجھ رہی ہے کہ شاید ملک میں پہلی بار آزادانہ الیکشن کا انعقاد ہوا ہے، لیکن ایسا بالکل بھی نہیں۔ اس سے پہلے بھی ایک بار 1990 میں آزادانہ الیکشن کا انعقاد ہوا تھا۔ یہ وہی مشہور زمانہ الیکشن تھا جس میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کےلیے کئی جماعتوں پر مشتمل ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ تشکیل دیا گیا تھا۔ اسی زمانے کا ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں تاحال زیر سماعت ہے جو ہمارے ملک کے ایک بہت ہی نیک نام اور بزرگ سیاستدان ریٹائرڈ ایئر مارشل مرحوم اصغرخان نے دائر کیا تھا۔

اس مقدمے میں اصغر خان نے الزام لگایا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف اسد درانی نے آئی جے آئی کے مختلف رہنماﺅں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کیے تھے۔ اس مقدمے کو شہرت تو بہت ملی لیکن آج تک اس کا کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔
ہمیں یہ الیکشن اس لیے یاد آئے کہ اُس وقت بھی ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے نتائج آگئے تھے لیکن لیاری کا نتیجہ آنے میں تین دن لگے تھے۔

اُس زمانے میں پنجاب کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائں اور سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی تھے۔ جام صادق علی نے تو پیپلز پارٹی کو سندھ میں بھی جیتنے نہیں دیا تھا۔ کراچی بار میں کچھ وکلاء الیکشن کے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے تھے تو ایک وکیل نے اس پر بہت اچھا تبصرہ کیا۔ کہنے لگے، ’’جب وائن بھی ہو اور جام بھی، تو رزلٹ ایسا ٹُن ہی آئے گا۔‘‘

حالیہ الیکشن میں تو نہ وائن ہے نہ جام ہے، تو پھر یہ کس کا کام ہے؟ آپ نے فلم دیو داس دیکھی ہے؟ پہلے اس فلم میں دلیپ کمار نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا، اگلی بار اس فلم کے ہیرو شاہ رخ خان تھے۔ لیکن فلم میں صرف ہیرو بدلا تھا، کہانی اور مکالمے وہی تھے۔

1990 اور 2018 کی فلموں میں بھی یہی قدر مشترک ہے۔ دونوں فلموں کا پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر ایک ہی ہے۔ صرف اداکار بدل گئے ہیں۔ 1990 کی فلم کے ہیرو نواز شریف تھے اور سائیڈ ہیرو کا کردار ایم کیو ایم کو دیا گیا تھا (1988 میں ایم کیو ایم کی سیٹیں 13 تھیں جو 1990 میں بڑھ کر 27 ہوگئیں)۔ 1990 کے ہیرو کو 2018 میں ولن بنادیا گیا ہے اور سائیڈ ہیرو کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ عمران خان جو پچھلے 22 سال سے ایکسٹرا کا کردار ادا کررہے تھے، 2018 میں اچانک ہیرو کے کردار میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ فلم باکس آفس پر کتنی کامیاب ہوتی ہے اور کتنے عرصے چلتی ہے۔ عمران خان کےلیے مشورہ یہی ہے کہ پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر سے بنا کر رکھیں تاکہ اگلی فلم میں بھی ہیرو کا کردار ان ہی کو دیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ اگلی فلم میں کوئی اور ہیرو آرہا ہو اور عمران خان ولن کا کردار ادا کر رہے ہوں۔

پرانے گانوں کا ری میک بن رہا ہے، پرانی فلموں کا ری میک بن رہا ہے، تو پرانے الیکشن کا ری میک کیوں نہیں ہوسکتا؟ جب کرکٹ میچ میں ایکشن ری پلے ہوسکتا ہے تو پرانے الیکشن کا ’’الیکشن ری پلے‘‘ کیوں نہیں ہوسکتا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post الیکشن ری پلے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2wALQM7
via IFTTT

No comments:

Post a Comment