مجھے آج بھی یاد ہے جب میں اپنے چند ڈاکٹر دوستوں کے ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے نجی اسپتال کے ایک خاموش کمرے میں بیٹھا تھا۔ ہر طرف سناٹا تھا، ہم سب ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے تھے، رات کے تین بج رہے تھے، باہر شدید بارش ہورہی تھی۔ ڈاکٹر شاہین کو فالج کا بدترین دورہ پڑا تھا۔ شاہین مجھ سے سینئر ،مگر گہرا دوست تھا۔
ایک اسپیشلائیزیشن مکمل کرنے کے بعد معدہ جگر میں دوسرے اسپیشلائزیشن کے لیے خوشاب سے یہاں آیا تھا۔ خوشاب میں بہترین پریکٹس تھی، بیوی بچے وہاں خوش تھے، بہترین گھر تھا۔ پینتیس چھتیس سال کی عمر میں ہاسٹل کا گندا ترین کمرہ، غلیظ باتھ روم اور عجیب و غریب سا کھانا۔کیا زندگی تھی؟ پھر کام کی جگہ کا سٹریس بھی بہت تھا۔ ایک رات بارہ بجے ایمرجنسی کا رائونڈ کرنے کے بعد ہاسٹل کی جانب جارہا تھا تو ہاسٹل کے باہر گرا پڑا ملا۔
کسی نے دیکھ لیا، میں گھر تھا، فون آیا، اسپتال بھاگے، دماغ کی شریان میں خون کا لوتھڑا پھنسا تھا،اس کو نکالنے کے لیے جدید علاج سرکاری اسپتال میں نہیں تھا، تو نجی اسپتال کا رخ کیا اور وہاں اب شاہین کو جدید ترین ،مگر خطرناک پروسیجر کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔ایسے میں دو ہی راستے تھے،یا شاہین مکمل بچ جاتا یا پھر مر جاتا۔ ایک تیسرا راستہ تھا کہ یہ آپریشن نہ کیا جاتا، شاہین بچ جاتا مگر اپاہج کی زندگی گزارتا اور یہ راستے ہم میں سے کوئی ڈاکٹر اپنے لیے بھی ہرگز منتخب نہ کرتا۔
اس کمرے میں جب سب چپ بیٹھے تھے، مجھے بابا جی کے درس یاد آنے لگے۔ بیٹا دنیا میں اتنے گم نہ ہوجانا کہ اپنا آپ بھول جائو، اپنا آپ بھول جائو گے، رب بھول جائے گا اور جس دن رب بھول گیا،رب تمہیں بھول جائے گا۔ انسان کی کامیابی میں جب فلاح نکل جاتی ہے تو وہ انسان نہیں رہتا ،مشین بن جاتا اور یوں چلنے والی مشینیں خراب ہوجایا کرتی ہیں۔
دنیا ایسے کتنے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے کامیابی کے پیچھے بے پناہ پیسہ اکٹھا کیا اور بعد میں انھی کی گردنیں ناپی گئیں، وہ فلاح کے عمل سے باہر ہوگئے۔ شاہین ، بستر پر بار بار بیوی بچوں کو بلا رہا تھا،اس کا آپریشن 6 گھنٹے کے اندر ہوگیا، خون کا لوتھڑا نکال دیا گیا اور وہ ٹھیک ہوگیا۔ دو دن بعد ہم شاہین سے ملے،وہ خوش تھا، فون پر لوگوں سے مبارک باد لے رہا تھا۔ ہم نے اس پر آنے والی وقت ِنزع کا نزول دیکھا تھا، وہ اب بھی آگے کی ٹریننگ کاسوچ رہا تھا۔ میں اس کے پاس بیٹھا، اس کا فون رکھا،اور اسے اس رات اس پر کیا گزری اس کے بارے میں سب بتانے لگا۔
شاہین اب بھی واپس اسی طرح کی زندگی چاہتا تھا،پانچ دن گندے ہاسٹل میں،سٹریس کی زندگی ،دو دن اندھا دھند خوشاب میں کلینک کی پریکٹس اور پھر واپسی،گاڑی میں کپڑے استری لٹکا کر،وہیں بدل کر وارڈ پہنچ جانا اور بس پھر کامیابی ہی کامیابی۔ شاہین گھر چلا گیا، شاید بارش والی کسی رات بادلوں کی گرج شاہین کے اندر فلاح داخل ہوگئی،پاپا جلدی آنا کی آواز اس کو سنائی دینے لگی، یا شاید اس نے دل کے طاقچے کے دراز الٹے کردیے، اس نے کئی سال اسکول کے بستے سے جسم میں اتاری من کی آلودگی کہیں دور پھینک دی۔ وہ اہلیہ کے ساتھ عمرے پر گیا اور ایک رات اس کا مجھے میسج آیا کہ میں نے اپنے شہر کا اسپتال جوائن کرلیا ہے، اپنی پریکٹس،بیوی ،بچوں کو ٹائم دے رہا ہوں،دو دن چھٹی کرتا ہوں ، روزانہ ورزش کرتا ہوںاور میں بہت خوش ہوں۔
شاہین نے کامیابی کی دوڑ میں زندگی پر لگا مقفل خود کھول دیا تھا۔ وہ مجھے 6 ماہ بعد ملا وہ خوش تھا، داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہیں بچا تھا، صحت بھی اچھی تھی اور چہرے پر صبح پھولوں پر پڑتی شبنم جیسی تازگی تھی۔ دنیا اور کامیابی سے اپنا آپ اور فلاح نکل جائے تو من آلودہ ہونے لگتا ہے۔ یہ جملہ آج مجھے میرے دوست قاسم علی شاہ نے میری داڑھی کے کئی سفید بال دیکھ کر بولا۔ شاہ صاحب معروف موٹیویشنل اسپیکر بن کر کئی لوگوں کی زندگی میں وہی کام کررہے ہیں جو میں نے اس رات شاہین کے لیے کیا۔
The post کامیابی، زندگی اور شاہین appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZfaWNR
via IFTTT
No comments:
Post a Comment