پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اس ملک کی سیاست میں فعال اور ’’طاقتور‘‘ صرف دو جماعتیں ہیں۔ ایک پیپلز پارٹی دوسری مسلم لیگ (ن) اور ان دونوں کا تعلق بھی اشرافیہ سے ہے۔ سیاسی مقابلہ بازی سے ہٹ کر ان دونوں جماعتوں کو دیکھا جائے تو ان کے مفادات مشترک ہیں، قومی سیاست میں ان کا کردار بھی یکساں ہے۔
بدقسمتی سے ان دونوں جماعتوں کے علاوہ کوئی ایسی جماعت موجود نہیں جو قومی سیاست میں عوام کی نمایندگی کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاست اور اقتدار پر ان دونوں جماعتوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ اشرافیائی قیادت میں کام کرنے والی سیاسی جماعتیں فطرتاً اشرافیہ کے مفادات کے لیے کام کرتی ہیں جب کہ قومی مفاد کے نام پر عوام کا استعمال ان جماعتوں کا ایجنڈا ہوتا ہے یہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ یہ ایک مربوط پلاننگ کا حصہ ہے۔ اس عوام دشمن سیٹ اپ سے نکلے بغیر نہ یہ ملک ترقی کرسکتا ہے نہ عوام خوشحال ہوسکتے ہیں۔
ویسے تو تحریک انصاف ایک تیسری قوت کے طور پر میدان سیاست میں آدھمکی ہے اور اقتدار میں بھی آگئی ہے لیکن اس کا المیہ یہ ہے کہ اس کا کوئی عوامی ایجنڈا اس لیے تشکیل نہیں پاسکا کہ یہ جماعت اپنی پیدائش کے ساتھ ہی زبردست مالی کرائسس میں مبتلا ہے۔ ان کرائسس سے نکلنے کے لیے اسے جہاں عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑ رہا ہے وہیں بے تحاشا ٹیکس لگا کر عوامی زندگی کو بد ترین مشکلات کے حوالے کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمارکا عالم یہ ہے کہ عوامی استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے پہلے جو غریب دو وقت کی روٹی پر گزارا کرتے تھے اب وہ دو وقت کی اطمینان کی روٹی سے بھی محروم ہوگئے ہیں اور زبان ہلانے سے بھی قاصر ہیں۔
حکومت اگر کچھ عوامی بھلائی کے کام کرنا چاہتی ہے تو اقتصادی صورتحال اس قدر ناگفتہ یہ ہے کہ حکومت صرف مزید ٹیکس لگانے اور مجبوری کے عالم میں ہاتھ ملنے کے کچھ نہیں کرسکتی۔ پچھلے دس برسوں میں حکومتیں مہنگائی اور معاشی کرائسس سے اس لیے بچی رہیں کہ انھوں نے ہر مرض کی دوا مزید قرض میں تلاش کر لی اور قرض کی مئے سے سیاسی نشہ کرتے رہے۔
سابقہ دس سال میں قرض کی مئے پینے اور مست رہنے والوں نے جو قرض حکومت کے لیے چھوڑا ہے وہ ہے چوبیس ہزار ارب ڈالر۔ اب ایک ڈالر ڈیڑھ سو روپوں سے زیادہ مہنگا ہوگیا ہے تو اسی مہنگائی کے حساب سے قرض میں اضافہ ایک فطری بات ہے۔اس ناگفتہ بہ صورتحال کا علاج حکومت نے ٹیکسوں میں اضافے کی صورت میں تلاش کیا ہے۔
اخبارات کی چھ کالمی سرخیوں میں اربوں بلکہ کھربوں کی کرپشن کی خبریں چھپ رہی ہیں، اگرکرپشن کی یہ کھربوں کی رقم لٹیروں سے وصول کی جائے تو نہ صرف ملک قرضوں سے نجات حاصل کرسکتا ہے بلکہ مظلوم عوام مہنگائی سے بھی نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ بات عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کھربوں کی لوٹ مارکے ملزم عوام کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور ٹی وی اسکرین پر بتیسی نکال کر ہنستے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کے خلاف چوری کی اربوں کی برآمدگی کا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا۔ چوری ثابت کرنے کی راہ میں سرمایہ دارانہ نظام کی مہارت نے اگرچہ بے شمار مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں لیکن انصاف ایک سب سے بالاتر قوت ہے کیا اسے پاکستانی اشرافیہ جیسے لٹیروں کے خلاف حرکت میں نہیں آنا چاہیے؟
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اربوں کھربوں کی عوامی دولت کی لوٹ مار جمہوریت کے پردے میں ہوتی رہی ہے اور آج بھی اشرافیہ کچہریوں اور زندانوں میں بیٹھے یہی کہہ رہی ہے کہ یہ سب کچھ ’’جمہوریت کی کمزوری کی وجہ سے ہو رہا ہے‘‘ سرمایہ دارانہ فراڈ جمہوریت نے پاکستان کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
ہماری اشرافیہ کی روح فراڈ جمہوریت کے طوطے میں ہے اور طوطے کو جمہوریت کے پنجرے میں بند کیا گیا ہے، جب تک عوام اس اشرافیائی فراڈ جمہوریت سے نجات حاصل کرکے اس جمہوری دور میں داخل نہیں ہوتے جس کی تعریف خود سرمایہ دار جمہوریت کے پاسبانوں نے اس طرح کی ہے ’’عوام کی جمہوریت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے‘‘ اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔’’اشرافیہ کی جمہوریت، اشرافیہ کے لیے، اشرافیہ کے ذریعے۔‘‘
اس جمہوریت کے کارنامے میڈیا میں روز نئی نئی سرخیوں کے ساتھ آرہے ہیں۔اب اسی فراڈ جمہوریت کا تازہ کارنامہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے سابق حکمرانوں نے اپنے دور حکمرانی کے دوران غیر ملکی دوروں پر اربوں روپے پھونک دیے، ان میں سرکاری دورے کم غیرسرکاری دورے زیادہ بتائے جا رہے ہیں، اربوں روپوں کے یہ دورے مستند ہیں۔ حکومت اس حوالے سے بھی تحقیقات کا ڈول ڈال رہی ہے لیکن جب تک قانون اور انصاف سرمایہ داری کے کھڈے سے باہر نہیں نکلتا کیا تحقیقات کا کوئی فائدہ ہوسکتا ہے؟ یہ سوال اس لیے ضروری ہے کہ کرپشن کے خلاف تحقیقات کا اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا مجرم مونچھ پر تاؤ دیتے ہوئے قانون کے کٹہرے سے باہر آتے ہیں۔
جمہوریت کے عاشقین کا ارشاد ہے کہ ملک پر جو افتاد پڑی ہے اور پڑھ رہی ہے اس کی اصل وجہ ’’جمہوریت سے روگردانی‘‘ ہے۔ اگر سابقہ جمہوریت آگئی تو سابقہ ’’معاشی خوشحالی‘‘ واپس آجائے گی۔ ہمارے بعض جمہوریت کے پرستار کہہ رہے ہیں کہ آج کل کی جمہوریت خلائی مخلوق کی لائی ہوئی جمہوریت ہے اگر یہ جمہوریت خلائی ہوتی تو عاشقان جمہوریت جیلوں میں 5 اسٹار ہوٹلوں کے مزے نہ لیتے، ان کے جسموں پر کوڑوں کے نشان ہوتے اور دماغ آسمان سے زمین پر آجاتا۔ انکل سام اس فراڈ جمہوریت کا رکھوالا ہے انکل سام کی جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ وہ بھاری معاوضے پر آمروں خصوصاً مشرق وسطیٰ کے شاہوں کی رکھوالی کرتا ہے۔
بات پاکستان کی معاشی زبوں حالی سے چلی تھی کہ آج پاکستان کے 22 کروڑ غریب عوام مہنگائی اور کرپشن کے دو سرمایہ دارانہ چکی کے پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ حکومت عوام کو صبرکا مشورہ دے کر ٹرخا رہی ہے، اگر حکومت بہادر اور منصف مزاج ہوتی تو ان اربوں کے کرپٹ عوام دشمنوں سے کرپشن کے کھربوں روپے حلق میں انگلیاں ڈال کر نکالتی اور اگر کوئی عوام کے کھربوں روپے اشرافیہ کے حلقوں سے نکالنے کی راہ میں روڑا بنتا تو کہتی ’’پرے ہٹ یہ عوام کی محنت کی کمائی ہے تمہارے باپ کی کمائی نہیں۔‘‘ بلاشبہ حکومت ایک مڈل کلاسر حکومت ہے لیکن اس کے ڈر خوف کا عالم یہ ہے کہ وہ منصفانہ قدم اٹھاتے ہوئے بھی ڈرتی ہے اور ڈر ایک ایسی بیماری ہے جو انوکی پہلوان کے بھی پسینے نکال دیتا ہے حکومت کو ڈر سے نجات پانی چاہیے۔
The post تیسری پارٹی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YpefR2
via IFTTT
No comments:
Post a Comment