Monday, September 2, 2019

کراچی کی سیاست کچرے سے نکلے ایکسپریس اردو

کراچی کی مون سون بارشیں پہلی بار نہیں آئی ہیں، فطرت کے اس شیڈول سے سب واقف تھے اور ہیں۔ محکمہ موسمیات سے لے کر سیاسی ارباب اختیار ، بطور خاص سندھ حکومت ،ضلعی انتظامیہ ، وفاقی اداروں اور  عوام سب کو پتا تھا کہ کیا ہوگا اور بارشوں سے ہونے والے نقصانات کیا ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ کراچی کی سفاک موسمیاتی حقیقت ہے کہ مون سون کی حالیہ بارشوں کے باعث اسرارالحق مجاز کا یہ شعر لبوں پر آہی گیا کہ،

یوں تو آنے کو کئی بار ادھر آیا ہوں

اب کے اے دوست بہ اندازِ دگر آیا ہوں

حقیقت یہی ہے کہ اس بار مون سون بارشوں سے کراچی کی انتظامی سیاست بکھر کر رہ گئی، ایک مربوط اور مستحکم شہری نظام اپنی بیخ وبنیاد سے اکھڑ گیا، ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ، سندھ حکومت اور وفاقی اداروں میں ایک واضح دراڑ دیکھنے میں آئی ، مصالحت اور مفاہمت ، خیر اندیشی ، سیاسی یکجہتی ، رواداری، شہر کی ترقی اور عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے سارے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

شہر قائد کے چہرے پر اتنے بدنما داغ لگے کہ کسی موسلادھار بارش سے بھی وہ صاف ہونے پر تیار نہیں تھے، بد انتظامی کے وہ درد ناک بلکہ شرم ناک قصے بیان ہوئے کہ اہل شہر کی روح تک کانپ اٹھی، کسی کے وہم میں گمان میں نہ تھا کہ میئر کراچی اور مصطفی  کمال میں میں لفظی جنگ شروع ہوگی اور رفتہ رفتہ کراچی کی سیاست تقسیم در تقسیم ہوکر عوام کے بنیادی مسائل کے نصب العین سے کو فراموش کردے گی۔

کراچی کے معاملات ملکی ساست کے اعصاب شکن سیاق وسباق میں انتہائی درد انگیز ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ جو مسائل بارش کی تباہ کاریوں اور شہر کے انتظامات کے حوالے سے سلجھنے تھے، وہ وہیں کے رہیں رہے ، شہر اجڑتارہا ، سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں، سیوریج سسٹم تباہی سے دوچار ہوا، شہریوں کو بجلی اور پانی کے مسائل نے پریشان کیا ، دودرجن سے زائد افراد کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوئے، کے الیکٹرک کے حکام کا کہناتھا کہ ہلاکتیں ناقص وائرنگ ، کنڈے اور عوام کی آگاہی مہم سے ناواقفیت کے باعث ہوئیں جب کہ اس یک طرفہ وضاحت سے بڑھ کر نقصان قیمتی جانوں کا ہوا ہے۔

ایک اجتماعی نقصان شہر اور شہریوں کا ہوا، سیاسی اسٹیک ہولڈرز جذبات میں بہہ گئے، سب نے الزامات  کے زبانی وائٹ پیپر جاری کرنا اپنا فرض اولین سمجھا، شہر کی اینٹ سے اینٹ بج گئی، ایک سابق اور حاضر میئر میں جاری کشیدگی، الزام تراشی، ذاتی حملوں اور نااہلیت ،کرپشن کے بہتان میں صورتحال کراچی کے لیے سب سے بڑا سوالیہ نشان بن گئی۔

بلاجواز میڈیا ٹرائل کی بے لگام روایت کی وجہ سے بامقصد ، عملیت پسندانہ ، شائستہ اور جمہوری مکالمے کا سنجیدہ دروازہ بند کیا گیا، شہر کے رول ماڈل جیسی شخصیات کے لب ولہجے بدلنے لگے، چنانچہ گزشتہ دنوںمیئر وسیم اختر نے سابق ہم منصب مصطفی کمال کو بقول ان کے سیاست چمکانے کی وجہ سے چوبیس گھنٹے کے اندر معطل کیا۔کہا گیا کہ میری نیک نیتی کا غلط فائدہ اٹھایا گیا۔

میئر کا کہنا تھا کہ انھیں بدتمیزی کی وجہ سے ہٹایا گیا، مصطفی کمال کا کہناتھا کہ مجھے اس لیے عہدہ سے ہٹایا گیا کہ میں نے فنانشل ایڈوائزر سے بریفنگ مانگی ،تھی، مصطفی کمال کا استدلال تھا کہ کراچی کو کرپشن کی نذر کردیا گیا، مصطفی  کمال معاملہ عدلیہ تک لے گئے ہیں، بات ان دونوں اہم شخصیات تک محدود نہیں، کراچی کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہوگیا ہے، سندھ حکومت ،وفاق اور ڈسٹرکٹ حکومت کے درمیاں شہر قائد ایک سینڈوچ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے، کچھ روز قبل وفاقی وزیر جہاز رانی علی زیدی نے کراچی سے دس دن میں کچرا صاف کرنے کا  اعلان کیا تھا۔

سندھ حکومت نے اسے دعویٰ قراردیا ،پھر وزرا اور حکومتی عہدیداروں میں اس امر پر اتفاق ہوا کہ سب مل کر کراچی کا کچرا صاف کریں گے اور شہریوں کی خدمت کریں گے، لیکن الزامات لگتے رہے، علی زیدی نے جواب دیا، سعید غنی اور علی زیدی میں تکرار ہوئی، سعید غنی کا کہنا تھا کہ کچرا نالے سے نکال کر سڑکوں اور پارکوںمیں ڈالا جارہا ہے، سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے اپنے ویڈیو بیان میںکہا کہ نالوں سے کچرا اٹھا کر سی ویو، امریکن قونصلیٹ اور دیگر مقام پر ڈمپ کیا جاتا ہے، اس سے مکھیاں اور مچھر پیدا ہو رہے ہیں، شہریوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔

اصولاً الزام تراشی بند ہونی چاہیے۔ ضرورت اسی بات کی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ گورنر سندھ عمران اسمعیل سے مل کر کوئی حل نکالیں۔ کراچی بدنام ہورہا ہے، سیاست دانوں کی اپنی شہرت بھی داغدار ہوم نے لگی ہے ، شہر قائد کو لڑائی جھگڑے سے نہیں اتفاق رائے، اتحاد ، رواداری اور جمہوری اسپرٹ سے ترقی ، امن ، صفائی اور کچرے سے ہمیشہ کے لیے پاک شہر بنایا جاسکتا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز یہ حقیقت تسلیم کریں کہ کراچی کو سب مل کر ایک بار پھر ایشیا کا خوبصورت شہر بناسکتے ہیں۔

The post کراچی کی سیاست کچرے سے نکلے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zMwE0w
via IFTTT

No comments:

Post a Comment