شمالی وزیرستان میں پاک افغان بارڈر پر ایف سی کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک لانس نائیک شہید اور دو جوان زخمی ہو گئے، فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد بھی مارے گئے جب کہ دوسری جانب ایل او سی پر پاکستانی پوسٹوںپر بلااشتعال بھارتی فوج کی فائرنگ سے دو افسر زخمی ہو گئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی فوج نے رکھ چکری اور راولا کوٹ سیکٹروں میں بلااشتعال پاکستانی چیک پوسٹوں پر مارٹر گولے فائر کیے‘ پاک فوج نے بھارتی فائرنگ کا بھرپور جواب دیا۔
پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے اور اس نے اس سلسلے میں متعدد کاوشیں بھی کی ہیں لیکن اسے اس کا اب تک کوئی نتیجہ خیز جواب نہیں ملا۔ پاکستان نے متعدد بار بھارت کی موجودہ مودی سرکار کو مذاکرات کی دعوت دی تا کہ دونوں ممالک باہمی رنجشیں اور اعتراضات مل بیٹھ کر حل کریں لیکن بھارتی سرکار نے امن کا راستہ چھوڑ کر خطے میں کشیدگی کو ہوا دینے کو ترجیح دی۔ ایل او سی پر آئے دن بھارتی فوج بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے جس سے اب تک متعدد پاکستانی فوجی جوان اور شہری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں‘ بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے سرحدی علاقوں میں لوگوں کے مکانات اور دیگر املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
ایک طرف مشرقی سرحد پر بھارتی فوج پاکستان کے لیے سلامتی کے مسائل پیدا کیے ہوئے ہے تو دوسری جانب افغانستان سے ملحقہ سرحد بھی دہشت گردوں کے حملوں کے باعث دباؤ کا شکار ہے۔ افغانستان سے دہشت گرد پاکستانی فوج کی چوکیوں پر اچانک حملہ کرتے جس سے اب تک یہاں تعینات متعدد فوجی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ پاکستان نے اس سلسلے میں متعدد بار افغانستان کی حکومت سے احتجاج کیا اور سرحد کو محفوظ بنانے اور فوجیوں کی تعداد بڑھانے پر زور دیا لیکن افغان حکومت نے سرحد پار دہشت گردی کی وارداتیں روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔
افغان حکومت کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی طویل سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانی اور حفاظتی چوکیاں تعمیر کرنی شروع کیں جس سے دہشت گردوں کی آمدورفت میں خاطر خواہ کمی آئی۔ اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے اور سرحدوں کو پرامن رکھنے کے لیے افغان حکومت کو سرحدی حفاظتی اقدامات کرنا چاہیے تاکہ دہشت گرد کسی بھی صورت پاکستان میں داخل ہو کر وہاں اپنی مذموم کارروائیاں نہ کر سکیں۔ اگر افغان حکومت سرحدی حفاظتی مینجمنٹ بہتر بنائے تو ممکن ہے کہ دہشت گرد سرحد پار کارروائیاں نہ کر سکیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ افغان حکومت ایسا کیوں نہیں کر رہی جب کہ دہشت گردوں کے حملوں اور کارروائیوں کا اسے بھی سامنا ہے۔
دہشت گردی پاکستان اور افغانستان دونوں کا مشترکہ مسئلہ ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ دونوں ممالک مل کر سرحدی نظام کو محفوظ بنائیں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کریں تاکہ اس خطے کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکے۔ بھارت آئے دن پاکستان کے خلاف واویلا مچاتا رہتا لیکن وہ سرحدوں کی خلاف ورزی سے باز نہیں آتا جو اس کی بدطینتی کو ظاہر کرتا ہے۔ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ہاٹ ایشو ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے کرفیو نافذ کیے چوتھا مہینہ جاری ہے مگر عالمی ضمیر اب تک بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو کرفیو ہٹانے پر مجبور نہیں کر سکا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے ہونے والے مظالم سے اقوام متحدہ اور تمام عالمی قوتیں بخوبی آگاہ ہیں‘ حقوق انسانی کی عالمی تنظیم بھی بھارتی مظالم کو اجاگر کر رہی ہیں‘ مگر اس سب کے باوجود نہ تو اقوام متحدہ نے اور نہ عالمی قوتوں نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے سرگرمی دکھائی۔ پاکستان کو مشرقی اور شمال مغربی ہر دو سرحدوں کی جانب سے کشیدگی اور تناؤ کا سامنا ہے‘ اگر بھارت کی جانب سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے تو افغانستان سے دہشت گردوں کے حملے چہ معنی دارد؟ افغانستان میں تو امریکا اور نیٹو افواج کی حکمرانی ہے وہ دہشت گردی پر قابو پانا اور سرحدی نظام کو محفوظ بنانا چاہیں تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر بھی کشیدگی اور تناؤ کا ماحول پیدا کیا گیا ہے تاکہ پاکستان کو دباؤ میں رکھ کر من مانے فیصلے کروائے جا سکیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پاکستان خود دہشت گردی اور سرحدوں پر کشیدگی کا شکار ہے مگر عالمی قوتیں اس پر ہی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالتی ہیں اور ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں بلیک لسٹ کی تلوار اس کے سر پر لٹکائے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی قوتوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے خطے کو ہر صورت پرامن رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
The post پاکستان کے دشمنوں کی اشتعال انگیزیاں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2DBk6Lk
via IFTTT
No comments:
Post a Comment