Monday, December 26, 2022

بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ایکسپریس اردو

پاکستان کے دو صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشت گردوں کا خصوصی ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں‘ افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد کے قریب علاقوں میں دہشت گرد تواتر کے ساتھ کارروائیاں کر رہے ہیں۔

گزشتہ روز بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں۔ بلوچستان کے ضلع کوہلو کے علاقے کاہان میں بارودی سرنگ پھٹنے سے پاک فوج کے کیپٹن اور4 فوجی جوان شہید ہوگئے۔

آئی ایس پی آرکے مطابق کیپٹن فہد، لانس نائیک امتیاز، سپاہی اصغر، مہران اور شمعون نے کلیرنس آپریشن کے دوران وطن کے دفاع میں جانیں نچھاور کردیں۔ دشمن عناصر کی بزدلانہ کارروائیاں امن اور خوشحالی کو سبوتاژ نہیں کر سکتیں۔ سیکیورٹی فورسز جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دہشت گردوں کے مذموم عزائم ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اس دہشت گردی میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے آپریشن جاری ہے۔

ادھر بلوچستان کے ضلع ژوب میں فائرنگ کے تبادلے میں جوان حق نواز شہید ہو گئے جب کہ 2 زخمی ہوئے ہیں‘ فائرنگ کے تبادلے میں دہشت گرد بھی ماراگیا۔ اطلاعات کے مطابق سرحد پار سے دہشت گردوں کے سہولت کاروں نے بھی فائرنگ کی، جس کا مقصد دہشت گردوں کو فرار کا موقع فراہم کرنا تھا۔

پاکستان کی سیکیورٹی فورسزکا علاقے میں آپریشن جاری ہے، جس کا مقصد دہشت گردوں کو داخلی راستوں کے استعمال سے روکنا ہے، میڈیا کی خبروں کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران ایک گروہ پکڑ لیا گیا ہے۔ کوہلو اور ژوب کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں 2 ‘ حب، خضدار اور تربت میں 3 بم حملوں میں 14افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے تناظر میں کہا ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے دوبارہ منظم ہو کر واپس آگئے ہیں اور بلوچستان میں  دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ امن وامان کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔

ہمارے انٹیلی جنس ادارے دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک پہنچ گئے ہیں۔ وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ مطمئن رہیں۔ دہشت گردوں نے پہلے بھی پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا اور ابھی دوبارہ نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ ہم ان کی کمر توڑ دیں گے اور بہت جلد دوبارہ امن وامان قائم کریں گے۔ دہشت گردوںکو کچل دیں گے۔

ان واقعات سے یہ حقیقت عیاں ہو گئی ہے کہ دہشت گردی کی وارداتیں باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کی جا رہی ہیں‘ دہشت گردوں کو پاکستان کے اندر سے اطلاعات بھی مل رہی اور ان کی سہولت کاری بھی ہو رہی ہے‘ اسی طرح افغانستان کے اندر بھی دہشت گردوں کے سہولت کار موجود ہیں اور انھیں پناہ بھی دی گئی ہے‘ اس صورت حال میں پاکستان کو اپنی سرحدی سیکیورٹی پر غیرمعمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

شمال مغربی سرحدوں پر مزید چھاؤنیاں بنائی جائیں اور وہاں سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان کے لیے حالیہ دہشت گردی کی لہر شدید مسائل پیدا کر رہی ہے‘ اس کی وجہ سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ہماری معیشت پہلے ہی زوال پذیر ہے‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو اپنی کارکردگی پر نظرثانی کرتے ہوئے اپنے اپنے صوبوں میں سیکیورٹی کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

اگر صوبائی حکومتیں پولیس کے نظام کو بہتر بنائیں تو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کرنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ پاکستان کو ایک غیر محفوظ ملک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالیہ وارداتوں کے تناظر میں اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے اپنے شہریوں اور ملازمین کے لیے سیکیورٹی الرٹ جاری کر دیا ہے۔

امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری الرٹ میں ایک مقامی ہوٹل میں امریکی شہریوں پرممکنہ حملے کا خدشہ ظاہرکیا گیا ہے۔امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں امریکی شہری اورامریکی ملازمین مقامی ہوٹل میں جانے اور غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔ چھٹیوں کے دوران ممکنہ طورپر امریکی شہریوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔اسلام آباد میں ریڈ الرٹ کے تناظر میں امریکی سفارت خانے نے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کرتے ہوئے سفارت خانے کے عملے کو ضرورت کے بغیرسفرنہ کرنے کی ہدایات دی ہیں۔

پولیس کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی ہائی الرٹ کے تحت ریڈ زون سمیت شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ بڑھا دی گئی ہے، شہری دوران سفر اپنے ضروری شناختی دستاویزات ہمراہ رکھیں۔پولیس حکام نے کہا کہ شہری ریڈ زون و دیگر جگہوں پر دوران چیکنگ تعاون کریں، کسی بھی مشکوک سرگرمی کے متعلق فوری 15 پر اطلاع دیں۔

ادھر افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے کہا ہے کہ ہم پڑوسی ملک پاکستان سے کہنا چاہتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن پر بدامنی اور جنگ کے واقعات کسی کے مفاد میں نہیں ہیں۔ ہم آپ کو مسلمان بھائی اور پڑوسی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور آپ کا رویہ بھی یہی ہونا چاہیے۔ ہم نے آپ کے لیے ٹرانزٹ کے راستے کھول دیے ہیں، تعلق دوطرفہ ہونا ضروری ہے تاکہ مسائل ختم ہوں۔

ٹیکس جرمانے کی معافی کے عنوان سے کانفرنس سے خطاب کے دوران انھوں نے پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تجارتی راستوں پر مسائل پیدا کرنے سے دونوں ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ افغانستان میں حالات کو غیر محفوظ بنانے میں بعض غیر ملکی حلقے ملوث ہیں۔جو لوگ ان واقعات کے سلسلے میں گرفتار ہیں‘ وہ کہاں سے آتے ہیں؟

انھوں نے کہا کہ اسی لیے ہم افغانستان کے پڑوسیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہے۔ اگر کوئی افغانستان پر زیادہ دباؤ ڈالتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ افغانستان کو عدم تحفظ اور عدم استحکام کی طرف لے جائے گا۔ عالمی برادری دباؤ ڈالنے کے بجائے امارت اسلامیہ کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔

افغانستان کے وزیر خارجہ نے جو باتیں کہی ہیں‘ وہ درست ہو سکتی ہیں‘ بلاشبہ پاک افغان سرحد پر بدامنی دونوں ملکوں کے مفاد کے خلاف ہے۔ افغانستان اور پاکستان کو امن کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ملک اپنی توجہ ملک کی معیشت کو بہتر بنانے پر مرکوز کر سکیں‘ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان کا موازنہ کیا جائے تو دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔

افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت بھی کہتی تھی کہ افغانستان کو غیر محفوظ بنانے میں غیرملکی ہاتھ ملوث ہیں‘ اشرف غنی انتظامیہ نے بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی یا طالبان پر کیونکہ اس وقت طالبان افغانستان میں کارروائیاں کر رہے تھے۔

اب افغانستان پر طالبان کی حکومت ہے‘ لیکن یہ حکومت بھی اپنی کوتاہیوں‘ ناکامیوں اور غلط پالیسیوں پر غور کرنے کے بجائے دوسروں پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں‘ پاکستان کا کردار بہت واضح ہے‘ پاکستان افغانستان میں قیام امن کا خواہاں ہے اور اس کے لیے پاکستان نے کوششیں کی اور قربانیاں بھی دی ہیں۔

پاکستان عالمی برادری کا ایک ذمے دار ملک ہے‘ پاکستان کی سرحدیں مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق طے شدہ ہیں۔ افغانستان کی سابق حکومتوں نے بھی ڈیورنڈ لائن کو متنازع بنانے کی کوشش کی جب کہ اب طالبان کی حکومت بھی یہی کچھ کر رہی ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی اولین ذمے داری تو یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے افغانستان میں امن و امان قائم کرے‘ افغانستان کے بڑے نسلی اور ثقافتی گروہ جن میں تاجک‘ ازبک‘ ہزارہ‘ منگول اور دیگر طبقے شامل ہیں‘ ان کے تحفظات کو دور کرے۔

افغانستان کے انتظامی اور عدالتی انفرااسٹرکچر کی تعمیر کرے تاکہ عوام کو اپنے حقوق اور فرائض کا علم ہو اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان پر حکومت کرنے والوں کے احتساب کا میکنزم قائم ہو تاکہ انھیں بھی پتہ ہو کہ ان کے فرائض کیا ہیں۔افغانستان کی حکومت اپنی ملک کی معیشت کے خدوخال تیار کرے اور اسے دستاویزی معیشت بنانے کے کام کا آغاز کرے۔

افغانستان کی عبوری حکومت عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے اقدامات کرے نہ کہ اپنے آپ کو درست اور سچا قرار دے کر اپنی ذمے داریوں سے فرار اختیار کر کے دوسروں پر الزام دے۔ یہ روش افغانستان کے عوامی مفاد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

دنیا میں کوئی ملک دوسرے ملک کو تباہ نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی قبضہ کرنا چاہتا ہے‘ آج دنیا کے جن ممالک میں بھی خانہ جنگی ہے یا اس کی کسی دوسرے ملک کے ساتھ جنگ ہے تو اس کی وجوہات میں ان ممالک کی اشرافیہ کی کم نظری‘ کم فہمی اور مفادات کا ٹکراؤ شامل ہے۔

The post بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dtIN7f
via IFTTT

No comments:

Post a Comment