Thursday, December 29, 2022

اردو پھر لاوارث ٹھہری ایکسپریس اردو

ایک سال مزید بیت گیا اور قومی زبان اردو کو پاکستان میں عزت و شنوائی نہ ملی۔ ریاستی اور عوامی سطح پر انگریزی کے قدم مضبوط تر اور قومی زبان کو قومی دھارے سے باہر رکھنے کےلیے منظم سازش جاری رہی۔ دستوری منشاء اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے اور عوام کے مسلسل مطالبے کے باوجود حکمرانوں اور بیوروکریسی نے قومی زبان اردو کو نافذ نہیں ہونے دیا۔

اس سے بھی زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں، قانون دانوں، علمائے کرام، کالم نگاروں، صحافیوں، اساتذہ اور شعراء و ادیبوں میں سے کسی نے قومی زبان اردو کے ساتھ حکومتی رویے پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا بلکہ خاموش رہ کر معاملے کی تائید کرتے رہے۔

دستور پاکستان کے مطابق اگست 1988 کے بعد ملک میں انگریزی کا چلن خلاف قانون ہے اور اسی روز سے ملک میں قومی زبان اردو کا نفاذ لازم تھا۔ جس کی مزید تاکید عدالت عظمیٰ کے 8 ستمبر 2015 کے فیصلے میں کی گئی تھی۔ چونتیس سال سے مسلسل حکمران دستور شکنی کا ارتکاب کررہے ہیں لیکن نہ صحافی اس پر آواز اٹھاتے ہیں، نہ سیاستدان اور نہ ہی قانون دانوں کو کہیں لاقانونیت نظر آرہی ہے۔ ہماری عدلیہ اس سارے عمل کی سرپرستی کررہی ہے۔ سات سال سے عدالتی حکم پر عمل درآمد کےلیے دائر مقدمات کمال مہارت سے اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات فائلوں میں تڑپا رہے ہیں۔

انگریزی نہ صرف دفتری زبان ہے بلکہ عدالتی اور بلدیاتی زبان کے طور پر بھی جبراً مسلط ہے۔ عوام سے ریاست اس زبان میں مخاطب ہوتی ہے جو ننانوے فیصد افراد نہیں سمجھتے۔ انگریزی کے بل بوتے پر ایک فیصد اشرافیہ نے زمام کار اپنے پاس گروی رکھی ہوئی ہے اور اسے اپنی نسلوں کو منتقل کرنے کےلیے وہ اردو کو نہ نصاب تعلیم بنارہے ہیں اور نہ سرکاری زبان کا درجہ دینے پر تیار ہیں۔

عوامی میڈیا (سوشل میڈیا) نفاذ قومی زبان کے مطالبات سے بھرا پڑا ہے۔ گلی کوچوں سے نفاذ قومی زبان کے نعرے گونج رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کو مسلسل یادداشتیں پیش کی جارہی ہیں لیکن کہیں سے شنوائی نہیں ہورہی۔

انگریزی تسلط سے قوم دو طبقات میں تقسیم ہوچکی ہے اور ان کے درمیان حاکم اور محکوم کی خلیج روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے، جو ہماری قومی یک جہتی کےلیے بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے۔ اسی طرح حکمرانوں اور نوکرشاہی کی طرف سے دستور اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو رد کرنا عوام میں لاقانونیت کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہا ہے۔

نفاذ قومی زبان کےلیے کوشش کرنے والے افراد ہر طرف سے راستے بند ہونے کے باوجود پُرامید ہیں کہ آج نہیں تو کل ہمارے ملک میں دستور اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کا چلن ہوسکتا ہے۔ یہ لوگ پورے اخلاص سے سرگرم عمل ہیں۔ عقل مند طبقے کی طرف سے ان پر آوازے بھی کسے جاتے ہیں کہ ناممکن کو ممکن بنانے کی رٹ چھوڑ دو۔

قومی زبان کے نفاذ کی اہمیت تو سب پر عیاں ہے لیکن قانون شکنی اور توہین عدالت پر عدلیہ، ذرائع ابلاغ اور ارباب دانش کی خاموشی یہ تاثر دے رہی ہے کہ ہمارے ملک میں نہ کوئی دستور ہے، نہ عدلیہ اور نہ اصول اور قاعدہ، بلکہ طبقہ اشرافیہ جو چاہے کرتی پھرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لاقانونیت کی سیاہ رات کب تک جاری رہے گی۔ 2022 کو رخصت کرتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ اگلا سال قومی زبان اردو کے نفاذ کا ہوسکتا ہے۔ آئیے سب مل کر اس روشن صبح کےلیے اپنی مثبت سرگرمیاں جاری رکھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post اردو پھر لاوارث ٹھہری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/tNPB0u6
via IFTTT

No comments:

Post a Comment