Friday, December 30, 2022

دہشت گردی اور افغان حکومت کا رویہ ایکسپریس اردو

قبائلی علاقے ضلع کرم میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ سے 3اہلکار شہید جبکہ 2دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ مارے گئے دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔

بلاشبہ قوم کو اپنے شہدا پر فخر ہے کہ جنھوں نے ملکی دفاع وسلامتی کی خاطر اپنی جانیںنچھاور کی ہیں ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہاہے کہ دہشت گردی کے خلاف آہنی عزم اور ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے، پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرنے والوں کو کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

اگلے روز وزیراعظم سے ملاقات میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے ملک میں امن و امان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور قومی سلامتی کمیٹی کے مجوزہ اجلاس پر بھی گفتگو کی گئی۔ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے سدباب پر غور ہو گا۔ عسکری حکام دہشت گردی اور افغان بارڈر کی صورتحال پر بریفنگ دیں گے۔

بلاشبہ پاکستان کے عوام اور مسلح افواج ملکی سلامتی اور دفاع کے لیے ایک پیج پر ہیں اور سیسہ پلائی دیوار کی طرح مستحکم و مضبوط ہیں۔ اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں ان دہشت گردوں کو جو لوگ سپورٹ کرتے ہیں، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، ان سب کو نہایت سرعت کے ساتھ بے نقاب کرکے عوام کے سامنے لایا جائے انھیں قانون کے شکنجے میں کس کر کڑی سے کڑی سزا دی جائے، ویسے بھی ملک دشمنوں کے ساتھ کسی بھی ملک میں معاشرے میں رعایت نہیں برتی جاتی ورنہ یہ جب بھی موقع ملے سر اٹھانے میں تاخیر نہیں کرتے۔

اس وقت افغانستان میں قائم حکومت کی کارکردگی اور رویے کے حوالے سے متعدد سوالات جنم لے رہے ہیں۔ افغان طالبان کی موجودہ حکومت جسے پاکستان نے ہر قدم پر سہارا دیا، اس مقام تک پہنچایا، انھیں عالمی اداروں اور بڑی طاقتوں کے سامنے بٹھایا تاکہ مسئلہ افغانستان کے حل کی راہ ہموار ہو،دوحہ امن مذاکرات میں سہولت کاری کی تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو، وہاں کی تباہ شدہ معیشت بحال ہو، مگر ان تمام کاوشوں کے بدلے میں افغانستان کی موجودہ حکومت نے جواب میں ہمیں کیا دیا، دہشت گردی، الزام تراشی اور ہمارے دشمنوں کی درپردہ حمایت۔

افغان طالبان دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی پورے افغانستان پر حکومت قائم ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان حکومت کی رٹ کہاں ہے؟ آخر پاکستانی طالبان جو افغانستان سے آکر یہاں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں اور پھر فرار ہوجاتے ہیں، انھیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں اور تربیتی مراکز کی سہولت کیوں میسر ہے، جہاں سے وہ ہماری سرحدوں کے محافظوں کو اور شہری و دیہی علاقوں کو نشانہ بناتے ہیں، اگر افغانستان کی موجودہ حکومت مخلص ہو تو کسی نام نہاد فسادی تنظیم میں طاقت نہیں ہے کہ وہ افغان علاقے سے پاکستانی علاقوں کو نشانہ بنائے۔

پاکستانی حفاظتی چوکیوں پر حملے کرے، مگر سب دیکھ رہے ہیں کہ افغان سرزمین سے بلوچستان سے لے کر خیبر پی کے تک پاکستان مخالف عناصر فعال ہوچکے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں ، یہاں پر افغانستان حکومت کی خاموشی بھی سمجھ سے بالاتر ہے ، ان کی طرف سے کسی بھی قسم کے ردعمل کا اظہار سفارتی سطح پر نہیں کیا جارہا ہے، اگر افغان طالبان کی گرفت کسی علاقے پر کمزور ہے تو پھر وہ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرکے کوئی لائحہ عمل ترتیب دینے سے کیوں اجتناب برت رہی ہے ؟ اگر افغان حکومت ان عناصر کو کنٹرول نہیں کر سکتی تو پاکستان کو اجازت دے کہ وہ ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کر دے۔

افغانستان میںطالبان کی اس بار حکومت قائم ہونے کے بعد یہ تاثر قائم ہوا تھا کہ دنیا طالبان کو تسلیم کر لے گی، مگر ایسا ہرگز نہ ہوا،امریکا نے افغانستان کے اثاثے منجمد کر دیے اور اس کی بینکوں میں پڑی ہوئی ملین ڈالرزکی رقم بھی قبضہ میں لے رکھی ہے، جس کا مطالبہ طالبان حکومت مختلف ذرائع سے کرتی رہی ہے۔ افغانستان میں غربت،افلاس بڑھ چکی ہے اور افغان عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی نیا رخ اختیار کرتی جا رہی ہے، سرد موسم شروع ہوچکا ہے، وہاں خوراک کی قلت کے باعث کوئی بڑا انسانی المیہ بھی جنم لے سکتا ہے۔

تاحال افغانستان کے منجمد اثاثے بحال نہیں ہوئے ہیں، اس لیے طالبان حکومت دنیا سے بالکل کٹی ہوئی ہے اور تنہائی میں ہے۔ درحقیقت دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کے لیے افغانستان میں غربت اور افلاس کو ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے، افغان عوام کی مدد کے لیے امریکا کو فوری طورپر افغان عوام کے اثاثے جو اس نے منجمد کر رکھے ہیں انکو ریلیز کرنا چاہیے اور امریکی بینکوں میں افغانستان کے عوام کی جو رقوم ہیں وہ بھی انکو واپس کی جائیں تاکہ وہاں ترقی کا عمل شروع ہو اور انفراسٹرکچر بہتر بنے۔

دوسری جانب افغان طالبان نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا چلن ترک نہیں کیا ہے۔  طالبات کی تعلیم میں رکاوٹ بننا بڑا المیہ نظر آتا ہے، حالیہ دنوں میں افغانستان میں کام کرنیوالی بین الاقوامی این جی اوز کی خواتین ورکرز پر بھی پابندی کے احکامات سے افغان حکومت کا منفی تاثر عالمی سطح پرابھرا ہے، افغان طالبان کو اسکولز، کالج اور یونی ورسٹی کی طالبات کی تعلیم اور ملازمت پیشہ خواتین پر بے جا عائد پابندیوں کو ختم کرناچاہیے تاکہ خواتین بھی افغانستان کی ترقی وخوشحالی اور تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

دوسری طرف طالبان کی بے چینی کی وجہ یہ ہے کہ طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا نے ان کیساتھ جو معاہدہ کیا تھا اسکی بھی مکمل طور پر پیروی نہیں کی اور معاہدے کی شقوں پر عمل نہیں کیا۔

افغان طالبان نے حکومت میں آتے ہی پاکستان پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا تھا اور تحریک طالبان نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کر دی تھیں، مذاکرات کے بعد ان معاہدوں پر توسیع ہوتی رہی اور مختلف تاریخیں،اور سیز فائر کی جاتی رہی، بظاہر افغان طالبان یہ کہتے تھے کہ تحریک طالبان پاکستان کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ پاکستانی طالبان ہیں مگر ان کو وہ روکتے بھی نہیں اور ان کا مرکز بھی افغانستان ہے، جب بھی پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہوتا تھا تو تحریک طالبان جو پاکستانی طالبان ہیں وہ پاکستان میں سرحدوں پر شدت پسندی اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔

پاکستان ہمیشہ امن کو اہمیت دی اور افغان ٹریڈ کو تسلسل کیساتھ نرم شرائط پر جاری رکھا اور باڈر پر بھی لوگوں کے پاکستان آنے کے لیے نرمی کی یہاں تک کہ سابقہ حکومت کے دور میں انڈیا کو بھی افغانستان تک رسائی،پاکستان کے ذریعے افغانستان تک راہداری دی گئی تاکہ وہاں سے گندم اور دیگر کھانے پینے کی اشیا افغانستان میں تسلسل کیساتھ جاری رکھی جا سکیں ۔ان تمام مراعات کے باوجود بھی طالبان باز نہیں آئے اور مختلف طریقوں سے پاکستان پر دباؤ بڑھاتے گئے اور ساتھ ساتھ انڈیا کے ساتھ بھی اپنے روابط بڑھاتے گئے حتی ٰکہ افغان آرمی اور پولیس کی ٹریننگ بھی انڈین کر رہے ہیں۔

امریکا کے افغانستان سے انخلا کے بعد اور طالبان کی افغانستان میں حکومت قائم ہونے کا بظاہر بھارت کو سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا اور وہاں اسکے بنائے ہوئے سفارتی مشن اور دیگر پاکستان مخالف مشنز کا بھی قلع قمع ہوا تھا اور وہاں سے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اپنا ساز و سامان چھوڑ کر بھاگ گئی تھی ۔ پاکستان کیساتھ افغان طالبان نے یہ معاہدہ بھی کیا تھا کہ افغانستان کی حکومت کسی بھی طرح بھارت کو پاکستان میں افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے شرپسندی کی اجازت نہیں دے گی مگر اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔

پاکستان سمیت دنیا کے کسی ملک نے افغانستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم ہی نہیں کیا تو اس حکومت کے ساتھ سفارتکاری کیسے کر سکتے ہیں، یہی وہ اہم ترین نکتہ ہے ، جس پر افغانستان حکومت کے سرکردہ رہنماؤں کو سرجوڑ کر بیٹھ ہونا ہوگا ، فہم وفراست اور تدبر سے ایسے فیصلے کرنے ہونگے، جن سے ان کے معاشی حالات درست ہوسکیں ، افغانستان کے اندر موجود دہشت گردوں کی ٹھکانوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

افغان طالبان جتنی جلدی اس بات کا ادراک کرلیں کہ کوئی بھی ملک دنیا سے کٹ کر یا لاتعلق رہ کر ترقی وخوشحالی کا سفر طے نہیں کرسکتا ۔ منفی رحجانات کے خاتمے کے لیے افغانستان کی حکومت کو اپنا بھرپورکردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے والے شرپسند عناصر کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔

جہاں تک پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کا تعلق ہے ، اس سلسلے میں ایک مرتبہ پھر قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمدکی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے، لہذا اس عفریت کے مکمل خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔پاکستانی پرامید ہیں کہ سیکیورٹی ادارے حالیہ دنوں میں پیدا ہونیوالی دہشت گردی کی لہر پر قابو پالیں گے اور جلد ملک میں امن بحال ہوجائے گا۔

The post دہشت گردی اور افغان حکومت کا رویہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/ATdpMu4
via IFTTT

No comments:

Post a Comment