Wednesday, August 1, 2018

ہمارے خلاف چند بڑی عالمی سازشیں ایکسپریس اردو

سازشی مفروضے، سازشی نظریئے اور سازشی کہانیاں تعمیر کرنا ایک ایسا کاروبار ہے جو تاریخی لحاظ سے کسی بھی دور میں مندی کا شکار نہیں ہوا۔ محض دو لبوں سے نکلی اور سُنی سنائی پر مبنی کہانی کو کانوں کان منتقل ہوکر لمحوں میں ہی حقیقی واقعے کا روپ دھارنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ اور پھر اس نفسیاتی مخمصے کا بھی کوئی قابل عمل توڑ ملتا دکھائی نہیں دیتا جس کا شکار فرد یا معاشرہ خود کو درپیش ہر مسئلے کا الزام کسی بیرونی قوت یا فرضی دشمن پر ہی ڈال کر مطمئن ہونے میں تسلی محسوس کرتا ہے۔ ایک ایسا ماحول جہاں زیادہ زور اپنے محاسبے کے بجائے ہمسائے کی دیوار گندی کرنے پر دیا جاتا ہو، وہی ماحول سازشی کہانیوں کیلئے سب سے زیادہ سازگار منڈی کا کردار ادا کرتا ہے۔

علامہ اقبالؒ فرما گئے ہیں کہ

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اور چونکہ ہمارے ہاں کی مٹی تو اس ماحول کیلئے ہمیشہ سے زرخیز رہی ہے اور اس میں سازشی مفروضوں کو پروان چڑھانے کیلئے درکار نمی وافر مقدار میں موجود رہی ہے۔ اس لئے یہاں سازشی مفروضے اگر کھڑکی توڑ شو پیش کرتے آئے ہیں تو اس میں حیران ہونے والی کوئی بات نہیں۔ اس تحریر میں کچھ ایسی عالمی سازشوں کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے جنہیں ابھی قابلِ ذکر مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔

یہ درپردہ سازشیں ایک مدت سے ہماری ترقی اور خوشحالی کی راہیں کھوٹی کررہی ہیں ورنہ اب تک ہم پتا نہیں کہاں پہنچ چکے ہوتے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے:

ٹیلی فون ایجاد ہوا تو ریڈیو سگنلز کے ذریعے پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کی آڑ میں جگہ جگہ کی معلومات اکٹھی کی گئیں جن کی بنیاد پر بعد میں نقشے ترتیب دیئے گئے اور جنگیں جیتنے کی حکمت عملیاں ترتیب دی گئیں۔ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کی اصل وجہ ٹیلی فون کی ایجاد تھی مگر یہ آج تک نہ ہمیں بتایا گیا ہے اور نہ بتایا جائے گا۔

ایک منصوبے کے تحت پوری دنیا میں کھمبوں کی لائنیں کھڑی کرکے ان کے ساتھ تاریں باندھ دی گئیں۔ ان تاروں کے ذریعے بجلی نام کی ایک ایسی چیز بھیجی گئی جس نے گھر گھر میں بیماریاں تقسیم کیں اور خاص طور پر کینسر کی شرح کو بہت بڑھا دیا۔ دوائیں تیار کرنے والی عالمی کمپنیاں اس سازش کی سب سے بڑی اسپانسر بنیں۔ آپ خود غور کیجئے کہ جب سے دنیا میں برقی روشنیاں بڑھی ہیں، بیماریوں کی شرح میں کمی آئی ہے یا اضافہ ہوا ہے۔ جواب آپ کے سامنے ہے۔

ٹیلی ویژن اسکرینیں جن کے بارے میں ہم خیال کرتے ہیں کہ اسکرینوں کو ہم دیکھ رہے ہیں حالانکہ اندر کی کہانی یہ ہے کہ اسکرینیں ہمیں دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ گھر گھر ٹیلی ویژن بھجوا کر چہرے اور آنکھیں اسکین کرلئے گئے ہیں اور ان کی مدد سے ذہن پڑھے جاچکے ہیں۔ ٹیلی ویژن اسکرینوں کے ذریعے مانیٹرنگ کا ایک بہت بڑا جال بچھایا گیا تھا جس نے پوری دنیا کو اپنے نرغے میں لے لیا ہے۔ کاش ہم نے اپنے دور اندیش بزرگوں کی بات پر عمل کرتے ہوئے ٹیلی ویژن جیسی شیطانی ایجاد کا مستقل بائیکاٹ کردیا ہوتا تو ہم اتنے غیر محفوظ نہ ہوتے جتنے آج ہیں۔

اور پھر اب تک کی سب سے بڑی وباء کو چھوڑنے کیلئے بھی جگہ جگہ زیر زمین تاروں کے جال بچھائے گئے اور ان تاروں کے ذریعے انٹرنیٹ کی یہ بلا پہلے مرحلے میں بڑے بڑے دفتروں میں پہنچائی گئی۔ پھر گھروں میں اور آخری مرحلے میں ہر ہر انسان کے پاس انفرادی حیثیت میں، موبائل کے ذریعے۔ تاروں کے جال بچھا کر جو وباء چھوڑی گئی اس میں بہت زیادہ کثافتیں شامل تھیں۔ سوشل میڈیا کا جِن بھی اسی دھارے کے ساتھ بہہ کر آیا اور سب ذہنوں کو اپنی ہتھیلی میں جکڑ لیا۔ آزادانہ سوچنا سمجھنا اب عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہ گیا۔ ہماری نوجوان نسل میں اب تک نہ جانے کتنے آئن اسٹائن پیدا ہو چکے ہوتے اگر ہمیں اس سوشل میڈیا نے اسیر نہ بنا لیا ہوتا۔

دنیا کے ایک خاص حصے میں پینے والا پانی بوتلوں میں بند کیا گیا اور اس میں ایک انتہائی خطرناک سفوف ملا کر اسے پوری دنیا میں تقسیم کردیا گیا۔ اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ سب سے پہلے اس محلول کی ڈیلیوری پاکستان میں کی جائے۔ یہ پانی جہاں جہاں پیا گیا وہاں وہاں لوگ جینیاتی تبدیلیوں سے گزر کر محکومی اور غلامی کی جانب راغب ہونے لگے۔ اس پانی نے دشمن کیلئے پوری مسلم دنیا پر غلبہ پانے کی راہ آسان تر بنا دی ہے۔ مسلمانوں میں سرد پڑتے جذبہ ایمانی اور دم توڑتے باہمی خلوص کی اصل وجہ یہی محلول ہے مگر حیرت ہے کہ ہماری اکثریت اس بات سے ناواقف ہے۔

پولیو کے قطرے پلا کر تیسری دنیا کے ممالک کی آبادی روکنے کا منصوبہ بنایا گیا اور یہ کامیاب بھی رہا۔ اسے بچے کو پلا دیں یا بچی کو، دونوں طرف یہ متوازی طور پر اثرانداز ہوتا ہے۔ شروع میں ہم نے بجا طور پر اس پر روک ٹوک لگائی مگر اب محدود سی مخالفت کے ساتھ یہ قطرے ملک کے کونے کونے میں تولیدی نظام کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

دوائیاں بنانے والی عالمی کمپنیوں کو خاص طور پر اس سازشی نیٹ ورک کا حصہ بنایا گیا اور ان کی دواؤں سے ایک بہت ہی اہم مقصد حاصل کیا گیا کہ دوائیں مریض کو کچھ بھی دیں مگر صحت نہ دیں۔ یہ سازش بھی کامیاب رہی اور تمام دنیا کے انسان اب دائمی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ساری ساری عمر دوائیں کھاتے رہنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہم اگر جڑی بوٹیوں سے ہی علاج پر اکتفا کرتے تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔

پروپیگنڈے کے ذریعے بھی بہت سے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے بڑا پروپیگنڈا تو یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگاؤ کیونکہ درختوں کی کمی سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور زمینی کٹاؤ بھی خطرناک حد تک بڑھتا جارہا ہے۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب جو درخت نرسریوں میں دستیاب ہیں انہیں ایک خاص طرح کی کھاد دی جارہی ہے۔ یہ کھاد درختوں کو ایک خاص قسم کی آکسیجن خارج کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ نئے دور کے درخت اب اس طرح کی گیسیں چھوڑتے ہیں جو انسانی ذہنوں کو عقلی بنیادوں پر سوچنے کے قابل بنا سکتی ہیں اور خطرہ ہے کہ منطقی سوچ کے پروان چڑھنے سے آبادی کا ایک بڑا حصہ مذاہب سے دُوری اختیار کرسکتا ہے۔ آبادی کے ایک بڑے حصے کو دین سے بیزار کرنے کیلئے تیار کی گئی اس عالمی سازش کو ہم نے بہت بُرے طریقے سے ناکام بنا دیا ہے۔ ہم نے درخت لگانے کے حوالے سے خود پر بڑی بھاری پابندیاں عائد کر رکھی ہیں بلکہ ہم میں سے کچھ سیانوں نے تو پہلے سے موجود فتنہ پرور درختوں کو بھی جڑوں سے اکھاڑنے کا نیک کام شروع کردیا ہے۔ آخر یہ مذاہب کی بقاء کا معاملہ ہے بھئی!

پھر دنیا کے بڑے بڑے نام نہاد عالموں، جعلی پڑھے لکھوں، نقلی سائنسدانوں اور جھوٹے فلسفیوں کے ذریعے ایک پروپیگنڈا یہ بھی عام کیا گیا کہ علم حاصل کرو، انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے۔ دنیا کی ترقی کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے ہمیں لاکھوں کے حساب سے کتابیں لکھ کر دے دیں۔ مگر ہم نے ان کی یہ سازش بھی ناکام بنا دی۔ اگر یہی سب کچھ ہم بھی پڑھنے لگ گئے تو بالکل اسی طرح سوچنے لگ جائیں گے جس طرح وہ چاہتے ہیں کہ ہم سوچیں۔ اس کا توڑ ہم نے یہ نکالا کہ بھلے معیاری ہوں یا غیر معیاری، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں، ہم یہاں صرف اپنی ہی کتابیں پڑھاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ یہ کتابیں بھی پڑھنے والے بس سرسری نظر سے ہی پڑھیں۔ کہیں واقعی کچھ پڑھ پڑھا لیا تو انہی لوگوں کے راستے پر چل پڑیں گے جو پہلے ہی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ علمی پروپیگنڈے کا بھی ہم نے کرارا توڑ نکال لیا ہے۔

10۔ پتا نہیں ان لوگوں کو کب عقل آئے گی کہ بیٹھے بیٹھے کروڑوں روپے ضائع کرتے جارہے ہیں۔ اب یہی فلم والا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ صرف ہمارے ہاں فحاشی اور عریانی کا کلچر عام کرنے کیلئے کتنی کتنی ڈرامے بازیاں کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جی کہ بڑی محنت سے اسکرپٹ لکھواتے ہیں، پھر اس اسکرپٹ کو پردے پر لانے کیلئے کروڑوں اربوں روپے لگ جاتے ہیں، تب کہیں جاکر کوئی کہانی کہے جانے کے قابل ہوتی ہے۔ اور پھر یہ جھوٹ کہ یہ سب کچھ ہم محض اس لئے کرتے ہیں کہ اس دنیا کا آنے والا کل آج سے بہتر ہو اور نئی سوچ لے کر ہم آگے بڑھتے رہیں۔ بکواس کرتے ہیں! جان بوجھ کر ایسی چیزیں بناتے ہیں کہ ہمیں اندر سے کھوکھلا کرسکیں۔ بنیادی طور پر ان کی فلم فحاشی کا ایک تفصیلی پروگرام ہوتی ہے جس میں درمیان درمیان میں کہیں تھوڑی بہت کہانی بھی ٹانک دی جاتی ہے۔ ہمیں سب پتا ہے اس سازش کا، اسی کہانی کا دھوکا کھا کر کئی لوگ بے راہ روی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے اُن کی فلم انڈسٹری کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور مقامی طور پر بھی اس مکروہ دھندے کے منہ پر چمڑے کا دستانہ چڑھا دیا ہے۔ نہ ہوگی فلم اور نہ رہے گی فحاشی، اللہ اللہ خیر سلاّ۔

اللہ جانے ہم کب ذاتی مخالفت سے بالاتر ہوکر ان عالمی سازشوں کے توڑ کے بارے میں بھی سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔ بس ہمیں ذرا آپس میں لڑنے سے فرصت مل جائے، پھر دیکھئے ہم کیا حال کرتے ہیں ان سازشیوں کا۔ احمد ندیم قاسمی نے لکھا تھا

اک حقیقت سہی فردوس میں حُوروں کا وجود
حُسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post ہمارے خلاف چند بڑی عالمی سازشیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MbzroF
via IFTTT

No comments:

Post a Comment