Wednesday, August 1, 2018

پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے نامزدگی کا سب کو انتظار ایکسپریس اردو

 لاہور: پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں اسلام آباد سمیت پنجاب، کے پی کے، سندھ اور بلوچستان سے نشستیں حاصل کر کے خود کو ’’چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ ثابت کردکھایا ہے۔

پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو شہید نے جب پاکستان میں عوامی نمائندگی کا تاریخ ساز مظاہرہ کیا تھا اس وقت وہ چاروں صوبوں سے کامیاب ہوئے تھے اور ان کے بعد ان کی صاحبزادی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جب سیاست میں آئیں تو انہیں اس نعرے سے نوازا گیا تھا کہ’’بے نظیر، چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے گزشتہ 35 برس میں اقتدار کی میوزیکل چیئر گیم کے مزے لوٹے ہیں۔

ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعظم، صدور، گورنر، وفاقی وصوبائی وزراء امیر تر ہوتے چلے گئے اور پاکستان کی عوام قرضوں اور مہنگائی کے پہاڑ تلے دبتی چلی گئی۔2013 ء میں میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی نے جو اکثریت حاصل کی تھی وہ کتنی شفاف اور کتنی غیر شفاف تھی، پاکستان کا ہر باخبر آدمی اس بارے حقائق جانتا ہے۔ 2018 ء کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو ملک گیر کامیابی ملی ہے۔ مجموعی طور پر ووٹ حاصل کرنے والی سب سے بڑی پارٹی بھی تحریک انصاف ہے جس نے 1 کروڑ68 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیئے جبکہ مسلم لیگ(ن) 1 کروڑ29 لاکھ اور پیپلز پارٹی 68 لاکھ ووٹ حاصل کر پائیں۔

تحریک انصاف کی وفاق، کے پی کے اور پنجاب میں حکومت یقینی ہے، اس حوالے سے جہانگیر ترین نے انتھک محنت کر کے آزاد امیدواروں اور اتحادی جماعتوں کو قائل کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ عمران خان کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کے پاس اراکین کی تعداد اپوزیشن سے کئی گنا زیادہ ہے لہذا وہاں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا لیکن وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن کا سخت ترین مقابلہ کرنا ہوگا۔

ن لیگ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سیاسی مفادات کیلئے ہر حد عبور کر سکتی ہے۔ ماضی میں ن لیگ نے حکومت میں رہتے ہوئے بھی اور اپوزیشن میں بھی اس کی کئی مثالیں قائم کی ہیں جیسا کہ چھانگا مانگا سیاست اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کشی۔الیکشن سے قبل بھی ن لیگ نے عمران خان، جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کو خصوصی ہدف بنا رکھا تھا۔ عمران خان کی نجی زندگی پر جتنا کیچڑ اچھالا گیا وہ بدترین مثال بن چکا ہے، علیم خان اور جہانگیر ترین کے خلاف ن لیگ نے میڈیا ٹرائل کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ بالخصوص این اے122 کے ضمنی الیکشن میں عبدالعلیم خان کے خلاف وفاق اور پنجاب حکومت کی تمام مشینری اور کابینہ مدمقابل آگئے تھے۔

ریحام خان کی کتاب کے بارے میں بھی بہت سے حلقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ن لیگ کی سپانسرڈ ہے۔ عمران خان کو حکومت تو ملی ہے لیکن تلوار کی نوک پر ملی ہے لہذا ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔ تادم تحریر ابھی خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزراء اعلی کے نام کا اعلان تو نہیں کیا گیا ہے لیکن قوی امکان ہے کہ کے پی کے کے وزیر اعلی عاطف خان ہوں گے کیونکہ عمران خان نے پرویز خٹک کو وفاق میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سب سے زیادہ عوامی دلچسپی پنجاب کے وزیر اعلی کی نامزدگی میں ہے۔وزارت اعلی پنجاب کیلئے بہت سے نام زیر گردش ہیں مگر ان میں سے بیشتر نام ایسے ہیں جو ’’خود ساختہ‘‘ ہیں یا پھر’’خواہشات‘‘ کی تخلیق ہیں ۔ کئی روز تک چوہدری پرویز الٰہی کا نام وزارت اعلی کیلئے گونجتا رہا لیکن گزشتہ روز چوہدری برادران کی عمران خان سے ملاقات اور بعد ازاں چوہدری پرویز الہی کی میڈیا سے گفتگو میں واضح ہو گیا ہے کہ چوہدری پرویز الہی وزارت اعلی کے امیدوار نہیں ہیں۔ تاہم وہ پنجاب حکومت میں اہم ترین ذمہ داریاں نبھائیں گے اور ممکنہ طور پر انہیں سینئر صوبائی وزیر کا عہدہ مل سکتا ہے۔

کچھ حلقوں نے میجر(ر) طاہر صادق کا نام بھی مشہور کر رکھا ہے۔ طاہر صادق کو تحریک انصاف میں شامل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے اور ان کی پی ٹی آئی کیلئے کوئی غیر معمولی خدمات بھی نہیں ہیں ۔ میجر(ر) طاہر صادق کی سب سے بڑی شناخت یہ ہے کہ وہ چوہدری برادران کے نہایت قریبی عزیز ہیں لہذا جب چوہدری پرویز الہی وزیر اعلی نہیں بن رہے تو پھر طاہر صادق کیوں بنیں گے۔گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ڈاکٹر یاسمین راشد کا نام بھی وزارت اعلیٰ کیلئے گردش کرتا رہا ہے۔ دو روز قبل ڈاکٹر یاسمین راشد نے الیکٹرانک میڈیا پر یہ بیان دیا تھا کہ وزارت اعلیٰ کے حوالے سے ان کے نام بارے ہونے والی قیاس آرائیاں درست نہیں ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر یاسمین راشد تحریک انصاف کی ’’آئرن لیڈی‘‘ ہیں اور انہوں نے پارٹی کیلئے بہت خدمات سر انجام دی ہیں لیکن پنجاب جیسے بڑے صوبے کو چلانے اور نہایت ہی مضبوط اور جارحانہ اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کیلئے ڈاکٹر یاسمین راشد موزوں انتخاب نہیں ہو سکتیں۔ وہ پنجاب کی وزارت صحت کیلئے سب سے عمدہ انتخاب ہوں گی۔ پچھلے چند روز میں سب سے زیادہ نام فواد چوہدری کا لیا گیا تھا لیکن اصل میں یہ صحافتی حلقوں کے ’’جٹ گروپ‘‘ کی ’’پیشکش‘‘ تھی جسے خود فواد چوہدری نے ایک ویڈیو پیغام میں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے وزیر اعلی عبدالعلیم خان ہیں۔

پنجاب میں تحریک انصاف کے اہم ترین رہنما چوہدری سرور پہلے ہی علیم خان کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی نے بھی بجھے دل کے ساتھ فی الوقت ساتھ دیا ہے لہٰذا بادی النظر میں عبدالعلیم خان کے وزیر اعلی بننے میں کوئی بڑی رکاوٹ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

بعض حلقوں نے عبدالعلیم خان کی نیب انکوائری کو میڈیا اور سوشل میڈیا میں پراپیگنڈہ مہم کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تھی لیکن عمران خان کے ترجمان نعیم الحق نے ایک پریس کانفرنس میں اس کا بہت مدلدل جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ نیب میں کسی درخواست پر جاری انکوائری کی بنیاد پر کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ نعیم الحق کے اس بیان کو کپتان کی سوچ بھی کہا جا سکتا ہے۔ پنجاب میں دس برس تک شہباز شریف کی بادشاہت سے بڑھ کر شاہی حکومت رہی ہے، اگر عبدالعلیم خان کے خلاف ایک معمولی سا بھی ثبوت شہباز شریف کو مل جاتا تو وہ عبدالعلیم خان کو جیل بجھوائے بغیر نہیں رہتا۔

موجودہ نیب انکوائری لاہور کے لارڈ میئر کی درخواست پر ہو رہی ہے اور اس میں کچھ بھی نہیں نکلے گا۔ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کی کارکردگی بہت شاندار رہی ہے اور جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف پنجاب اسمبلی کی 44 جبکہ قومی اسمبلی کی 23 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ فیصل آباد ڈویژن میں بھی تحریک انصاف نے اہم کامیابیاں سمیٹی ہیں تاہم بعض غلط فیصلوں کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ہے۔

الیکشن سے چند دن پہلے چوہدری سرور کے بھائی چوہدری رمضان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونا چوہدری محمد اشفاق جیسے مضبوط امیدوار کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوا۔ ماضی کے برعکس چوہدری محمد اشفاق نے اس بار ایک بہت مضبوط پینل کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن سابق ٹکٹ ہولڈر خاور احمد خان گادھی نے اس بار پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کے باعث چوہدری رمضان کے خلاف عدالتی جنگ شروع کر دی، جس کے دوران دوہری شہریت کے حوالہ سے حلف نامہ میں غلط بیانی کے باعث سپریم کورٹ نے چوہدری رمضان کو الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا جو تباہ کن ثابت ہوا۔

The post پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے نامزدگی کا سب کو انتظار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2O37rnJ
via IFTTT

No comments:

Post a Comment