مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں تین جولائی تک کی توسیع کا اعلان کیا‘ انھوں نے کہا کہ تمام پاکستانی اپنی بے نامی اثاثے تین جولائی کے بینکنگ اوقات کے دوران کلیئر کرا لیں اس کے بعد بے نامی کمیشن حرکت میں آئے گا‘ بے نامی اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم میں توسیع عوام کی سہولت کے لیے کی جارہی ہے،ملکی قانون میں بے نامی اثاثوں کی سزا بہت سخت ہے، اب تک 80 ہزارسے زائد افراد نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے،میری تمام پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
انھوں نے کہا کہ ملکی قرضہ31 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، 2900 ارب سود دینا ہے لہذا امیروں پر ٹیکس کے سوا کوئی چارہ نہیں، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تمام اداروں نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا جائے گا اور سول اداروں کے اخراجات میں 50 ارب روپے کی کمی کی جائے گی۔
حکومت نے ملکی معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کا فیصلہ کیا‘ ایمنسٹی اسکیم اسی جانب ایک قدم ہے‘ اس اسکیم کے تحت یہ اعلان کیا گیا کہ تمام پاکستانی اپنے بے نامی اور ٹیکس نیٹ سے باہر ملکی اور غیرملکی اثاثوں کو قانونی تحفظ دے کر اقتصادی دھارے میں لے آئیں تاکہ معاشی نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں کالے دھن کا حجم سفید دھن کے حجم سے کئی گنا زیادہ ہے‘ اشرافیہ‘ سیاستدان‘ بیوروکریٹ اور امیر طبقہ ٹیکس سے بچنے اور اپنی کرپشن سے کمائی دولت کو بیرون ملک چھپانے سمیت مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ وہ ممالک جہاں قانون کی بالادستی رائج ہے وہاں بھی ایک طبقے کے پاس کالے دھن کی کمی نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور یورپ سمیت دیگر ممالک نے کالے دھن کو سفید دھن میں بدلنے کے لیے ایمنسٹی اسکیمیں متعارف کرائیں تاکہ حکومت کو اپنے معاشی مسائل حل کرنے میں آسانی ہو۔
پاکستان کی تاریخ میں تو کئی بار ایمنسٹی اسکیمیں منظرعام پر آئیں لیکن کامیابی کے معمولی پوائنٹس حاصل کرنے کے بعد وہ دم توڑ گئیں۔ موجودہ حکومت نے بھی کالے دھن کو قانونی تحفظ دینے کے لیے ایمنسٹی اسکیم کا ڈول ڈالا، 30جون جو اثاثے ظاہر کرنے کی آخری تاریخ قرار پائی‘ تب تک اس اسکیم کے تحت حکومت کو 350ارب روپے کی ٹیکس وصولیاں حاصل ہوئیں‘ تاجروں سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد مقررہ مدت کے اندر اپنے اثاثے ظاہر نہ کر سکی جس کے بعد حکومت نے ان کی سہولت کے لیے مزید تین دن کا اضافہ کر دیا تاکہ باقی رہ جانے والے لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل ہو سکیں۔ یہ اسکیم کس قدر کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔
اس کا فیصلہ تو آنے والے دنوں میں ہو جائے گا لیکن ابتدائی طور پر حکومت کو کامیابی کے کچھ پوائنٹس ضرور ملے ہیں۔ اگر حکومت بیوروکریٹس‘ کسٹم‘ انکم ٹیکس سمیت دیگر مالیاتی اداروں میں فائز اعلیٰ افسروں‘اہلکاروں اور پٹواریوں کی آمدن اور اخراجات کے تفاوت اور اثاثہ جات کے بارے میں چھان بین کرے تو امید ہے کہ یہاں سے بھی قارون کا بڑا خزانہ ہاتھ آ سکتا ہے۔
ملکی معاشی نظام بہتر بنانے کے لیے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا یقیناً صائب فیصلہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ گیس‘ بجلی اور پٹرول سمیت روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی پر بہت زیادہ بوجھ پڑا ہے‘ گزشتہ چند ماہ سے مہنگائی کا گراف بہت تیزی سے اوپر گیا ہے جس سے گھریلو اخراجات متاثر ہونے سے عام آدمی حکومت پر تنقید کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
حزب مخالف سیاستدان عام آدمی کے انھی مسائل کو ایشو بنا کر حکومت کو دباؤ میں لا رہے ہیں‘ حکومتی حلقوں کو بھی بخوبی ادراک ہے کہ مہنگائی اور دیگر معاشی مسائل عام آدمی کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کر سکتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی پیش بینی اور مثبت اقدامات دکھائی نہیں دے رہے بلکہ یوٹیلٹی بلز کی قیمتوں میں مزید اضافے کی ’’دھمکیاں‘‘ دی جا رہی ہیں۔
عوام ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں بشرطیکہ حکمران بھی ان کی بہتری کے لیے کچھ ڈلیور کریں۔ عوام کا حکومت پر عدم اعتماد حکومتی پالیسیوں کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ تعلیم‘ صحت سمیت دیگر سہولیات تو رہیں ایک طرف حکومت ابھی تک انتظامی معاملات ہی بہتر نہیں کر سکی۔
آج بھی عام آدمی انصاف کے لیے پولیس تھانوں اور عدالتوں میں دھکے کھاتا دکھائی دیتا ہے‘ سرکاری اداروں میں رشوت اور کرپشن میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ حکومت اپنی آمدن بڑھانے کے لیے ایمنسٹی اسکیم اور دیگر پالیسیاں ضرور نافذ کرے لیکن عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھی اسی طرح سرگرمی دکھائے تو عوام کے حکومت پر اعتماد میں اضافہ ہو گا۔
The post ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں توسیع appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NqlVCm
via IFTTT
No comments:
Post a Comment