Monday, July 1, 2019

’’جس جدوجہد میں جسم پر گولیوں کے نشان آئے، وہ بے فائدہ رہی‘‘ ، آغا جیلانی ایکسپریس اردو

بلوچستان میں سیاست کے حوالے سے کہا یہ جاتا ہے کہ یہ بلوچوں کو وراثت میں منتقل ہوتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ تمام تر نامساحد حالات کا شکار رہنے کے باجود بلوچستان خطے میں وہ واحد علاقہ ہے، جہاں سات دہائیوں میں نظریاتی فکر اور سیاسی پختگی رکھنے والے کارکن موجود ہیں۔

ان نظریاتی اور فکری سوچ رکھنے والے کارکنوں کی علمی درس گاہ جدید سہولیات سے مزین آکسفورڈ طرز کی درس گاہ نہیں، بلکہ طلبا تنظیموں کے ’اسٹیڈی سرکل‘ ہیں، جہاں حال اور مستقبل کے سیاسی منظر نامہ پر بحث ومباحثے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ’اسٹیڈی سرکل‘ سے اپنے سیاسی سفرکا آغاز کرنے والی ایک شخصیت آغا جیلانی کی بھی ہے۔

آغا جیلانی نے 1951ء میں بلوچستان کے ضلع دالبندین کی ایک سرکردہ شخصیت حاجی عبدالقادر کے ہاں آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیم آبائی علاقے نوکنڈی مڈل اسکول سے حاصل کی، کم سنی میں ہی تعلیم ادھوری چھوڑ کر اپنے والد کے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ کوئٹہ کا رخ کیا، جہاں کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے کی بہ جائے ’بی ایس او‘ (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘ کے ’اسٹیڈی سرکل‘ کو ترجیح دی اور ان ’سرکلز‘ میں روزانہ اپنے ہم عمر ساتھیوںکے ساتھ بیٹھ کر ماضی اور حال سے روشناس ہوتے اور مستقبل کی منظر کشی کرتے۔ یہ وہ دور تھا، جب تمام سیاسی قیادت محکوم اور مظلوم قومتیوں کے حقوق کے حصول کے لیے متحد ہو چکی تھیں۔

خان عبدالولی خان، سردار عطا اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر بگٹی، میر گل خان نصیر، ملک عبدالعلی کاکڑ، صمد خان اچکزئی جیسے کہنہ مشق سیاست دانوں کی قیادت میں ون یونٹ کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا۔ آغا جیلانی بتاتے ہیں کہ  ابتداً وہ ’نیشنل عوامی پارٹی‘ (نیپ) کے صرف جلسے جلوس میں شریک ہوتے، تاہم پھر باقاعدہ اس کے سرگرم کارکن بن گئے۔ بالا آخر پاکستان سے ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور صوبے بحال ہوئے۔

آغا جیلانی نظریاتی اور فکری اعتبار سے آج بھی اپنا تعارف فخریہ طور پر ’نیپ‘ کے سیاسی کارکن کی حیثیت سے کراتے ہیں، مگر اب وہ ملک میں جمہوری نظام سے خائف اور صدارتی نظام کے حامی ہیں۔ صدارتی نظام کی حمایت سے متعلق اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے آغا جیلانی کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ جمہوریت پر سے میرے اندھے اعتماد کو اس وقت ٹھیس پہنچی، جس وقت 1971ء کے انتخابات میں شیخ مجیب کو دیے گئے عوامی مینڈیٹ پر شب خون مار کر پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو دو لخت کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب تک ملک کے دو لخت ہونے کے صدمہ سے وہ خود کو نکال نہیں پائے تھے کہ ایک مرتبہ پھر عوامی مینڈیٹ پر شب خون مار کر بلوچستان میں سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت کو سازش کے تحت ختم کیا گیا اور مفتی محمود نے سردار عطا اللہ مینگل کی حمایت میں کے پی کے میں استعفا دے کر اپنی حکومت کا خاتمہ کیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ بہ حیثیت سیاست کے ایک طالب عالم کے میرے تصور میں بھی کبھی نہیں آیا تھا کہ بلوچوں کے گاندھی عبدالصمد خان اور ولی خان لسانی بنیادوں پر ’نیپ‘ کو اس طرح تقسیم کریں گے کہ دوبارہ ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے متحد نہیں ہو پائیں گے۔ آغا جیلانی بتاتے ہیں کہ ان دو سانحات نے انہیں سیاسی عمل اور جمہوریت سے اس قدر باغی کیا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی ’نیپ‘ کے بعد کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیارنہیں کر پائے۔

جس جدوجہد کی پاداش میں جسم پر گولیوں کے نشان آئے، وہ آج اپنا فائدہ کھو چکی ہے۔ وہ بلوچستان کی 70 سالہ محرومیوںکی ذمہ دار ان نوابوں اور سرداروں کو گردانتے ہیں، جنہوں نے پارلیمان کو اپنی ذات کے لیے وسیلہ رزق بنایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ صوبے میںموروثی سیاست نے سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کو سرکاری ملازمت کے حصول تک محدود کر دیا ہے، یہاں کارکن جھنڈے، نعرے لگانے اور پریس کلب کے باہر مظاہروں اور سیاسی جماعتوں کے یوم تاسیس کی تقریبات میں قیادت کے خطابات کے دوران تالیاں بجانے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان محرومیوں میں وہ بھی شریک ہیں، جنہوں نے 1971ء سے 2018ء تک ہونے والے انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ پر شب خون مارنے کی روایت کو برقرار رکھا۔

آغا جیلانی بتاتے ہیں کہ ملک میں جمہوری نظام کافائد ہ تب تک نہیں، جب تک انتخابات میں مداخلت بند نہیں کی جاتی، وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان ایک روایتی صوبہ ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے کی نسلوں سے آشنائی رکھتے ہیں، صوبے میں کل تک جن کے پاس شاید سائیکل تک خریدنے کی سکت نہ تھی، آج ان پر سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے ذریعہ منتخب ہونے کے الزامات ہیں۔ سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت کے جبری خاتمے سے بلوچوں میں پیدا ہونے والی نفرت نے بغاوت کی صورت اختیار کی۔ آئین کے دائرے میں اپنے حقوق حاصل کرنے والوں نے دوسرے  راستے کا انتخاب کیا۔ اس سے بلوچستان کی پس ماندگی میں اضافہ ہوا، وہ نوجوان جس سے بلوچستان کی ترقی و خوش حالی وابستہ تھی، انہیں دشمن اپنے ذاتی مفادا ت کے لیے استعمال کرنے میں کام یاب ہوگیا۔

آغا جیلانی کہتے ہیںکہ بلوچستان کے سیاسی اکابرین کا وژن پاکستان کے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنا ہے، انہوں نے کبھی کسی کو ہتھیار اٹھانے اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں حصہ لینے کا درس نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جنہوں نے حقوق کی جنگ پہاڑوں میں لڑنے کو ترجیح دی وہ غلط ہیں۔ ان کے جرم میں وہ بھی شریک ہیں، جو آج تک پاکستان کے دوست اور دشمن میں تفریق نہیں کرپائے ۔ افغان جنگ کے دوران طالبان کو مجاہدین کا لقب دیکر پاکستان کے درواز ے گڈ اور بیڈ طالبان کے لیے کھول دیے گئے اور پھر عالمی دباؤ پر انہیں دہشت گرد قرار دیا، جس سے آج پاکستان میں دہشت گردی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔

لاپتا افراد سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یہ یقیناً صوبے کا ایک سنگین مسئلہ ہے، تاہم ماضی قریب میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جن افراد کا نام لاپتا افراد کی فہرست میںتھا ان میں سے کچھ ہم سایہ ممالک میں موجود ہیں اور کچھ پہاڑوں پر۔ تاہم ریاست کو چاہیے کہ ایسے وقت میں جب افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں اور امریکا سے بھی زیادہ اچھے نہیں، ایسے میں ہر اس عمل سے اجتناب برتا جائے، جس سے نوجوان مایوس ہو کر ان دشمنوں کے آلہ کار بنیں اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوں۔

آغا جیلانی ملک میں عدالتی نظام سے بھی خائف ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں قانون اور انصاف حاصل کرنا سیاست کی طرح بااثر افراد کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ 6 اپریل 2009ء کو گاڑی چھیننے کے دوران سائنس کالج چوک پر فائرنگ کر کے انہیں زخمی کرنے والا ملزم ناقابل ضمانت مقدمے میں بری ہوگیا۔ ’سی پیک‘ سے متعلق ان کا موقف ہے کہ اس سے بلوچستان کو کوئی فائدہ تب تک نہیں ہوگا، جب تک حکومت ’سی پیک‘ کے تحت آنے والی آبادی کی یلغار کو آئین وقانون کے تابع بنانے کے لیے اصولوں کا تعین نہیں کرتی۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’سی پیک‘ بلوچوں کی شناخت کو ختم کر کے خطے کو ایک اور جنگ کی جانب دھکیلے گا، وہ کہتے ہیں کہ ’سی پیک‘ کے پیش نظر ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قانون ساز اداروں کو مل کر ایسی پالیسی مرتب کرنا چائیے، جس سے ملک کو استحکام ملے۔ آغا جیلانی کہتے ہیں کہ پاکستان میں غریب عوام کو اپنی فریاد حکام بالا تک پہنچانے کے لیے کسی دوسرے کا سہارا لینا پڑتا ہے، یہ دوری لوگوں کی بے چینی لوگوں کی محرومیوں اور پس ماندگی میں اضافہ کا موجب بنتی ہے۔ حکومت ہو یا ریاستی ادارے ان کو چاہیے کہ عوام اور اپنے درمیان پیدا ہونے والی دوری کو ختم کر کے عوام کی خود تک رسائی کو یقینی بنائیں، تاکہ عوام کو ان تک رسائی کے لیے کسی بااثر ومعتبر اور عوامی نمائندوں کا سہارا لینے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس عمل سے عوام کے حکومت اور ریاستی اداروں پر اعتماد میں اضافہ ہو گا۔

آغا جیلانی کہتے ہیں کہ پاکستا ن کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے محافظ پاکستان کے 21 کروڑ عوام ہیں، تاہم ملک کی ترقی و خوش حالی کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمان کو چند افراد کے چنگل سے آزار کر کے عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کاحق دیا جائے، عدالتی انصاف امیر اورغریب کے لیے ایک جیسا ہو، تعلیم اور صحت کی سہولیات کے لیے لوگوں کو میلوں کا فاصلہ طے نہ کرنا پڑے، ریاست کو قائداعظم محمد علی جناح کے ان اصولوںکے تحت چلاتے ہوئے آئین کے ان نکات پر عمل درآمد کیا جائے، جس میں قوموں کے وسائل  پر ان کے حقوق تسلیم کیے گئے ہیں، پھر پاکستان میں کوئی نظام کا باغی نہیںہوگا، آغا جیلانی اس وقت ’مائنز‘ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

The post ’’جس جدوجہد میں جسم پر گولیوں کے نشان آئے، وہ بے فائدہ رہی‘‘ ، آغا جیلانی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2J3Bmwb
via IFTTT

No comments:

Post a Comment