چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوتے ہی آپ کو ہر طرف کتابیں ہی کتابیں نظر آتی ہیں، جنہیں بڑے سلیقے کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے۔ میز پر دھری ہوئی مختلف چیزیں، لیپ ٹاپ، کاغذات اور فائلیں بھی اس ماحول کا جزو ہیں۔ ایک طرف دیوار پر ہاتھ سے لکھا ہوا یہ شعر چسپاں ہے:
اس سرا میں، نہیں قیام بہت
زندگی مختصر ہے، کام بہت
دھان پان سے درویش عالم اور محقق ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے یہ شعر اپنی یاد دہانی کے لیے لکھ رکھا ہے، جن کے وقت کا بیشتر حصہ تحقیق و تصنیف میں گزرتا ہے۔ وہ آج کل کتابیات اقبال (Iqbal’s Bibliography)نئے سرے سے مرتب کر رہے ہیں۔ 1974ء میں ان کی پہلی کتاب ’’اقبال کی طویل نظمیں‘‘ شائع ہوئی۔ اب تک پچاس کے قریب کتابیں تصنیف و تالیف کر چکے ہیں۔ ’’اقبالیات‘‘ ان کی شناخت کا بنیادی حوالہ ہے، جبکہ دلچسپی کے میدان اور بھی ہیں۔
رفیع الدین ہاشمی 9 فروری 1940ء کو مصریال (ضلع چکوال) میں پیدا ہوئے۔ دادا عالم شاہ دیندار کسان تھے، جنہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو تعلیم کی غرض سے دوسرے شہر بھیج دیا اور کہا کہ جب تک وہ تعلیم مکمل نہ کر لیں، گھر واپس نہ آئیں۔دونوں بھائی مختلف مدرسوں میں زیر تعلیم رہے۔
ان کے والد محمد محبوب شاہ دہلی کے مدرسہ فتح پوری میں زیر تعلیم رہے، جبکہ چچا عبدالرحمٰن نے مولانا شبیر احمد عثمانی کی شاگردی اختیار کی اور ڈابھیل سے فارغ التحصیل ہو کر طب کا پیشہ اختیار کیا۔ رفیع الدین ابھی چھے برس کے تھے جب والدہ کا انتقال ہو گیا، چنانچہ ان کی پرورش دادی اور چچی نے کی۔ بچپن میں ہی حفظ قرآن کی سعادت نصیب ہوئی، ساتھ سکول کی تعلیم بھی جاری رہی۔ انبالہ مسلم ہائی اسکول، سرگودھا سے 1957ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا،اس دوران وہ چچا سے عربی و فارسی کی ابتدائی کتب کریما، پند نامہ، گلستان و بوستان بھی پڑھ چکے تھے۔ گھر میں رکھی ہوئی علامہ اقبال کی کتاب ’’بانگ درا‘‘ کا مطالعہ شروع کر دیا، جس کے شروع میں دی گئی بچوں کی نظمیں ’بچے کی دعا‘ ، ’ہمدردی‘ اور ’ماں کا خواب‘ وغیرہ شوق سے پڑھتے اور یہ نظمیںان کو زبانی یاد ہوگئیں۔سکول کے زمانہ طالب علمی میں ہی بچوں کے رسائل پڑھنے لگے، معلومات عامہ کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتے۔
انٹرمیڈیٹ کے لیے گورنمنٹ کالج سرگودھا میں داخلہ لیا۔ کالج کے ’حلقہ ادب‘ میں باقاعدگی سے شریک ہوتے، ادب و تنقید کا ابتدائی ذوق انہی اجلاسوں سے پیدا ہوا اور وہ خود بھی افسانے لکھنے لگے۔ اپنے پسندیدہ افسانہ نگاروں میں پریم چند، علی عباس حسینی اور بعد کے دور میں انتظار حسین کا نام لیتے ہیں۔ 1960ء میں ایف اے کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا۔مولانا مودودی کی تصانیف کا مطالعہ بھی اسی دور میں کیا اور ان کی فکر سے متاثر ہوئے۔ 1963ء میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کا امتحان دیا، پھر گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ایم اے اردو کی کلاس میں داخلہ لے لیا۔ اورینٹل کالج کے نامور اساتذہ سے اکتساب فیض کرنے کی خواہش دل میں مچلتی رہتی، چنانچہ کچھ عرصے بعد وہاں مائیگریشن کرا لی۔
یہاں انہیں ڈاکٹر سید عبداللہ، سید وقار عظیم اور ڈاکٹر وحید قریشی جیسے اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا۔ بتاتے ہیں، ’’یہ وہ لوگ تھے جن کی تحریریں اور لیکچر بھی بہت پسند تھے اور ان سے مل کر بھی بہت اچھا لگتا۔ وہ اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت پر پورا دھیان دیتے تھے۔‘‘ اپنی شخصیت کی تشکیل میں سید اسعد گیلانی کا بھی بہت اہم کردار سمجھتے ہیں، جن سے ان کا خاصا ملنا جلنا تھا۔ اورینٹل کالج میں وہ یونیورسٹی کے مجلے محور کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے، ان کے ہم جماعت عطاء الحق قاسمی اس کے مدیر تھے۔ معروف شعراء جلیل عالی، امجد اسلام امجد اور معروف نقاد سہیل احمد خاں ان سے ایک سال جونیئر تھے۔
زمانہ طالب علمی کے دوران ان کی کچھ صحافتی مصروفیات بھی رہیں۔ روزنامہ وفاق، سرگودھا کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ لاہور کے ماہنامہ تعمیر انسانیت اور ہفت روزہ آئین سے بھی وابستہ رہے۔ ان کو اپنے مزاج کے مطابق تدریس کا شوق تھا۔ اس لیے 1966ء میں ایم اے کرنے کے بعد جھنگ میں اپنے دوست کے نجی کالج میں اردو کے لیکچرار کی حیثیت سے منسلک ہو گئے۔ چشتیاں، مری اور سرگودھا کے سرکاری کالجوں سے بھی وابستہ رہے، 1982ء میں اپنی مادر عملی اورینٹل کالج لاہور سے جڑ گئے اور اپنی ریٹائرمنٹ تک یہ تعلق برقرار رہا۔ اقبال اکادمی کے لیے بھی خدمات انجام دی ہیں۔ کئی ملکی و بین الاقوامی کانفرسوں میں شرکت کر چکے ہیں۔ 1969ء میں شادی ہوئی۔ تین بیٹوں اور تین بیٹیوں کے والد ہیں۔ دوسرے اعزازت کے علاوہ حکومت پاکستان نے 2014ء میں خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ امتیاز سے نوازا۔ ان کی تحقیقی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔کئی مشاہیر کے خطوط مرتب کیے، مختلف شخصیات پر مضامین لکھے اور ان کا ایک قابل قدر حوالہ سفرنامہ نگاری بھی ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو علامہ اقبال سے دلچسپی سکول کے زمانے سے ہی پیدا ہوگئی تھی، جب ’’بانگ درا‘‘ میں بچوں کی نظمیں پڑھنے کا موقع ملا۔ پھر اردو کے نصاب میں اقبال کا کلام بڑے ذوق و شوق سے پڑھا۔ ایف اے کے دوران بال جبریل کا مطالعہ کیا۔ اس کا بہت سا حصہ انہیں یاد ہوگیا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’بی اے کے امتحان میں علامہ اقبال کی شاعری اور نثر کا ایک پورا پرچہ تھا، اور اس طرح یہ میرا پسندیدہ مضمون بن گیا۔ اس دوران شعور کے ساتھ یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ وہ کتنی بڑی ادبی اور علمی شخصیت تھے، انہوں نے پاکستان کا تصور دیا وغیرہ۔‘‘ یونیورسٹی کے اساتذہ نے ان کا ذوق دو آتشہ کر دیا اور اس طرح اقبالیات ہی ان کا میدان قرار پایا۔ اقبالیات پر ان کی کتابوں کی تعداد بیس سے زیادہ ہے۔
’اقبالیات ایک وسیع شعبہ ہے‘
اقبالیات اصل میں ایک وسیع شعبہ ہو گیا ہے، اس کے اندر بہت سی چیزیں ہیں، مثال کے طور پر ایک علامہ اقبال کے حالات زندگی ہیں، یہ ایک شعبہ ہے۔ اسی طرح علامہ اقبال کی تصانیف کون سی ہیں، یہ کب ، کہاں چھپیں، ان کی نوعیت کیا ہے، وغیرہ۔ پھر ان کی شاعری ہے اور شاعری کے بھی دو پہلو ہیں، ایک ان کی فکر ہے، دوسرے ان کی شاعری کو فنی اعتبار سے دیکھنا ہے۔ اسی طرح بطور ایک فلسفی ان کا مطالعہ کرنا، جیسے ان کے خطبات ہیں، تو اس طرح کئی شعبے ہیں، لیکن جن اصحاب نے اقبال کی فکر و فلسفے کو پھیلانے میں کوشش کی، ان میں پروفیسر منور کا نام سب سے پہلے آنا چاہیے اور ان کے ساتھ ہی ڈاکٹر سید عبداللہ کا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے جتنے آسان انداز میں اقبال کو سمجھایا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ مجھے اپنی کتابوں میں ’’علامہ اقبال: شخصیت۔ فکر وفن‘‘ سب سے زیادہ پسند ہے، جسے میں عام لوگوں کے لیے زیادہ مفید سمجھتا ہوں۔اسے اقبال اکادمی نے شائع کیا ہے، پہلے دوسرے اداروں نے بھی شائع کیا۔ آج کل آؤٹ آف پرنٹ ہے۔ اس کو دوبارہ شائع کیا جائے گا۔
’تصنیفات اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ‘
یہ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔اقبال کی زندگی میں ان کی تصانیف کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے، جس میں انہوں نے تبدیلیاں کیں۔ کہیں کوئی لفظ بدل دیا، کوئی مصرع بدل دیا، اس طرح وہ چیز بہت بہتر اور موثر ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر بال جبریل کی نظموں میں انہوں نے بہت تبدیلیاں کیں۔ علامہ اقبال کے ہاتھ کے لکھے ہوئے یہ مسودے اقبال اکادمی اور جاوید منزل میں ہیں۔ ایک کتاب میں، میں نے ان کے عکس دیئے ہے۔ کلیات اقبال، اردو کا جو نسخہ اب اقبال اکادمی نے چھاپا ہے، اس میں بظاہر کوئی غلطی یا خامی نظر نہیں آتی۔ انہوں نے فارسی کا ایک کلیات بھی ابھی شائع کیا ہے، جو بہت خوبصوت ہے اور یہ بھی ایک مستند ایڈیشن ہے۔علامہ اقبال کا فارسی کلام اردو ترجمے کے ساتھ بھی شائع ہو چکا ہے، میاں عبدالرشید نے ترجمہ کیا تھا۔ جو لوگ فارسی سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتے، انہیں ترجمے کے ساتھ فارسی کلام پڑھنا چاہیے کیونکہ اقبال کی زیادہ شاعری فارسی میں ہے۔ فنی اور فکری اعتبارسے یہ بھی اعلیٰ پائے کا کلام ہے جس کا اعتراف خود اہل ایران اور ان کے سکالرز بھی کرتے ہیں۔
ایک زمانے میں یہ تصور تھا کہ شاعری بے کار لوگوں کا کام ہے اور شعراء معاشرے کے لیے کوئی مفید کام نہیں کرتے۔ حالانکہ علامہ اقبال کی شاعری مختلف ہے، لیکن جیسا کہ سرعبدالقادر نے علامہ اقبال کی ایک کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ آغاز میں اقبال وقتی طور پر شاعری سے بد دل ہو گئے تھے اور ان کا خیال تھا کہ کوئی ’مفید‘ کام کرنا چاہیے۔ لیکن پھر احساس ہوا اور لوگوں نے بھی یقین دلایا کہ ان کی شاعری الگ ہے۔ انہوں نے پرانے طرز کی شاعری بھی کی، عشق و عاشقی کی شاعری، لیکن جب بانگ درا کو دوبارہ مرتب کیا تو اس کا بہت سا حصہ نکال دیا۔
اقبال کی طویل نظمیں
علامہ اقبال کا جو فکر و فلسفہ اور تصورات ہیں، وہ سارے کے سارے ان کی طویل نظموں کے اندر جمع ہو گئے ہیں، اگر صرف ان طویل نظموں (شکوہ جواب شکوہ، والدہ مرحومہ کی یاد میں، خضر راہ، طلوع اسلام، مسجد قرطبہ، ساقی نامہ، ذوق و شوق) کو ہی پڑھا جائے، ان کی وضاحت کی جائے، تو اقبال کا پورا فکر و فلسفہ، فنی اور فکری لحاظ سے سمجھ آ جاتا ہے۔ ہمارے جتنے نامور نقاد ہیں، انہوں نے اقبال کے افکار کے ساتھ ان کی شاعری کی فنی خوبیوں پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ بطور شاعر ان کا کیا مقام ہے، الفاظ، تراکیب ، تلمحیات کیسی ہیں۔ تو ان مضامین سے پتا چلتا ہے کہ علامہ اقبال بہت ہی پختہ گو شاعر تھے اور کوئی ایسا شاعر نہیں ہے جو فنی خوبیوں کے معاملے میں بھی ان سے آگے ہو۔
’اچھے کام کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے‘
علامہ اقبال کی نثر میں بھی ان کے تمام افکار موجود ہیں، ان کی نثر، شاعری کی وضاحت، تشریح کرتی ہے۔ وہی باتیں جو شاعری میں کہی گئی ہیں، ان کی نثر میں ان کی براہ راست یا بلواسطہ وضاحت مل جاتی ہے۔علامہ اقبال پر بہت تحقیق ہوئی ہے اور بعض اوقات احساس ہوتا ہے کہ اتنے کام کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر کام غیر معیاری ہے، کچھ لوگ خانہ پوری کے لیے یا عقیدت کی خاطر لکھ دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے نام کی وجہ سے کتاب فروخت بھی ہوجاتی ہے، لائبریریوں میں کتابیں چلی جاتی ہیں۔ لیکن اچھے اور معیاری کام کی گنجائش کبھی ختم نہیں ہوتی لیکن اس کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے، جس سے لوگ جی چراتے ہیں۔ اقبال پر تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ساری شاعری اور نثر پڑھی جائے۔ کتابوں کا مطالعہ کیا۔ پھر کوئی پہلو تلاش کر کے اس پر کام کرنا چاہیے۔
قومی زندگی میں اقبال کی اہمیت
ہم ان کو جتنی اہمیت دیں گے، اتنی اہمیت ان کی بنے گی۔ اگر ہم ان کوایک طرف رکھ دیں گے اور سب کچھ اپنی مرضی سے کریں گے تو کوئی اہمیت نہیں رہ گی۔ ان کا سب سے زیادہ مشہور تصور تو خودی کا ہے اور خودی کو تو ہم نے ایک طرف رکھ دیا ہے۔ ہمارے سیاستدان اور لیڈر ماضی میں بھی اور اب بھی یہ اعلان کرتے ہیں کہ کشکول توڑ دیں گے، لیکن پھر کشکول اٹھا لیتے ہیں۔ تو اس طرح فکر اقبال سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔
میں سمجھتا ہوں علامہ اقبال متکلم بھی تھے اور فلسفی بھی۔ ان کے اندر بہت سی خصوصیات جمع ہو گئی تھیں۔ انہوں نے ایک نیا علم کلام بھی وضع کیا ہے اور ایک نیا فلسفہ بھی دیا ہے۔ اگرچہ بطور مضمون فلسفے کے وہ اتنے قائل نہیں تھے اور فلسفے کو آخری عمر میں خاص طور پر مفید نہیں سمجھتے تھے، اس کے بجائے وہ سمجھتے تھے کہ زندگی کے جو عام مسائل اور معاملات ہیں، ان کو دیکھنا، سمجھنا، وضاحت کرنا اور ان کے بارے میں لکھنا زیادہ اچھا ہے۔اقبال کے سال پیدائش کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ اس بارے میں ہمارے استاد ڈاکٹر وحید قریشی کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال کا سال پیدائش 1873ء ہونے کے شواہد زیادہ قوی ہیں۔
استاد نے بھی ایم اے کا امتحان ساتھ دیا
سجاد باقر رضوری اورینٹل کالج میں ہاشمی صاحب کے استاد تھے۔ وہ ایم اے اردو کی کلاس کو پڑھاتے، جبکہ انہوں نے خود انگریزی میں ایم اے کیا ہوا تھا۔ یونیورسٹی میں ان کی ملازمت کے مستقل ہونے کے لیے ضروری تھا کہ وہ ایم اے اردو کریں، چنانچہ سجاد باقر رضوی نے کسی کو بتائے بغیر راولپنڈی سنٹر میں امتحان دیا۔ جب نتیجہ آیا تو لوگوں کو معلوم ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رفیع الدین ہاشمی درجہ اول میں پاس ہوئے جبکہ ان کے استاد درجہ دوم میںتو ہر جگہ اس کا ذکر ہونے لگا۔ اخبارات میں استاد، شاگرد کے نتیجے کی خبریں چھپیں، کچھ لوگوں نے کالم بھی لکھے۔
’مشفق خواجہ باکمال آدمی تھے‘
بطور ادیب ، محقق، مزاح نگار اور دوست کے مشفق خواجہ باکمال آدمی تھے۔ ان جیسا کالم نگار کوئی کم ہی آتا ہے، وہ لوگوں کی جہاں ضرورت ہوتی تھی کھچائی بھی کر دیتے اور ان کو ناراض نہیں ہونے دیتے تھے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر سلیم اختر کی کتاب چھپی تو اس پر انہوں نے ایک کالم لکھا اور خاصی تنقید کی۔ جب وہ لاہور آتے ڈاکٹر وحید قریشی، تحسین فراقی اور مجھے ساتھ لے کر مختلف لوگوں سے ملنے جاتے۔ سلیم اختر صاحب سے جب ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کالم کا شکوہ کیا۔ بعد میں مشفق خواجہ ہمیں بتانے لگے کہ انہوں نے سلیم صاحب کو منا لیا ہے۔ ہم نے کہا لیکن وہ تو آپ سے خفا نظر آئے۔ کہنے لگے: میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کی کتاب پر دوسری قسط لکھنے والا تھا وہ میں اب نہیں لکھوں گا۔
اسی طرح سید اختر درانی کی کتاب ہے ’’اقبال یورپ میں‘‘۔ اپنے کالم میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ آج کل کتابیں بہت لکھی جا رہی ہیں، اقبال یورپ میں اور اقبال فلاں جگہ۔ وہ آگے لکھتے ہیں: ’’میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ آپ آج کل کیا لکھ رہے ہیں، کہنے لگے میں کتاب لکھ رہا ہوں، ’’اقبال اور ٹنڈو جام‘‘۔ میں نے استفسار کیا لیکن اقبال تو کبھی وہاں گئے ہی نہیں، تو وہ صاحب بولے، میں یہی ثابت کروں گا کہ اقبال اپنی زندگی میں وہاں کبھی نہیں گئے۔‘‘ تواس انداز میں ان کا مزاح بہت منفرد تھا۔
The post کشکول اور فکرِ اقبال ایک ساتھ نہیں چل سکتے، رفیع الدین ہاشمی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Xg841h
via IFTTT
No comments:
Post a Comment