پشاور: مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں اس انداز میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا جس انداز میں نوے کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے خلاف تحریکیں چلاتی رہیں کیونکہ نہ تو یہ نوے کی دہائی ہے اور نہ ہی ویسے حالات ہیں کہ جن حالات میں اس طرح کی تحریکیں چلا کرتی تھیں اس لیے تمام جماعتوں نے صرف 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے اور چیئرمین سینٹ کو تبدیل کرنے کے اعلانات پر اکتفاء کیا اور دیگر امور رہبر کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے اس کی طرف پھینک دیئے جو خود اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ فوری طور پر کچھ ہونے والا نہیں۔
چیئرمین سینٹ کی تبدیلی بھی شاید اتنی آسان نہ ہو جتنی کہ سمجھ لی گئی ہے کیونکہ جن حالات میں صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ منتخب کیا گیا تھا وہ بھی سب کو یاد ہی ہوں گے، رہی بات اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 25 جولائی کو مشترکہ طور پر یوم سیاہ منانے کی تو سیاسی پارٹیاں اس موقع پر ضرور احتجاج کریں گی تاکہ سند رہے کہ اے پی سی کامیاب تھی ناکام نہیں، تاہم عوام میں اے پی سی کے حوالے سے یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ ناکام شو تھا۔
جس کی بنیادی وجہ دو بڑی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ (ن ) اور پیپلزپارٹی کی’’مجبوریاں‘‘ ہیں اور ان مجبوریوں کی وجہ سے وہ کھل کر میدان میں آنے سے کنی کترا رہی ہیں، جہاں تک مولانا فضل الرحمٰن کی بات ہے تو وہ اس اے پی سی میں بھی اسی طرح کا کوئی سخت فیصلہ کرنے کے موڈ میں تھے جیسا فیصلہ وہ عام انتخابات کے بعد کرانا چاہتے تھے کہ اپوزیشن ارکان حلف نہ لیں تاہم ان کی بات نہیں مانی گئی اسی طرح اب بھی اے پی سی میں ان کی بات نہیں مانی گئی تاہم یہ مولانا فضل الرحمٰن ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے 25 جولائی کو پشاور میں اپوزیشن جماعتیں بڑا شو کر پائیں گی کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی جس نے14 جولائی کو پشاور میں ملین مارچ کرنا تھا اس کی تاریخ تبدیل کرتے ہوئے25 جولائی کردی گئی ہے اور ان کا ملین مارچ اب اپوزیشن کے یوم سیاہ کے اجتماع کے طور پر منعقد ہوگا جس میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو بھی اپنا زور دکھانے کا موقع مل جائے گا تاہم اگر اپوزیشن جماعتیں یوم سیاہ منانے پر ہی اکتفاء کریں گی تو یقینی طور پر ان کی یہ تحریک کمزور ہی رہے گی۔
مرکز میں پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں میں جو تناؤ جاری ہے اس کے اثرات خیبرپختونخوا میں بھی مرتب ہو رہے ہیں جس کی جھلک صوبائی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں پوری طرح نظر آئی جس میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کے احتجاج کے دوران بجٹ اوران کے واک آؤٹ میں ضمنی بجٹ منظور کیا گیا جس میں حکومت واپوزیشن ارکان ایک دوسرے کے سامنے تھے تاہم جہاں تک بجٹ کی منظوری کا تعلق تھا اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اپوزیشن جماعتوں نے خود ہی میدان حکومت کے لیے خالی چھوڑ دیا، تمام اپوزیشن ارکان تاریخ کے لیے عدالت چلے گئے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سپیکر نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان کی کٹوتی کی تمام تحاریک ختم کرتے ہوئے مطالبات زر کی منظوری کی راہ ہموار کی اور بجٹ منظور کرلیا گیا جبکہ ضمنی بجٹ کے موقع پر بھی جب کٹوتی کی تحاریک کو ختم کیا گیا تو اپوزیشن ارکان واک آؤٹ کر گئے اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے ضمنی بجٹ کی ایک ہی دن میں منظوری لے لی حالانکہ ایجنڈا دو دنوں کا جاری کیا گیا تھا۔
بجٹ کی منظوری کے لیے اسمبلی کا اجلاس جاری ہو اوراس موقع پر پوری کی پوری اپوزیشن اسمبلی کو چھوڑ عدالت کیس کی تاریخ کے لیے پہنچ جائے یقینی طور پر یہ مشکوک عمل ہے یہی وجہ ہے کہ بعد میں ایوان میں آمد پر اپوزیشن ارکان نے احتجاج تو کیا لیکن ساتھ ہی شکوک وشبہات بھی پیدا ہونا شروع ہوگئے کہ پوری کی پوری اپوزیشن کو اسمبلی چھوڑ کر عدالت جانے کا حکم کیوں دیا گیا؟ اور اپوزیشن کے پارلیمانی لیڈروں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ شکوک اور کوئی نہیں بلکہ خود اپوزیشن ارکان ہی ظاہر کر رہے ہیں کیونکہ میدان خالی چھوڑنا کسی بھی طور دانشمندی نہیں تھی اور خود میدان خالی چھوڑتے ہوئے حکومت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپوزیشن کا انتظار کرے گی، مضحکہ خیز بات لگتی ہے،اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ پارلیمانی لیڈروں کے اپنے ارکان کو اعتماد میں لیے بغیر حکومت سے مذاکرات اور اچانک فیصلوں پر بھی ان کی اپنی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ارکان ناراض ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کے ان ارکان نے اپنی ناراضگی کو اپنے تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ پارٹی قیادت کو بھی تحفظات سے آگاہ کیا یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ سے احتجاج نہ کرنے کی پارلیمانی لیڈروں کی کمٹمنٹ کے باوجود بجٹ پیش ہونے کے موقع پر اپوزیشن ارکان نے اسمبلی میں احتجاج کیا کیونکہ پارلیمانی لیڈروں کی کمٹمنٹ کے باوجود پارٹیوں کی قیادت کی جانب سے انھیں اس سلسلے میں گرین سگنل ملا تھا اور اب بھی جبکہ خود اپنی ہی پارٹیوں کے ارکان کی جانب سے پارٹی قیادت کو شکایات کی گئی ہیں تو اس کے اثرات بھی ہوں گے جس کے بعد یقینی طور پر پارلیمانی لیڈر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل اپنے ارکان کو ضرور اعتماد میں لیں گے کیونکہ مناسب طریقہ یہی ہے، عدالت عالیہ کی جانب سے وزیراعلیٰ کے تینوں مشیروں اور دو معانین خصوصی کی بحالی کے بعد حکومتی ارکان اور صوبائی وزراء کا لب ولہجہ بھی سخت ہوا ہے کیونکہ انھیں اس عدالتی فیصلہ کی بدولت جو فائدہ ملا ہے وہ اپوزیشن کو اس کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کے ارکان کے لب ولہجے میں تبدیلی اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ مرکز میں تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین اگر معاملات تناؤ کا شکار رہیں گے تو اس کے اثرات پورے طریقے سے خیبرپختونخوا پر بھی مرتب ہونگے، یہ نہیں ہو سکتا کہ مرکز میں تو اپوزیشن جماعتیں، پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دیں اور پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے تحریک چلائیں اور اسی پاکستان تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتوں کو گلے سے لگاتے پھریں اور ان کو ترقیاتی فنڈز بھی دیں،اگر معاملات تناؤکا شکار رہتے ہیں تو اس کا نزلہ پوری طرح خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتوں پر گرے گا او روہ زیر عتاب آئیں گی کیونکہ پی ٹی آئی ان کے ساتھ مرکز کے علاوہ خیبرپختونخوا میں بھی حساب برابر کریگی اور اس تناؤ میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ قبائلی اضلاع میں انتخابات کا انعقاد ہونے میں اب تقریباً نصف ماہ ہی باقی رہ گیا ہے اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے قبائلی اضلاع کے انتخابات کے لیے انتخابی مہم میں تیزی آئے گی۔
اور عوامی نیشنل پارٹی جو ایک عرصہ سے دہشت گردی کا نشانہ بن رہی ہے اس پر ایک مرتبہ پھر حملہ کیا گیا ہے، اے این پی سٹی ڈسٹرکٹ پشاور کے نوجوان صدر سرتاج خان کو تھانے سے چند گز کے فاصلے پر دن دیہاڑے سڑک پر گولیاں مارتے ہوئے قتل کردیا گیا، اے این پی جس نے اپنے دوراقتدار میں سینکڑوں کارکنوں کی لاشیں اٹھائیں،اس وقت کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور اور وزیر اطلاعات میاں افتخارحسین کے اکلوتے صاحبزادے کو بھی اسی لہر کے دوران جان سے ہاتھ دھونے پڑے اور ابھی تو ہارون بلور کی پہلی برسی بھی نہیں ہوئی کہ اب سرتاج خان کا قتل کردیا گیا۔
یہ قتل اے این پی کے لیے تو کھلا پیغام ہے ہی کہ جس کے ذریعے اے این پی کی ساری قیادت اور کارکنوں کو ایک مرتبہ پھر پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اب بھی نشانے پر ہیں اور حالات ان کے لیے بہتر نہیں ہوئے وہیں پر وہ دیگر پارٹیاں جو دہشت گردوں کے نشانے پر رہی ہیں، انھیں بھی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ یہ صورت حال صوبائی حکومت کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ امن وامان کی ذمہ داری کسی اور کی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی ہے اسی لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان نے فوری طور پر واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم بھی دیا تاہم اس واقعہ کو صوبائی حکومت ٹیسٹ کیس کے طور پر لیتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے کہ کیسے تھانے سے چند گز کے فاصلے پر موٹرسائیکل سوار ایسی واردات کرتے ہیں اور پھر سکون کے ساتھ چلے بھی جاتے ہیں اور پولیس واقعہ کے بعد آرام سے موقع پر پہنچتی ہے، وزیراعلیٰ اگر متعلقہ تھانے کے اہلکاروں کے خلاف کاروائی کریں تو ممکنہ طور پر مستقبل میں مزید جانیں محفوظ ہو سکتی ہیں ۔
The post فضل الرحمن احتجاجی سیاست کا درجہ حرارت بڑھانے میں کامیاب ہونگے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xoYIpo
via IFTTT
No comments:
Post a Comment