خبریں دینے والوں کی ’خبریں‘
کتاب ’’میڈیا کا بحران‘‘ میں ہمارے ملک میں ذرایع اِبلاغ کے بحران کا ایک مدلل اور مفصل انداز میں جائزہ لیا گیا ہے، جس میں ملک کے اہم اِبلاغی اداروں اور ان کی حکمت عملی سے لے کر ان کی کارگزاری تک پر بہت سے حقائق یک جا کیے گئے ہیں۔
اس میں بہت سی معلومات ایسی بھی ہیں، جو کہ اِبلاغ عامہ کے ہر طالب علم کے علم میں ضرور ہونی چاہئیں، لیکن ان معلومات کا حصول اچھا خاصا کٹھن کام ہے، کیوں کہ بہت سے سینئر صحافیوں کو بھی اداروں سے متعلق اتنی زیادہ تفصیلات نہیں ہوتیں، اور جنھیں ہوتی ہیں، وہ اس کا باضابطہ طور پر اظہار نہیں کر پاتے، اور عام ذرایع اِبلاغ پر اس قسم کی باتوں کی گنجائش ذرا کم ہی نکلتی ہے۔ اس اعتبار سے بلاشبہ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک اہم حوالہ رہے گی کہ اس میں ایسی بہت ساری باتیں موجود ہیں۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان، ڈاکٹر عرفان عزیز کے ساتھ اپنی اِس مشترکہ کاوش کے حوالے سے اس خواہش کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کوئی اور طالب علم ان کی اس تحقیق کی بنیاد پر ذرایع اِبلاغ کے حوالے سے تحقیق کو آگے بڑھائے۔
یہ بات بالکل درست ہے، ایسی بہت سی مطالعاتی تحقیقات اس وقت بہت ضروری ہیں، تاکہ اطلاعات تک رسائی اور دی جانے والی اطلاعات کے معیار اور انتخاب سے متعلق قارئین، ناظرین اور سامعین کا شعور بلند ہو اور وہ لفظوں اور ’مناظر کے پار‘ بھی کسی نہ کسی حد تک دیکھنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں۔۔۔ انھیں اندازہ ہو کہ کوئی واقعہ ’خبر‘ اور کوئی خبر کیسے ’بڑی خبر‘ بن جاتی ہے اور کیسے بہت بڑی خبر بہت جلدی سے کہیں دفن کر دی جاتی ہے اور کن وجوہ کی بنا پر کسی خبر کو اِبلاغی ادارے نظر انداز کر دیتے ہیں، یا دبا دیتے ہیں کہ وہ شایع یا نشر ہی نہیں ہو پاتی۔ بدلتی دنیا پبلی کیشنز (0343-2100549) سے شایع ہونے والی کتاب کے صفحات 410 اور قیمت 1000 روپے ہیں۔
رضیہ سلطانہ کا اَحیا
مشہور ادیب قیسی رام پوری اپنی جنم بھومی میں اپنی پیدائش (1908ء) سے 1924ء تک رہے، پھر 20 برس اجمیر اور پھر ڈھائی تین برس ہندوستان کی راج دھانی دلی کی نذر کرنے کے بعد وہ پاکستان تشریف لے آئے اور تادم اخیر یعنی 1974ء تک یہیں رہے۔
ان کا مذکورہ ناول ’رضیہ سلطانہ‘ 1954ء میں حیدرآباد سے شایع ہو چکا، اب ان کے نواسے عادل حسن اسے دوبارہ قارئین تک لائے ہیں۔ قیسی رام پوری اس بات کے قائل ہیں کہ ’’تاریخی ناول لکھنے سے بہتر ہے کہ تاریخ ہی لکھ لی جائے۔‘‘ تاہم ان کا یہ ناول 1211ء میں ہندوستان کا تخت سنبھالنے والے شمس الدین التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ پر ہے، التمش اپنے ’تختِ دلی‘ سے کبھی پنجاب میں سرکشی کی سرکوبی کرتا ہے، کبھی بنگال کی سمت لشکر روانہ کرتا ہے، تو کبھی ’راجپوتانہ‘ (راجستھان) اور سندھ کی جانب رخ کرکے اسے سرنگوں کرنے کے جتن کرتا ہے۔
ایسے میں چشم تصور سے تاریخ کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والے قاری مخمصے میں پڑ جاتے ہیں کہ کیا کیجیے گا، کہ ہو نہ ہو یہ ناول تو تاریخ ہی میں سفر کرتا ہے، حالات وواقعات سے مفر ممکن ہے، لیکن اعدادوشمار اور بنیادی معلومات تو لامحالہ قاری کو ماضی میں لے جا کر کھڑا کیے دیتی ہیں۔ یہ ساری کتھا ہندوستانی شاہ زادی رضیہ سلطانہ کے ساتھ اس کی بہنوں کی طرح پلنے بڑھنے والی عادلہ کی کہانی ہے، جس میں کارزارِ سلطنت اور اس کی مہم جوئیاں، سرکوبیاں، فتوحات اور محاذ بھی ساتھ ساتھ ہیں، مگر گاہے گاہے دل کے سودے بھی روا ہیں۔ ابتداً عادلہ کا تذکرہ غالب رہتا ہے، تو پھر رضیہ سلطانہ کو دل دینے والے کا بیان بھی آخری صفحات تک مکمل ہوتا ہے۔۔۔ جسے اپنی محبت پانے کے لیے رضیہ سلطانہ کو شکست دینا پڑی، لیکن پھر یہ شکست، اس کی فتحِ محبت کی راہ بن گئی۔
خاص بات یہ ہے کہ اس میں زیب داستان کی ’رنگین آمیزی‘ بھی ایک حد تک رہتی ہے، گویا بہت مئودب اور مہذب ہے، ایک دو لفظوں سے سطر، دو سطر میں منظر کھینچ کر بات جلدی سے آگے کو بڑھ جاتی ہے۔ یہ روایت اور طور بہت سے لکھنے والوں میں ناپید ہے، کیوں کہ وہ اسے مقبولیت کا تیر بہ ہدف نسخہ سمجھتے ہیں، جو بعضے وقت باذوق قارئین پر بہت گراں بھی گزرتی ہے اور غیر ضروری بھی معلوم ہوتی ہے۔
مجموعی طور پر کتابت کی غلطیاں نہیں، تاہم ایک آدھ جگہ سہو کَھلتا ہے، اس کے علاوہ کئی جگہوں پر جملوں میں امالہ نہیں کیا گیا، جیسے ’احتشام کے ’معاملہ‘ میں۔۔۔ ’حملہ‘ میں دقت پیش آئے گی۔۔۔ اپنے ’کمرا‘ میں لے آتی، وغیرہ۔ ان فقروں میں جملے کی روانی کی غرض سے بالترتیب معاملے، حملے اور کمرے لکھا جانا چاہیے تھا۔ خوب صورت مجلد کتاب کے صفحات 296، قیمت 700 روپے ہے، اور یہ ’بک کارنر‘ (03215440882) جہلم سے شایع کی گئی ہے۔
نفاذِ اردو کے محاذ پر برسر پیکار ایک ’میجر‘
حیدرآباد (دکن) سے ہجرت کرنے والے میجر آفتاب حسن کی زندگی پر کتاب بہ عنوان ’میجر آفتاب حسن حیات وخدمات‘ از محمد اسلام نشتر صرف ان کی زندگی پر مبنی نہیں، بلکہ یہ پاکستان میں اردو کے حوالے سے مختلف تاریخی حقائق پر ایک اہم حوالہ بھی ہے۔ کتاب میں میجر آفتاب کے روحانی مرکز، تحریک پاکستان کے حوالے سے کچھ اہم حقائق کے ساتھ ساتھ میجر آفتاب کے کاکول سے اردو کالج آنے، پھر پروفیسر جامعہ کراچی، سربراہ شعبۂ تصنیف وتالیف وترجمہ، معتمد سائنٹیفک سوسائٹی پاکستان، صدر نشیں مقتدرہ قومی زبان، نفاذ قومی زبان، فن اصطلاح سازی، اسلوب اور طرز تحریر کے علاوہ ’انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کے مابین تلخ وشیریں معاملات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جس میں بابائے اردو مولوی عبدالحق اور میجر آفتاب حسن کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات بھی درج کیے گئے ہیں، جو ہماری تاریخ کا ایک افسوس ناک باب ہیں۔
مختصراً اس کتاب میں ملک میں قومی زبان کے عام فروغ اور عملی نفاذ سے لے کر تعلیمی اور سائنسی سطح پر اردو کے لیے خدمات کے احاطے کے ساتھ ساتھ 1992ء تک ملک کے طول وارض میں برپا ہونے والی 26’اردو سائنس کانفرنسوں‘ کی ایک عدد فہرست بھی موجود ہے، جس سے ہمیں بہ خوبی پتا چلتا ہے کہ ’کراچی آرٹس کونسل‘ کی حالیہ ’اردو کانفرنسوں‘ کا تصور قطعی طور پر نیا نہیں ہے، یہ دراصل ہمارے بزرگوں کی ڈالی گئی ایک طرح کی لائق ستائش تجدید ہے۔ البتہ اس کے منتظمین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ’اردو کانفرنس‘ کے وقار اور مرتبے کے ساتھ ساتھ اس کے مقاصد کو قطعی فراموش نہ کریں اور اسے فقط میلے ٹھیلے کا موقع نہ بنا دیں۔ ’جہانِِ سائنس‘ لاہور (0332-5553192) سے شایع ہونے والی 264 صفحاتی اس تاریخی دستاویز کی قیمت 12 سو روپے ہے۔
’کسی اور‘ ملک کی کتھا
’بوم بسیرا‘ ایک ملک کی تاریخ پر تبصرہ ہے، گو کہ ہے تو ناول، لیکن گاہے گاہے حالات وواقعات کی بازگشت، حقائق اور بے لاگ تبصرے بھی شامل ہیں، جس میں ظاہر ہے ناول نگار کا نقطہ نظر غالب ہے۔ مصنف ظفر قریشی نے اپنے اس ناول میں اگرچہ ’نیم علامتی‘ انداز میں بہت سی چیزوں کا تذکرہ کیا ہے، لیکن بہت سے ’کردار‘ بہ نفس نفیس تذکرہ کر دیے گئے ہیں یا بعضے استعارے اتنے واضح طور پر برتے گئے ہیں کہ ’علامتی‘ انداز محض علامتی ہی بن کر رہ جاتا ہے اور قاری کو بھرپور طریقے سے معلوم ہوا جاتا ہے کہ یہ کس ’نگر‘ کی بات کی جا رہی ہے اور کہاں، کس واقعے اور کون سے چلن کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
اس ناول کی کہانی دراصل 1970 اور 1980ء کی دہائی میں سفر کرتی ہے، اور ناول کے امریکا کے پس منظر کے باوجود ’دیسی‘ سیاسی منظر کشی جاری رہتی ہے، بہت سی جگہوں پر سیاسی و مذہبی جانب دارانہ رنگ ابھر کر سامنے آتا ہے۔
فرطِ جذبات و ’اشتعال‘ سے بہت سی جگہوں پر ناول نگار کا قلم گالیوں کے بے دریغ استعمال سے بھی نہیں چُوکتا۔ اس کے علاوہ ناول میں عالمی سرمایہ دارنہ نظام کے چال چلن اور منڈی کے طور طریقوں سے لے کر سیاست اور ریاستی معاملات میں کثیر القومی اداروں کی اثراندازی کو بھی قلم بند کیا گیا اور ہماری صحافت اور ’ایک سیاسی جماعت‘ کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا وہ بہت دل چسپ، قابل حوالہ، پرکشش اور معلوماتی محسوس ہوتا ہے۔۔۔ ’بوم بسیرا‘ میں 55 ابواب کو ترتیب وار ہندسوں تلے استوار کیا گیا ہے۔ اس کے ’فلیپ‘ پر مصنف کے اگلے ناول ’بحران پورہ‘ کی بازگشت ہے، جو ایک 70 سال پرانا ملک ہے ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’بوم بسیرا‘ کے بعد اسی نوع کا ایک اور ناول بھی آنے کو ہے۔ یہ ناول ’فرید پبلشرز‘ کراچی (021-32770057) نے شایع کیا ہے، قیمت 1200 روپے اور صفحات 514 ہیں۔
ہندوستان بیسویں صدی تلک
کتاب میں جنابِ آدم علیہ السلام سے شروع ہونے والی مختصر تاریخ مختلف مذاہب اور اہم واقعات کے حوالوں سے ہوتے ہوئے جدید ہندوستانی زمانے تک آتی ہے۔ کتاب کو سلسلے وار پانچ ابواب میں بانٹا گیا ہے، جس میں ہر باب کے آخر میں مواد کے حوالہ جات بھی دیے گئے ہیں۔ یہ تذکرہ ہے سید قیام نظامی کی تحقیق ’ہندوستان کی تاریخ حکم رانی‘ کا، جو گذشتہ دنوں ’بزم تخلیق ادب‘ کراچی (03218291908) سے شایع ہوئی ہے۔ اس میں نشاط وارثی نے درست ہی لکھا ہے کہ مصنف اس سے قبل تصوف پر چار کتب لکھ چکے ہیں اور اس کتاب میں بھی اس کا رنگ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔
پہلے باب میں اوائل سے لے کر قبل از مغل، دوسرے باب میں مغلوں کے دور سے ٹیپو سلطان، تیسرے باب میں ’ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت سے لے کر 1857ء کی جنگ آزادی کے واقعات تک، چوتھے باب میں ’غدر‘ کے بعد کی تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام تک، جب کہ پانچویں اور آخری باب میں اس انکشاف سے شروعات ہوتی ہے کہ تاریخ کی کتابوں سے اکثر آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر بیرسٹر سید شرف الدین کا نام غائب کر دیا جاتا ہے، جیسے 1907ء تک مسلم لیگ بغیر صدر کے رہی! پانچواں باب انڈیا ایکٹ 1935ء تک آتا ہے، جہاں آکر 354 صفحات کی یہ تاریخی دستاویز تمام ہو جاتی ہے۔
ہر باب میں سرخیاں اہم واقعات اور اہم شخصیات اور ان سے جڑے ہوئے اہم معاملات کے حوالے سے جمائی گئی ہیں، اور ہر باب کے شروع میں ان سرخیوں کی فہرست بھی دی گئی ہے، تاہم ان سرخیوں پر صفحہ نمبر درج نہ ہونے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر اپنے موضوع پر یہ کتاب ایک اہم اضافہ ہے، مجلد نسخے کی قیمت 800 روپے ہے۔
پَدرم ’اقبال‘ بود
’باادب۔۔۔!‘ کہ زیرتبصرہ کتاب علامہ اقبال کے پوتے آزاد اقبال کا شعری مجموعہ ہے۔ ’دانائے راز‘ کے عنوان تلے شایع ہونے والی اس منظوم کتاب کے حوالے سے پروفیسر خیال آفاقی کہتے ہیں کہ اس میں ’اقبالی جھلک‘ دکھائی دیتی ہے۔ آزاد اقبال، شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے سب سے بڑے پوتے ہیں، ان کے والد آفتاب اقبال ہیں، آزاد اقبال کا ایک شعر ہے؎
کہاں وہ حق نمائی چشمِ مسلم کے اشاروں میں
کہاں ہے وہ خودی کا رنگ، باغوں میں، بہاروں میں
’شکوہ جواب شکوہ‘ سے اچھی طرح روشناس قارئین جب ’’سوالِ بندہ، جوابِ خدا‘‘ پر آتے ہیں تو بے ساختہ اس انداز پر علامہ اقبال کی شبیہ محسوس ہونے لگتی ہے۔ نو منظوم سوال اور نو منظوم جواب پر مشتمل یہ کلام 108 مصرعوں تک وسیع ہے۔ اس کتاب میں جہاں عام خیالات کو شعروں کی صورت متوازی کیا گیا ہے، وہیں ذاتی زندگی میں آنے والے خوشی وغمی کے اہم مواقع پر بھی اپنی سخن وَری کو یک جا کیا گیا ہے، جس میں کسی عزیز کی وفات، اپنے اور خاندان کے دیگر بچوں کی پیدائش، کسی سے ملاقات وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ کتاب سامیہ پبلی کیشنز (03332267532) کے تحت شایع ہوئی ہے، 248 صفحات اور قیمت 1000 روپے ہے۔
قبائلی رسوم کا قصہ
نشاط یاسمین خان لکھتی ہیں کہ ناول ’ردوکوہی‘ کی شکل میں سامنے والی بپتا دراصل ایک سچی کہانی ہے، جس کی ایک راوی کے توسط سے ان تک رسائی ہوئی۔ اس کے بعد ایک رسالے میں اس کی اشاعت ہوئی اور اب اسے باقاعدہ کتابی صورت میں لایا گیا ہے۔ اگرچہ راوی نے کردار اور نام وغیرہ تو بدلنے کو کہا تھا، تاہم چوں کہ کہانی پنجاب کے کھیت کھلیانوں میں پروان چڑھتی ہے، پھر قبائلی اور برادری کے رسوم ورواج کے گرد گھومتی گھامتی آگے بڑھتی ہے، شاید اسی واسطے مصنفہ نے نہ صرف اُسی مقامی بول چال اور مکالموں کو بھی مِن وعن اسی طرح کتاب میں اتارا ہے۔
ہم اس نقطہ نظر کے حامی ہیں کہ اگر اس کی زبان وبیان کی درستی ہو جاتی تو زیادہ بہتر امر رہتا۔ عنوان کے حوالے سے مصنفہ لکھتی ہیں کہ ’ردوکوہی‘ اس جگہ کو کہتے ہیں، جہاں سیلاب کا پانی آکر گم ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں بننے والی دلدل کے باعث زمین زرخیز ہو جاتی ہے۔ 240 صفحات، قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے، ناشر انہماک انٹرنیشنل پبلی کیشنز (03046474843) ہیں۔
پہلا شعری مجموعہ
سباس گُل کی 14 ناولوں کے بعد پہلی شاعرانہ تصنیف منصہ شہود پر آئی ہے، سامیہ پبلی کیشنز (03332267632) سے شایع شدہ اس مجلد کتاب میں 49 غزلیں اور 65 نظمیں اور دیگر قطعات اور اشعار وغیرہ شامل کیے گئے ہیں۔ نظموں میں بہت سی جگہوں پر کچھ معروف قافیے بھی ’سُنائی‘ دیتے ہیں، جیسے: ’’ہمیں آواز دے لینا۔۔۔ کبھی غم کی گھٹائوں میں۔۔۔ یہ آنکھیں بھیگ جائیں تو۔۔۔ ہمیں آواز دے لینا‘‘ اس نظم کو کتاب کے دوسرے فلیپ پر بھی جگہ دی گئی ہے، جب کہ پہلے فلیپ پر کتاب کا عنوان ہونے والی نظم ’’محبت پھر شروع کرلو‘‘ درج کی گئی ہے۔ انتساب والدین کے نام کیا گیا ہے، 160 صفحات کی اس کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔
سندھ کے ماحولیاتی قوانین
(مبصر: شبینہ فراز)
ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی قوانین کا غیرموثر نفاذ اور عوام کا ان قوانین پر عمل نہ کرنا ہے۔ ان قوانین سے واقف نہ ہونے کی بڑی وجہ ان کا انگریزی زبان میں ہونا ہے، کیوں کہ عوام کی اکثریت قومی اور دیگر پاکستانی زبانیں ہی سمجھ سکتی ہے۔ ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ کے افسر تعلقات عامہ مرزا مجتبیٰ بیگ نے نہ صرف سندھ کے قانون برائے تحفظ ماحول 2014ء کا لغوی اور بامحاورہ ترجمہ کیا ہے، بلکہ ساتھ ساتھ اس کے تحت بننے والے تمام ذیلی قواعد و ضوابط کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ماحولیاتی قوانین پر عمل درآمد میں سہولت کی خاطر اس لائق تحسین کاوش کے بعد اب عوام کا کام ہے کہ انھیں سمجھنے کے بعد اس پر عمل کریں اور خلاف ورزی کی شکایت اپنے قریبی متعلقہ دفتر میں کریں، جس بارے میں کتاب میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/EAprBQT
via IFTTT
No comments:
Post a Comment