Friday, August 3, 2018

پاکستان میں پنشنرز کو درپیش مسائل ایکسپریس اردو

وطن عزیز میں سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت عموماً 25 سال ہوتی ہے لیکن اکثر افراد اپنے معاشی مسائل کے باعث نوکری کےلیے عمر کی آخری حد یعنی 60 سال کی عمر کو پہنچنے تک نوکری جاری رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے موقع پر جو یکمشت رقم ملازمین کو ملتی ہے اس سے عام طور پر بیٹیوں کی شادیاں یا گھر کی تعمیر جیسے عرصہ دراز سے ادھورے رہ جانے والے امور انجام دیئے جاتے ہیں۔

یوں معمر ریٹائرڈ حضرات کی گزر اوقات کےلیے وہ معمولی رقم ہی بچتی ہے جو انہیں بعد از ریٹائرمنٹ سرکار ماہانہ پنشن کے نام پر جاری کرتی ہے۔ یہ پنشن بالعموم آخری بنیادی تنخواہ کے نصف کے برابر ہوتی ہے۔ بنیادی تنخواہ سے مراد وہ رقم ہے جس میں کسی قسم کے الاؤنسز شامل نہیں ہوتے اور وہ اصل تنخواہ کے نصف سے بھی کم ہوتی ہے۔

جس طرح پنشنرز کی رقم حفظ مراتب (پروٹوکول) کے اعتبار سے کم یا زیادہ ہوتی ہے، اسی طرح پنشنرز کے مسائل بھی ان کے عہدوں کی طرح مختلف نوعیت کے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان مسائل کی ابتداء پنشنر کے اپنے اسی محکمے سے ہوتی ہے جس کی نذر مذکورہ پنشنر نے اپنی زندگی کی درجنوں بہاریں کی ہوتی ہیں۔ ہم نے ان مسائل سے واقفیت اور حاصل کرنے بزرگ پنشنرز سے ان کے حالات جاننے کےلیے ایک تفصیلی سروے کیا۔ ذیل میں پنشنروں کے چیدہ چیدہ مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے جو ہم نے اسی سروے کی روشنی میں لیا ہے۔

پنشن کےلیے کاغذات کی تیاری: ریٹائرمنٹ یا دورانِ ملازمت وفات کی صورت میں پنشن پیپرز کی تیاری ایک جاں گسل عمل ہے۔ اس عمل کے دوران آپ کے اپنے محکمے کے بابو حضرات سے لے کر اکاؤنٹ آفس تک کے کلرک آپ کو جی کھول کر ذلیل کرتے ہیں۔ اگر آپ رشوت دینے کے ہنر سے ناواقف ہیں تو آپ کی فائل ایک ہی کمرے میں ایک میز سے دوسری میز تک کا سفر مہینوں میں طے کرے گی۔ اگر آپ زیادہ شور مچائیں گے تو اس فائل میں موجود کاغذات پر طرح طرح کے اعتراضات لگا کر آپ کو بار بار دفتر کے چکر لگوائے جائیں گے۔ کچھ پنشنرز کے مطابق بابو (کلرک) پنشنر کو دفتر آنے کےلیے وہ تاریخ بتا دیتا ہے جس دن اس کام سے متعلق اہلکار کو چھٹی پر ہونا ہوتا ہے اور یوں پنشنر بیچارہ مایوسی کا ایک اور دن گزار کر گھر لوٹ جاتا ہے۔ ایک پنشنر مس نسرین ریٹائرڈ پرائمری ٹیچر ہیں، انہوں نے بتایا کہ ان کی مکمل فائل میں سے کلرکوں نے رشوت نہ دینے کے باعث کاغذات گم کیے اور انہیں کئی ماہ تک ذلیل کرتے رہے۔ رشیدہ بی بی کی عمر 54 سال سے زیادہ ہے، ان کی پانچ بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ ان کے شوہر دوران ملازمت ہارٹ فیل ہونے کے باعث فوت ہوئے تھے۔ وہ کہنے لگیں کہ محکمے نے انہیں اس قدر ذلیل کیا کہ نوبت فاقوں تک جاپہنچی اور بچے فیسوں کی عدم ادائیگی کے باعث اسکولوں سے نکال دیئے گئے۔

یوں آپ کی فائل ہر میز پر بھاری نذرانے نچھاور کرتی کئی ماہ بعد آخری دستخط حاصل کرنے کی اہل ہوتی ہے اور پھر وہاں مٹھائی کے نام پر ایک بھاری رقم دوبارہ اینٹھی جاتی ہے۔

ایک صاحب جو ریلوے کے ملازم رہ چکے تھے، انہوں نے انکشاف کیا کہ ان پر ایمانداری کا بھوت سوار تھا اس لیے رشوت نہ دینے کا فیصلہ کرکے چھ ماہ تک راستے میں ہی اٹکے رہے۔ بالآخر جب نوبت قرض لینے تک جاپہنچی تو رشوت دیتے ہی بنی۔ الغرض پنشنر کےلیے رسوائی کا پہلا مرحلہ پنشن کی شکل دیکھے بغیر ہی طے ہوجاتا ہے۔

ادائیگی کا طریقہ کار: پنشن کی ادائیگی کے طریقہ کار کے حوالے سے بھی پنشنرز میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے۔ ڈاکخانے کا نظام نہایت فرسودہ ہے جہاں بوڑھے پنشنرز کو، تپتی دھوپ ہو یا شدید سردی، سارا سارا دن لائنوں میں کھڑے رہنا پڑتا ہے نیز بعض اوقات پنشن مقررہ تاریخ کو ڈاکخانے منتقل نہیں ہوتی اور بوڑھے پنشنرز کو دوہری اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔

حکومتی سرد مہری: پنشنرز کے مسائل کے حوالے سے حکومتی رویہ سرد مہری پر مبنی ہے۔ چونکہ بوڑھے پنشنرز کے پاس احتجاج کےلیے کوئی مناسب پلیٹ فارم نہیں اس لیے حکومت بھی اس حوالے سے دباؤ محسوس نہیں کرتی۔

کم شرح اضافہ: تنخواہوں کے مقابلے میں پنشن کی شرح اضافہ انتہائی کم ہے نیز پرانے پنشنرز پرانی تنخواہوں کے حساب سے پنشن لیتے ہیں جو بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ساتھ دینے میں ناکام ہے، یوں مسائل روز افزوں ہوتے چلے جاتے ہیں۔

علاج معالجے کے مسائل: بوڑھے پنشنرز عمر کے اس حصے میں اکثر بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے علاج معالجے کی سہولتوں کے فقدان کے باعث پنشن کا ایک بڑ ا حصہ علاج اور دواؤں کی نذر ہوجاتا ہے۔

پنشن کی فراہمی میں تعطل: کچھ محکمے فنڈز کی کمی کا بہانہ بنا کر پنشنرز کو کئی کئی ماہ تک محروم رکھتے ہیں یوں پنشنرز مالی تنگی اور ذہنی اضطراب کا شکار رہتے ہیں۔

پنشنرز کی بیواؤں کے مسائل: جو ملازمین دوران سروس وفات پاجاتے ہیں ان کے بیوی بچوں کے گزارے کا کل سامان وہی پنشن کی رقم ہوتی ہے جو تنخواہ کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔ یوں وہ لوگ مالی مسائل اور تنگ دستی کا شکار رہتے ہیں۔

دنیا بھر میں بزرگ شہریوں کو خصوصی سہولیات اور عزت دی جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پنشنرز کے مسائل کو سنجیدگی سے لے اور ان کے حل کےلیے مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ پنشنرز کے مسائل کم ہوسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post پاکستان میں پنشنرز کو درپیش مسائل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2OGooFC
via IFTTT

No comments:

Post a Comment