حال ہی میں کینیڈا کے ایک مشہور جریدے میں شائع ہونیوالے ایک تحقیقی فیچر با عنوان ’’ تیسری دنیا کے ملکوں میں جسم فروشی، طوائفیت کی بڑھتی ہوئی وبا اور عورتوں کا استحصال‘‘ نے ہماری آنکھوں کے ساتھ دل و دماغ کو بھی جکڑ لیا، اس میں بتایا گیا ہے کہ معاشی اور اقتصادی طور پر ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک میں بالعموم اور پسماندہ ملکوں میں بالخصوص فحاشی خصوصاً جسم فروشی تیزی سے پھیل رہی ہے اور یوں اسے ایک بین الاقوامی مسئلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
مغربی ممالک خصوصاً امریکا میں جنسی معاملات میں جس قدر آزادیاں لوگوں کو حاصل ہیں ، ان کے پیش نظر اگر اس قوم کو ’’مادر پدر آزاد‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ سامنے کی حقیقت بھی یہی ہے کہ سیاحوں کی دلچسپی اور دل بستگی کے لیے تقریباً ہر ملک میں جنس کو ہی ایکسپلائٹ کیا جاتا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ مغرب میں جنس اور عصمت کا تصور مشرق سے مختلف ہے۔ مغربی معاشرہ عورت کی آبرو اور عصمت کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا جب کہ مشرق میں لوگ ( اتنی بے راہ روی کے باوجود بھی ) اس کی خاطر جان نچھاورکر دیتے ہیں۔ بے شمار قتل اور خون ریز جھگڑے محض عزت اور غیرت کی بنا پر ہی ہوتے ہیں۔
ایک فرق یہ بھی ہے کہ مغرب میں ایسی بے روزگاری اور غربت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جو مشرقی ملکوں کا مقدر بن چکی ہے۔ بیرونی ممالک کے بڑے شہروں میں عصمت فروشی واحد کاروبار ہے جو گاؤں دیہات سے آنیوالے لاکھوں افراد کا ذریعہ معاش ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لڑکیاں دیہات سے شہروں کا رخ کرتی ہیں تو وہ کسی بھی قسم کے ہنر اور تربیت سے عاری ہوتی ہیں، ان کے لیے شارٹ کٹ یہی ہے کہ اپنا جسم فروخت کریں یہی وجہ ہے کہ بنکاک ، تھائی لینڈ ، منیلا اور کولمبو بھی اس راہ پر چل نکلا ہے، یہ سب سیاحوں کی دل بستگی کا مرکز بن گئے ہیں۔
دراصل بنی نوع انسان کے ساتھ یہ المیہ رونما ہوا ہے کہ مانگ اور فراہمی کا عدم تناسب اس کی مرکزی وجہ بنا اور پھر آبادی بے اندازہ بڑھتی جا رہی ہے، وسائل و ذرائع نہایت محدود ، آمدنی انتہائی قلیل ، بھوک افلاس کی شرح حد درجہ بلند اور ضروریات زندگی روز بروزگراں تر ہوتی جا رہی ہے اور یہ ہر ملک کے ساتھ تیسری دنیا کا نمایاں ترین مسئلہ ہے۔ طرہ یہ کہ لوازمات زندگی کی فہرست روز بروز طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ معاشرے ناہمواری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عصمت فروشی ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں ایک انتہائی نازک مسئلہ بن چکی ہے اور اسی وجہ سے ساری دنیا میں جنس اب ایک عام شے بن چکی ہے۔
دنیا بھر میں سیکڑوں نہایت منظم ادارے ہر رنگ و نسل کی جنس فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ہولناک امر یہ ہے کہ بیشتر ممالک میں جسم فروشی قانونی طور پر ممنوع ہے لیکن اس کے باوجود یہ کاروبار وہاں عروج پر ہے اور مشکل یہ ہے کہ ان ممالک میں ان خرابیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات بھی نہیں کیے جا رہے۔ حالانکہ عصمت فروشی ایک ایسی خرابی ہے جس کے شاخسانے کے طور پر منشیات اور جرائم کا فروغ بھی ہوتا ہے اور ان چیزوں کا سب سے پہلا نشانہ گھریلو اور خاندانی زندگی بنتی ہے۔ رشتوں کی تمیز اور پہچان ختم ہوجاتی ہے، معاشرتی اقدار دم توڑ دیتی ہیں، خاندان اور کنبے تتر بتر ہوجاتے ہیں، اخلاقیات و شرم و حیا تو سب سے پہلے اپنی شناخت کھو چکی ہوتی ہے۔
اس بدعت ، فعل بد یا قبیح کاروبار میں منفعت کا پہلو دیکھ کر پوریٹویکو، جنوبی امریکا اور شمالی افریقہ سے بھی طوائفیں بہت زیادہ تعداد میں درآمد کی جاتی ہیں۔ یعنی مغرب میں تو سیاحت سے دکاندار، ہوٹل، ہوائی کمپنیاں، ٹرانسپورٹ ادارے ، تفریح گاہیں اور مقامی صنعتیں فروغ پاتی ہیں اور مشرق میں محض جسم فروشی، منشیات اور جرائم کو جلا ملتی ہے۔دیکھا جائے تو اب تک ہر بری چیز مغرب سے ہی مشرق کی طرف آتی رہی ہے۔ ابتدا میں چائے اورکافی آئی، پھر شراب، چرس، ہیروئن، کوکین ، مینڈرس کے ساتھ دیگر منشیات کی وبا پہلے وہاں پھیلی اس کے بعد پاکستان میں اس کی قدر و منزلت شروع ہوئی۔
اور یہ حقیقت ہے کہ ہیروئن، کوکین، حشیش اور دیگر نشوں کا استعمال امریکا اور یورپ میں اس وقت بھی عام تھا جب پاکستان میں ان نشوں کے نام تک سے لوگ واقف نہ تھے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان اور دنیا بھر کے دوسرے ترقی پذیر ملکوں میں منشیات کو سونے کی تجارت میں تبدیل کرنیوالے خود مغربی تاجر ہیں۔ اس کے علاوہ نت نئے شرمناک فیشن، جدیدیت کے نام پر دیگر معاشرتی خرابیاں، تعلیم کے نام پر قومی قدروں سے انحراف اور بغاوت، قرضوں کے نام پر تیسری دنیا کے ملکوں کو گروی رکھنے کی ترکیبیں یہ سب مغرب والے ہی ہمیں ’’ عطیے‘‘ یا ڈونیشن کے طور پر دیتے چلے آرہے ہیں اور معاشی اور اقتصادی زنجیروں میں جکڑے جانے کے باعث ہم اغیار کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گئے ہیں۔
معیشت کی لاغری سے قوموں پر کیا بیتتی ہے ، اس کا تجربہ اس وقت پوری پاکستانی قوم کر رہی ہے۔ عوامل کچھ بھی ہوں یہ حقیقت طشت ازبام ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی تمام تر حکومتی کاوشیں تادم تحریر ثمر بار نہیں ہو پائیں۔ معیشت سے قطع نظر وطن عزیز بھی تیسری دنیا میں شمار قطار ہونے کی وجہ سے انھی بدعتوں یا لتوں کا شکار ہوگیا ہے اور یہ سب ہمارے لیے اتنا ہی تباہ کن ہے جتنا دوسرے ممالک کے لیے۔ ہماری قوم اور معاشرے کو بھی اس کی روک تھام کے لیے حتی الامکان موثرکارروائی کرنی چاہیے، مگر دوسرے کاموں کی طرح اس محاذ پر بھی ہمارے محکمے یا ادارے وہی کر رہے ہیں جو کافی یا صحیح نہیں ہے۔ اور بقول حبیب جالب کے:
مدتیں ہو گئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عصمت فروشی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ کم و بیش انسان کی اپنی تاریخ۔ اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ ہر عورت کے پاس لے دے کر اس کا جسم اور اس کی عصمت ہی گوہر نایاب جیسی قدروقیمت رکھتا ہے۔ لیکن اہل مغرب کو ہوش سنبھالتے ہی یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ جنس ایک بے معنی اور بے قیمت شے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ چیز جسے ہر مذہب اور مہذب معاشرے نے بد اخلاقی اور گناہ قرار دیا ہے، اب رفتہ رفتہ مغربی جمہوری آزادی نے اس کو انسان کا بنیادی حق قرار دے کر ہر پابندی سے آزاد کردیا ہے۔اور ایک تیسری دنیا کے ملکوں کی خواتین پر ہی کیا موقوف ہے۔
عورتوں کے استحصال کی تاریخ خود وجود زن کی تاریخ ہی کی طرح انتہائی بوسیدہ ہوچکی ہے اور تقریباً دنیا کا ہر معاشرہ ایسی ہی جنس سے اٹا ہوا ہے جو اپنے بدن کے تیشے سے زندگی کی نہر کھود رہی ہیں۔ اور وہ بے چاری کریں بھی توکیا؟ محروم لوگوں کے پاس اپنے ہی بدنوں میں کود کر خودکشی کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی جن معاشروں میں انسانوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی وہاں ’’جسم‘‘ بہت ہی قیمتی ہوتے ہیں۔
The post مدتیں ہوئیں خطا کرتے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2JIFIsH
via IFTTT
No comments:
Post a Comment