Saturday, November 2, 2019

حکومت اور اپوزیشن کے لیے مفاہمت ناگزیر ایکسپریس اردو

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کے لیے دو دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے، پاکستان پر حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے، انھوں نے کہا کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر وزیراعظم کو گھر کے اندر جاکر گرفتار کرسکتا ہے۔وہ جمعہ کو آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کررہے تھے۔

اسلام آباد میں ہونے والے جلسے سے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو، جے یو آئی کے مرکزی رہنماعبدالغفور حیدری، نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدامالک بلوچ، مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمد خان اچکزئی، پیپلز پارٹی کے سرکریٹری جنرل نیئر بخاری، جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما اویس نورانی، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار، غلام احمد بلور و دیگر نے خطاب کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے آزادی مارچ جلسے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بدعنوانوں کا گلدستہ جمع ہوگیا ہے، بے شک دھرنا دیں مگر این آر او نہیں دوںگا۔ ادھر عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی کا جلسے میں کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے طبل جنگ بجادیا ہے،ہم ساتھ کھڑے ہیں، وفاقی وزرا نے کہا کہ دھرنے کا سر ہے نہ پیر جتھے لے کر حملہ آور ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومتی مذاکراتی پارٹی کے سربراہ پرویز خٹک کو اطلاع تھی کہ آزادی مارچ کے شرکا ڈی چوک جانے پر اصرار کرتے رہے تو انھوں نے کہا قانون کی خلاف ورزی پر بھرپور قانونی کارروائی ہو گی، دریں اثنا پارلیمنٹ میں ہنگامی اجلاس ہوا، فضل الرحمان کے خطاب کا جائزہ لیا گیا ، وزیراعظم نے اپوزیشن رہنماؤں کی تقریروں پر کور کمیٹی اجلاس طلب کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ آزادی مارچ نے حقیقی سیاسی تلاطم پیدا کر دیا ہے، جمود ٹوٹا ہے، محاذآرائی، کشیدگی اور تصادم کے خدشات جب کہ بریک تھرو کے معدوم امکانات کی اعصاب شکن کشمکش عروج پر ہے، اسلام آباد میں ایک جم غفیر ہے، ملکی سیاست کو غیرمعمولی اور اور فیصلہ کن دورانیہ سے سرخروئی کا چیلنج درپیش ہے، حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں اور بات الٹی میٹم تک آ پہنچی ہے، اس لیے تقاضائے وقت یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین شو ڈاؤن میں جیت جمہوریت، قومی بقا اور سیاستدانوں اور حکمرانوں کی بصیرت اور باوقار مصالحت کی ہونی چاہیے۔

انگریزی کے مشہور مقولے کے مطابق ملکی سیاست اس وقت between the devil and the deep sea یعنی دو مشکل صورتوں سے دوچار ہے، نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، تاہم سیاست اگر امکانات کا کھیل ہے تو کوئی بھی صورتحال ہو سیاست دان ہی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس چیلنجنگ سیناریو سے ملک کو باہر نکال سکتے ہیں اور مفاہمت، مصالحت اور مکالمہ کی مسلمہ جمہوری روایات کو بروئے کار لاتے ہوئے الٹی میٹم کی جگہ ایک قابل عمل اور ملک و قوم کے وقار، ملکی سلامتی اور جمہوریت کی بقا کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخ ساز مفاہمت میں لاثانی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ ان کے سیاسی ظرف کا بھی امتحان ہو گا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا 25 جولائی کے الیکشن فراڈ اور دھاندلی زدہ تھے، انھوں نے کہا یہ قوم آزادی چاہتی ہے، موجودہ حکمرانوں کی نا اہلی کے نتیجے میں معیشت تباہ ہو گئی، جس ریاست کی معیشت بیٹھ جائے وہ ریاست اپنا وجود برقرار نہیں رکھتی ۔ سوویت یونین اس لیے تباہ ہوا تھا کہ اس کی معیشت بیٹھ گئی تھی۔ اس وقت پاکستان میں ڈاکٹرز، اساتذہ ، تاجر سب سراپا احتجاج ہیں ، پاکستان کے نا اہل حکمرانوں کو بھی اب اس کا اعتراف کر تے ہوئے ریاست کی حاکمیت سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کشمیری عوام کو کبھی بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کرنے دینگے ۔ اور کوئی مائی کا لال مستقبل میں پاکستان کی سر زمین پر ناموس رسالتؐ کو چھیڑ نہیں سکے گا، ہمیں مذہب کارڈ استعمال کر نے کا کہا جاتا ہے ، ہم آئین کے مطابق بات کرتے ہیں، پاکستان اور اسلام ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے۔ انھوں نے کہا حکمران میڈیا سے پابندی فوراً اٹھا لیں ، رہبر کمیٹی موجود ہے، مشاورت کے ساتھ تجاویز طے کی جائیں گی۔

جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں، اب عمران خان کی چیخیں نکالنے کا وقت آ گیا ہے، عمران خان جادو ٹونے سے حکومت چلا رہا ہے اور پھونکیں مار کر تعیناتیاں ہو رہی ہیں، عوام کو ڈیڑھ سال میں اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہے کہ نیا پاکستان بہتر تھا یا پرانا پاکستان بہتر تھا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہم سب مل کر کٹھ پتلی اور سلیکٹڈ وزیراعظم کو گھر بھیجیں گے، پیپلز پارٹی کی طرف سے یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہر جمہوری قدم میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہوں گے، انتخابات میں پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر فوج تعینات کر کے اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ، یہ کسی سیاسی جماعت یا عمران خان کی فوج نہیں، پاکستان کی فوج ہے اور ہم اسے غیر متنازع اور غیر سیاسی رکھیں گے۔ میں پوچھنا چاہوں گا کہ اس نئے پاکستان میں یہ کس قسم کی جمہوریت اور آزادی ہے کہ 70 سال گزرنے کے باوجود ہم آج تک صاف اور شفاف انتخاب نہیں کروا سکتے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکریٹری جنرل عبد الغفور حیدری نے کہاہے کہ عمران خان لبنان کے وزیراعظم کی طرح مستعفی ہو جائیں ، نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ آج اٹھارہویں ترمیم کی واپسی اور صدارتی نظام کا سوچا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کی لگائی ہوئی آگ سے بلوچستان متاثر ہو رہا ہے ۔ احتساب کے نام پر انتقام ہو رہا ہے، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پاکستان تمام مذاہب اور مسالک کا ملک ہے، آئین میں طے ہو چکا ہے کہ کس کی حدود کیا ہوں گی۔ مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیاکہ اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات کرائے جائیں ۔ موجودہ حکمران نااہل ہیں ۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے استفسار کیا ہے کہ فضل الرحمان سینئر سیاستدان ہیں، وہ بتا دیں کس ادارے کی بات کر رہے ہیں، ترجمان نے یاد دلایا کہ کہ فوج منتخب حکومت کے ساتھ ہوا کرتی ہے، ملکی امن کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیںدی جائے گی۔ یہ بات بھی شرح صدر کے ساتھ بتا دی گئی کہ ایک سال گزر گیا ہے اپوزیشن اب بھی تحفظات متعلقہ فورم میں لے جا سکتی ہے ، سڑکوں پر الزام تراشی نہیں ہونی چاہیے، فوج غیرجانبدار ہے۔

یہ واضح اور صائب عندیہ ہے جب کہ حکومت اور اپوزیشن کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینے کی مہلت بڑے تصادم کو ٹالنے کے لیے تیر بہدف بھی ثابت ہو سکتی ہے، لہذا اولین کوشش ہونی چاہیے کہ صبروتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ، مصالحت اور صلح جوئی پر مامور قوتیں خیر کے اس کام میں آگے بڑھیں، وزیراعظم تدبر سے کام لیں ۔ مولانا فضل الرحمان اور اپوزیشن کے اکابرین وقت کی نزاکت کو سمجھیں تو سسٹم کو لاحق خطرات کا فوری ادراک کر کے ہی پوری قوم اس امتحان میں سرخرو ہو سکتی ہے۔

 

The post حکومت اور اپوزیشن کے لیے مفاہمت ناگزیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Nd3Q90
via IFTTT

No comments:

Post a Comment