Saturday, November 2, 2019

Tank Carrier ایکسپریس اردو

ایک ہی شہر میں رہنے کے باوجود اس روز مقصود شیخ سے میری ملاقات تین سال کے بعد ہو رہی تھی۔ یہ سطور لکھنے کا شاید میرا ارادہ کبھی نہ ہوتا لیکن ایک شعر کی یاد نے مجھے اس پر مجبور کر دیا کیونکہ شاعر نے یہ شعر مقصود شیخ جیسے لوگوں کو  ذہن میں رکھ کر کہا ہو گا لیکن اگر کسی طرح وہ مقصود شیخ کی زندگی کے حصہ دوم سے بھی واقف ہوتا تو ضرور اس سے بھی اچھا لیکن افسردہ کر دینے والا شعر کہتا۔ اب شعر پڑھئے۔

دوست آں باشد کہ گیرد دست ِ دوست

در پریشاں حالی و درماندگی

مقصودسے میری پہلی ملاقات کالج کے ابتدائی دنوں میں ہوئی ۔ میں نے ہمیشہ اُسے بہترین لباس یا سوٹ پہنے دیکھا۔ وہ اعلیٰ امپورٹڈ بائیسکل پر کالج آتا تو سائیکل اسٹینڈ پر کھڑا ملازم اس کا بائیسکل پکڑ کر ایک مخصوص کونے میں پارک کر کے اُسے تالا لگا کر چابی مقصود شیخ کو پکڑاتا۔ چند پیریڈ گزارنے کے بعد Recess ہوتی تو مقصود اپنے چند ساتھیوں سمیت بشمول میرے ٹک شاپ کا رُخ کرتا جہاں گپ شپ اور چائے ، شامی کباب کی ضیافت کے بعد مقصود شیخ اپنی پتلون کی اگلی چھوٹی پاکٹ میں سے تین تہوں والا پانچ روپے کا نوٹ نکال کر بل کی ادائیگی مع TIP  کے کرتا اور ہم دوبارہ کلاس اٹینڈ کرنے کلاس رومز کی طرف چل پڑتے ۔

بل کی ادائیگی مقصود کے علاوہ کسی اور کو کرنے کی نہ اجازت تھی نہ شاید کوئی دوسرا افورڈ کر سکتا تھا۔ وجہ جو بھی ہو میزبانی شاید مقصود نے اپنے نام لکھ رکھی تھی۔ وہ اعلیٰ سرکاری اور تعلیم یافتہ گھرانے کا فرد تھا۔ لوگوں کی مدد کرنا اور مشکل حالات میں گھِرے لوگوں کو ان میں سے محفوظ نکالنا اس کی فطرت اور اولین ترجیح ہونے کی وجہ سے وہ مجھے اوپر لکھے شعر کی تصویر نظر آتا۔ مالی مدد تو ایک بات وہ ذہنی و معاشرتی مشکل میں گرفتار لوگوں کی بھی دامے درمے قدمے سخنے رہنمائی اور مدد کا Simble دوست احباب اور دیگر افراد کے علم میں اور مشہور تھا۔ خاندان کے افراد اور رشتہ دار اس کی ان خوبیوں کا علم رکھتے تھے اور گھریلو ناچاقی و فساد میں مبتلا لوگوں کی مسیحائی اس کی فطرت میں شامل تھی۔

اس کی ایک کمزوری جسے شوق کہنا مناسب ہو گا ہر کسی کے علم میں ہے۔ کالج کے دنوں میں اعلیٰ امپورٹڈ بائیسکل اور یونیورسٹی تعلیم کے دوران موٹر کار کو اس کی ذات اور زندگی کا جزو لاینفک اور سب سے بڑی کمزوری یا پھر craze  کہا جا سکتا ہے۔ اس کے کار چلانے کے دوران موت کی دہلیز پار کر کے زندہ سلامت نکل آنے کا واقعہ بعد میں تحریر کروں گا، پہلے اس کی انتہائی سوشل اور فیملی و احباب سے فرار کی حیرت انگیز اسٹوری بیان کر دوں کہ اس کے ساتھ چند روز قبل کی تین سال کے وقفے بعد والی ملاقات ابھی تک مجھے ڈپریشن میں مبتلا رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اب میرا خیال ہے کہ اس کا بیان نہ کرنا میری اپنی صحت کے لیے مفید ہو گا لہٰذا اسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھنا ہی بہتر ہو گا۔

موٹر کے شوق کے حوالے سے اس سے بات چیت ہی دلچسپ اور علم میں اضافے کا باعث ہوتی ہے لیکن موٹر کار ہی اس کی چوہدری ظہور الٰہی سے ملاقات اور ان کی شاندار کار ڈرائیو کرنے کا بہانہ بنی۔ مقصود ایک رات پاک ٹی ہائوس سے کافی پی کر پیدل اپنے ہوسٹل جا رہا تھا۔ سڑک سنسان تھی ۔ ایک بڑی سی کار اس کے برابر آئی اور مانوس چہرے والے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص نے مسکراتے ہوئے کہا ’’نوجوان اس وقت تمہیں ٹیکسی بھی نہیں ملے گی ، میں بھی اسی طرف جا رہا ہوں، تمہیں ڈراپ کر سکتا ہوں‘‘۔ مقصود نے شکریہ ادا کر کے کہا، میں نے قریب ہی جانا ہے ، ویسے میرے پاس اپنی کار بھی ہے۔

اس شخص نے کہا، میں نے تو صرف Courtesy  کے لحاظ سے کہا تھا۔ دلچسپ ہو گا اگر میں تمہاری ڈرائیونگ کی مہارت دیکھوں، اس وقت تک مقصود نے چوہدری ظہور الٰہی صاحب کو پہچان لیا تھا۔ اس نے آفر کو ویلکم کیا تو  چوہدری صاحب کا ر سے اُترکر دوسری جانب جا بیٹھے اور شیخ صاحب نے سٹیئرنگ سنبھال لیا۔ چوہدری صاحب نے لمبا رائونڈ لینے کا کہا تو کار فراٹے بھرنے لگی۔ مقصود کی ڈرائیونگ واقعی ایک ماہر کی ڈرائیونگ تھی۔ اس نے پندرہ منٹ کے بعد موٹر ہاسٹل کے قریب کھڑی کی اور شکریہ ادا کر کے اجازت لی۔ یہ مقصود کی چوہدری صاحب سے پہلی اور آخری ملاقات تھی اور اس کا سبب اس کی موٹر کار سے دلچسپی تھا۔

لاہور یونیورسٹی میں طالب علمی کے دنوں کا اہم ترین واقعہ یاد آیا ہے۔ یہ واقعہ سانحے میںتبدیل ہو گیا ہوتا تو یہ سطور لکھنے کی نوبت بھی نہ آئی ہوتی۔ سن 1965 کی پاک و ہند جنگ عروج پر تھی۔ تعلیمی ادارے بند تھے۔ ہاسٹل خالی ہو رہے تھے۔ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے لوگ واپس جا رہے تھے۔ شام ہونے کے بعد میں اور مقصود سیالکوٹ جانے کے لیے تیار ہو گئے۔

رات کے وقت روانگی ہوئی۔ بلیک آئوٹ تھا۔ چاند نہ ہونے کی وجہ سے سنسان سڑک پر مقصود بغیر کار کی ہیڈ لائٹس جلائے تیز اسپیڈ پر جا رہا تھا۔ وہاں کوئی اور ٹریفک بھی نہ تھی۔ ہم چپ تھے ۔ تاریکی تھی اور کار فراٹے بھر رہی تھی۔ اچانک سامنے آواز سنی اور یوں لگا سامنے سے دو کاریں آ کر ہمارے دائیں بائیں سے نکل گئی ہیں۔ مقصود نے اپنیCC  600 مزد ا کار کھڑی کر کے موڑی ۔ چند سیکنڈ کے لیے کار کی لائٹس جلا کر دیکھا اور مجھے کہا کہ ہم زندہ سلامت سامنے سے آنے والے Tank Carrier کے بیچ میں سے گزر گئے ہیں۔

The post Tank Carrier appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2qk0qYJ
via IFTTT

No comments:

Post a Comment