Saturday, June 1, 2019

واٹر کمیشن کی سفارشات اور سندھ حکومت ایکسپریس اردو

ایک طرف دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خلاء میں مستقل رہائش پذیر ہونے کے لیے وہاں انسانی ضروریات ِ زندگی بالخصوص بنیادی سہولیات کی فراہمی پر تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف ہمارا ملک ہے جو بے پناہ مالی وسائل اور ایٹمی قوت کا حامل ہونے کے باوجود آج بھی اپنے شہریوں کے لیے انسانی زندگی کے لیے لازمی بنیادی ضروریات خصوصاً بہتر غذا، صحت مند ماحول اور صاف و شفاف پانی اور صحت و صفائی کی سہولیات کی فراہمی کو ممکن نہیں بناسکا ہے، حالانکہ 1973کے آئین کے مطابق یہ حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔

پھر 2010میں اقوام ِ متحدہ کی جانب سے صاف پانی کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا گیا،تو دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بھی اس قرار داد پر دستخط کرکے عالمی برادری سے بھی یہ وعدہ کیا۔ جس کے تحت یہ اپنے ملک میں عوام کو صاف پانی فراہم کرنے کا پابند ہے ۔ لیکن پھر بھی یہاں کی حکومتیں 46 سال سے ملک کے آئین کی انحرافی اور 9سال سے عالمی وعدے سے انحرافی کی مسلسل مرتکب ہورہی ہیں ۔ پھر صاف پانی تو رہا ایک طرف آج بھی ملک کے نصف حصے میں لوگوں کو پانی سرے سے میسر ہی نہیں ہوسکا ہے ۔ جب کہ دیگر اُمور کی طرح صاف پانی کے معاملے میں بھی سندھ ملک کا سب سے زیادہ متاثر صوبہ ہے ۔

جہاںتھر، نارو، اچھڑو تھر، کوہستان ،کاچھو اور ساحلی علاقوں میں عوام کئی کئی میل دور سے پانی سروں پر یا پھر گدھا گاڑیوں پر لاد کر لانے پر مجبور ہیں ۔ ماضی کے جس دور کو غلامی کا زمانہ کہا جاتا ہے، انگریز کے اُس زمانے میں ایسے کئی شواہد ملتے ہیں کہ جہاں پانی کی قلت تھی وہاںسرکار کی جانب سے ٹرانسپورٹ کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا تھا ، یہاں تک کہ ریلوے نظام کو بھی اس سہولت کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ، ایسی ہی ایک مثال کراچی اور حیدرآباد کے درمیان جنگ شاہی اور جھمپیر کے بیچ میں ایک نہایت ہی چھوٹا سا اسٹیشن ہے ’’براد آباد‘‘، وہاں انگریز نے ایک پانی کا بڑا اور بالائی ٹینک بنوایا اور پھر وہاں ہفتے میں دو مرتبہ مال گاڑی کے ذریعے کوٹری یا کراچی سے پانی لاکر ٹینک بھرا جاتا تھا۔

اور یوں اِس پہاڑی بیابان میں بسنے والے قریب و جوار کے لوگوں کو پانی فراہم کیا جاتا رہا ۔ جوکہ قیام ِ پاکستان کے کافی عرصہ بعد تک بھی یہ سلسلہ جاری رہا ، لیکن بعد میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ سروس ختم کردی گئی ۔پھر ماضی قریب تک میں کھیر تھر پہاڑی سلسلے کے دامن میں موجود ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل’’ منچھر ‘‘دادو سے حیدرآباد تک صاف و میٹھے پانی کی فراہمی کا اہم ذریعہ تھا ۔ لیکن 1990کی بات ہے جب ملک کے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے ملک کے بالائی حصوں کا نکاسی ِ آب اور کارخانوں کا زہریلا پانی آربی او ڈی منصوبے کی آڑ میں اس جھیل میں چھوڑا ۔ تب سے اب تک نہ یہ اسکیم پوری کی گئی اور نہ ہی اس جھیل کو زہریلا بنانے کا یہ عمل بند ہوا۔

حالانکہ سندھ کے عوام اس ظلم پر مسلسل صدائے احتجاج بلند کرتے رہے ہیں ، لیکن صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت دونوں کی دونوں ہی بہری بنی ہوئی ہیں ۔ پھر دوسری جانب ملک میں کرپشن کی شرح کا بلندیوں کی طرف سفر بھی 90کے ہی عشرے سے ہی تیز ہوتا نظر آتا ہے ۔ تعلیمی اداروں سے اسپتالوں تک ادارے قومی تعمیر کا حصہ بننے کے بجائے قومی تباہی میں حصے دار بنے ہوئے ہیں ۔

سندھ میں ماحولیاتی تباہی ، صحت و تعلیم اور پبلک ہیلتھ کی سہولیات کی عدم دستیابی اور انفرااسٹرکچر کی ابتر حالت پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ عوام کی داد رسی نہ ہونے کی ایک مثال بدین کے عوام ہیں جو گذشتہ ڈیڑھ برس سے پانی کی عدم فراہمی اور مصنوعی بندش کے خلاف مسلسل احتجاج کررہے ہیں لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

آج صورتحال یہ ہے کہ صوبہ بیماریوں اور گندگی کی لپیٹ میں ہے ۔ کالرا ، گیسٹرو ، ملیریا ، ڈینگی ، ہیپاٹائٹس اور HIVایڈز جیسی بیماریاں اپنے پر کھولے صوبہ کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں ۔جب کہ مصنوعی غذائی قلت کا بھی عروج ہے ، جس سے گذشتہ کئی سال سے روزانہ کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر بچوں کے جاں بحق ہونے کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ جس کا تاحال کوئی تدارک یا سرکاری تدارکی پالیسی نظر نہیں آتی ۔ ایسے میں ’’اللہ بھلا کرے ‘‘ ایک سماج سدھاروکیل جس نے عدالت عظمیٰ میں انسانی ضروریات ِ زندگی کی صوبہ میں ابتر صورتحال پر ایک پٹیشن دائر کی ، جس پر ابتداء میں عدالت نے چھوٹے پیمانے پر علاقائی سطح پر تدارکی احکامات جاری کیے لیکن دوران ِ سماعت اور تفتیش پر یہ بات سامنے آئی کہ صوبہ بھر میں انتہائی بری حالت ہے ۔

اسی بات کے پیش نظر عدالت نے وسیع پیمانے پرصوبہ میں ضروریات زندگی بالخصوص صحت کی سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے اور صورتحال کو مانیٹر کرنے کے لیے جسٹس ریٹائرڈ امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سندھ پانی کمیشن قائم کیا ۔ جو مختلف علاقوں کے دوروں کے دوران عارضی حل کے لیے احکامات بھی صادر کرتے رہے اور اُن مسائل کے مستقل حل کے لیے سفارشات بھی تیار کرتے رہے ۔

کمیشن نے شہروں میں واٹر سپلائی کی صورتحال اور نکاسی ِ آب اور اس میں ہونے والی باقاعدگیوں پر متعدد بار برہمی کا اظہار کیا اور ذمے دار عملداروں سے سختی برتی ۔ جب کہ صوبہ میں موجود انڈسٹریل اداروں کی جانب سے بغیر ٹریٹمنٹ کے فضلہ کے اخراج کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیے کئی چھاپہ مارکارروائیاں بھی کیں۔ صوبہ میں فلٹر پلانٹس کی فعالی کو یقینی بنانے ، فیکٹری مالکان کو سیپٹک پلانٹ نصب کرنے کے احکامات جاری کیے ، اور پھر مسلسل مانیٹرنگ بھی کرتے رہے ۔

ابتدائی دنوں میں صوبائی حکومت کی جانب سے واٹر کمیشن کے ساتھ عدم تعاون کی باتیں بھی گردش میں رہیں ، لیکن کمیشن کے اختیارات اور جسٹس امیر ہانی مسلم کی مخلصانہ کارروائیوں اور شہاب اوستو کی مقدمے کی ثابت قدمی سے پیروی نے بالآخر ضلعی و صوبائی انتظامی مشنری سمیت وفاقی اداروں کو بھی کمیشن سے تعاون اور اُس کے احکامات پر عمل درآمد پر مجبور کردیا ۔

حال ہی میں واٹر کمیشن نے گذشتہ ہفتے اپنی حتمی سفارشات جاری کی ہیں ۔ ان سفارشات کی روشنی میں حکومت کو مشورہ دیا گیاہے کہ ان پر عمل کرنے سے صوبہ کے تقریباً انتظامی و عوامی بنیادی مسائل مستقل طور پر حل ہونے کی اُمید ہے ۔لیکن اصل بات ان سفارشات پر عمل پیرا ہونے کی ہے ۔ جن پر اگر من و عن سے عمل کیا گیا تو پھر کوئی شک نہیں کہ آیندہ کچھ سالوں میں 50سالہ پرانا صحت مند اور صاف ستھرا سندھ والا ماضی لوٹ آئے ، بلکہ انتظامی و اداراتی بہتری سے صوبہ میں ترقی و تعمیر اور عوامی معیار زندگی کی نئی جہتیں کامیاب ہوتی نظر آجائیں ۔ کمیشن کی اہم سفارشات کچھ اس طرح ہیں : صوبہ میں واٹر سپلائی ، ڈرینیج کی 539اسکیموں اور فلٹر پلانٹس کی اسکیموں کو 2019تک مکمل کیا جائے ۔

4ہزار اسکولوں میں فلٹر پلانٹس لگائے جائیں ۔180مختلف مقامات سے گندہ پانی دریا ء ، کینالوں اور جھیلوں و دیگر فریش پانی وسائل میں ڈالا جارہا ہے ۔ اُن کی روک تھام کی جائے اور ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جائیں ۔ سندھ انوائرنمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کا دائرہ کار صوبہ بھر میں بڑھایا جائے ۔ کے فور پروجیکٹ سے متعلق مسائل کو جلد حل کیا جائے ۔ ماحولیاتی لیباریٹریز قائم کیجائیں اور شہروں میں ہوا کے معیار کو جانچنے کا نظام قائم کیا جائے ۔ صوبہ میں درختوں کی کم یابی بھی ایک مسئلہ ہے ، اس لیے بڑے پیمانے پر ماحول دوست مقامی درختوں کی شجرکاری کی جائے ۔

ڈی ایچ اے اور حکومت کو گندہ پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں نہ چھوڑنے کی ہدایت۔ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے انجینئرز کی فنی اہلیت و استعداد بڑھائی جائے ۔ ضلعی سطح پر مینٹیننس کمیٹیز قائم کی جائیں ، جو منصوبوں کی نگرانی کریں ۔ کراچی ، حیدرآباد اور سکھر کے سائٹ کے علاقوں میں کمبائنڈ افلیوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جائیں ۔ صوبہ میں کلائمنٹ چینج سیل ، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ونگ اور لاء انفورسمنٹ سیل قائم کیے جائیں ۔ سرکاری مانیٹرنگ کا نظام بہتر کیا جائے ۔ جب کہ منچھر کی صفائی کرکے اُس میں دادو کینال سے میٹھا پانی چھوڑا جائے ۔

اسی طرح ایم این وی ڈرین میں بھی میٹھا پانی چھوڑا جائے ۔ صوبہ میں زیر زمین پانی سے متعلق مضبوط سروے کرایا جائے اور اُس کے استعمال کے لیے قواعد و ضوابط مقرر کیے جائیں ۔ جب کہ واٹر کمیشن کی جانب سے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے سیکریٹری تمیز الدین کھوڑو جیسے بیوروکریٹس کو کسی بھی عوامی بنیادی حقوق سے وابستہ محکموں میں پوسٹنگ نہ دینے کی بھی سفارش کی گئی ہے ۔

دیکھا جائے تو کمیشن نے اپنا کام بھرپور طریقے سے سرانجام دیا ہے ۔ اب اصل کام ان سفارشات پر عمل پیر ا ہونا ہے ، جوکہ ضلعی ، صوبائی اور وفاقی انتظامیہ کی مشترکہ ذمے داری بتائی گئی ہے ۔ لیکن بنیادی طور پر یہ اُمور صوبائی حکومت کی ذمے داری ہیں ، اس لیے صوبائی حکومت کو چاہیے کہ عدالتی معاونت والے اس موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھائے ۔یہ نہ صرف صوبہ کے عوام کے معیار ِ زندگی میں اضافے کا باعث ہوگا بلکہ پی پی پی کی سندھ حکومت کو اپنے ووٹرز کے سامنے گردن اونچی کرنے کا جواز بھی فراہم کرے گا۔

دیکھا جائے تودیگر ممالک پانی کے دنیا میں محدودہوتے وسائل پر کتنے سنجیدہ ہیں کہ وہ جب خلا ء میں مسلسل رہنے والی تجرباتی خلائی اسٹیشن تک میں پانی کو ٹریٹ کرکے دوبارہ استعمال کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ایسے میں ہمارے لیے لمحہ فکر یہ بھی ہے کہ دیگر دنیاکی طرح یہاں بڑے پیمانے پر موجود نکاسی ِ آب بلکہ سمندر کے پانی کو کیوں ری سائیکل کرنے پر توجہ نہیں دی جارہی ۔ حالانکہ دبئی اور سعودیہ جیسے ممالک بھی توسمندر کے پانی کو ری سائیکل کرکے استعمال کررہے ہیں ۔۔!

The post واٹر کمیشن کی سفارشات اور سندھ حکومت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2QCGhGJ
via IFTTT

No comments:

Post a Comment