دنیا کی معلوم تاریخ میں دانشوروں کا کردار دنیا کے لیے نظریاتی رہنمائی کا رہا ہے خاص طور پر جب دنیا سنگین مسائل سے دوچار ہو تو دانشور، مفکر اور اہل علم دنیا کو مسائل سے نکالنے کے لیے رہنمایانہ کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں دنیا جن سنگین مسائل سے دوچار ہے ان میں جنگوں کے خطرات، خطرناک ہتھیاروں کی تیاری، معاشی بحران، طبقاتی استحصال ایسے مسائل ہیں جن کے حل کے لیے دانشورانہ رہنمائی کی ضرورت ہے۔
آج دنیا کے مختلف حصوں میں جنگوں کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ دنیا معاشی مسائل میں گھری ہوئی ہے، برسوں بلکہ عشروں سے معاشی تنگدستی کی وجہ ہر سال لاکھوں انسان بھوک سے مر جاتے ہیں، لاکھوں انسان علاج سے محرومی کی وجہ موت کا شکار ہو جاتے ہیں، لاکھوں انسان وبائی بیماریوں کی وجہ فوت ہو جاتے ہیں، لاکھوں بچے دودھ اور مناسب غذا کی کمی کی وجہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لاکھوں حاملہ عورتیں ناقص غذا اور علاج معالجے کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ لاکھوں انسان جنگوں کا ایندھن بن جاتے ہیں اور لاکھوں انسان بے روزگاری کی نظر ہو جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام اموات کی خبریں میڈیا میں رپورٹ ہوتی ہیں جو یقینا اہل دانش اہل علم اور مفکرین کی نظروں سے گزرتی ہوں گی کیا اہل دانش اہل علم اہل فکر ان کا نوٹس لے کر ان سنگین مسائل کو حل کرنے کے لیے نظریاتی رہنمائی فرما رہے ہیں؟ ان مسائل کا تعلق کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ یہ شرمناک مسائل عالمی سطح پر موجود ہیں لیکن کیا ان کا نوٹس دانشور طبقہ لے رہا ہے، کیا ان انسان کش مسائل کے حل کے لیے اہل علم اہل دانش فکری رہنمائی کر رہے ہیں؟ یہ دنیا کے 7 ارب انسانوں کے ایسے مسائل ہیں جن کو سیاستدان حل نہیں کر سکتے کیونکہ یہ سارے مسائل سیاسی حکمرانوں ہی کے پیدا کردہ ہیں۔
آج اپنے اردگرد نظر ڈالیں یا تو جنگیں ہوتی ہوئی نظر آئیں گی یا جنگوں کے خطرات منڈلاتے ہوئے نظر آئیں گے، آج ہی کے اخباروں میں یہ خطرناک خبر لگی ہے کہ خلیج اومان میں دو امریکی بحری جہازوں کو تباہ کر دیا گیا جو متحدہ عرب امارات سے تیل لے کر سنگاپور جا رہے تھے۔ ایران کے خلاف امریکا کی سخت اقتصادی پابندیوں کی وجہ ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان یا امریکا کے درمیان کشیدگی ختم نہیں ہوئی۔ کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کا قتل جاری ہے۔ فلسطین 70 سال سے آگ اور خون میں لپٹا ہوا ہے۔
عرب اور ایران کے درمیان بے اعتمادی بڑھتی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کے مراکز افغانستان پاکستان عراق اور یمن وغیرہ میں بے گناہ انسانوں کا عشروں سے خون بہا جا رہا ہے۔ عرب ممالک اربوں کھربوں ڈالر کا اسلحہ امریکا اور اس کے اتحادیوں سے خرید رہے ہیں، افغانستان میں ایک چیک پوسٹ پر خودکش حملے میں 10 افراد ہلاک 12 زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں انسانوں کے قتل عام کی ایک جھلک ہے۔ ابھی پچھلے دنوں امریکا میں ایک جنونی نے جو ملازمت سے برطرفی پر مشتعل تھا 23 بے گناہ انسانوں کو قتل کر دیا۔
یہ ہے آج کی ترقی یافتہ مہذب دنیا کا ایک سرسری جائزہ افریقہ میں دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ انسان خطہ ارض پر کہیں محفوظ نہیں ہر جگہ خوف اور دہشت میں زندگی گزار رہا ہے۔ بھارت ایک سیکولر ملک تھا لیکن بی جے پی کی حکومت نے بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں جس کے بعد بھارت کی اقلیتیں جن میں 24 کروڑ مسلمان بھی شامل ہیں انتہا پسند ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر ہوں گے اور خدا جانے آنے والے دنوں میں ہندوتوا کیا کیا ستم ڈھائے گا؟
دنیا بھر میں گرین گیسوں کا اخراج اس خطرناک حد کو چھو رہا ہے کہ کرہ ارض پر انسان کی بقا کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ ماہرین ارض کا خیال ہے کہ اگر گرین گیسوں کے بے پناہ اخراج کو نہ روکا گیا تو درجہ حرارت میں اتنا زیادہ اضافہ ہو جائے گا کہ بائیسویں صدی کے آغاز تک ساحل سمندر سے متصل ملک سمندر برد ہو جائیں گے۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ 5 کروڑ انسان گرین گیسوں کا شکار ہو جائیں گے۔ دنیا ہٹلر کے فاشزم سے خوفزدہ تھی اہل سیاست حکمران طبقات منڈیوں پر قبضے کی لڑائیوں میں مصروف تھے۔ دوسری عالمی جنگ کا خطرہ دنیا کے سر پر منڈلا رہا تھا۔ دنیا سخت خوف و ہراس میں مبتلا تھی۔
ایسے پرآشوب ماحول کو دیکھ کر دنیا بھر کے ادیب اور دانشور 1933میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں جمع ہوئے اور گزرے ہوئے خون خرابے اور دوسری عالمی جنگ کے خطرے کے خلاف مشترکہ آواز اٹھائی۔ 1933میں پیرس کانفرنس کے شرکا ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے حکمرانوں کو خبردار کیا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے خطرات دنیا کے سر پر منڈلا رہے ہیں اس سے بچنے کی کوشش کی جائے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے پروردہ حکمران طبقات نے ان مفکرین کے انتباہ کو نظرانداز کر دیا یوں دنیا دوسری عالمی جنگ کی زد میں آ گئی اور لاکھوں انسان دوسری عالمی جنگ کی نظر ہو گئے۔
ایک طرف دنیا کو ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہے دوسری طرف جنگوں کے خطرات دنیا کے سر پر منڈلا رہے ہیں تو طبقاتی استحصال سے 7 ارب انسان تباہی کا شکار ہیں۔ اس کا مداوا دنیا کا حکمران طبقہ نہیں کر سکتا۔ 1933 کی پیرس کانفرنس کی طرز پر دنیا کے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں کو ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے جو جنگوں اور طبقاتی استحصال کے خلاف آواز بلند کرے۔
The post دنیا کے سنگین مسائل اور دانشور appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2ZDnkqG
via IFTTT
No comments:
Post a Comment