سندھ حکومت پر کراچی دشمنی اورکراچی کو نظرانداز کرکے اس کا حق نہ دینے کے الزامات ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے متواتر لگتے ہیں ، جن کی سندھ حکومت کی طرف سے تردید کی جاتی ہے اور کراچی کو اہمیت دینے اور ترقیاتی کام کرائے جانے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت جو ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے پاس تین تین بار رہی اور اب پہلی بار تحریک انصاف کے پاس ہے۔
تحریک انصاف کو کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہلی بار جوکامیابی کے دعوے کیے گئے ان کی حقیقت کراچی والے بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور ایم کیو ایم آئے دن واویلا کرتی آرہی ہے کہ ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا اور منصوبے کے تحت ایم کیو ایم کی نشستوں پر پی ٹی آئی کو کامیابی دلائی گئی جب کہ ماضی میں ایم کیو ایم کی مخالف جماعتیں خود ایم کیو ایم پر دوسروں کا مینڈیٹ چرانے کا الزام لگاتی رہی ہیں جسے ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کی طرح تسلیم نہیں کیا۔ ایم کیو ایم کو کراچی میں مقبولیت حاصل ضرور تھی مگر ایسا نہیں تھا کہ ایم کیو ایم کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی تھی جو دنیا کو دکھانے کے لیے دعوے کرتی تھی کہ اسے پہلے سے زیادہ ووٹ اور کھالیں ملیں مگر وہ کیسے ملیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
کراچی میں اپنی مقبولیت برقرار اور بڑھتی دکھانے کے لیے ایم کیو ایم بہت کچھ کرتی تھی مگر وہ متحدہ قومی موومنٹ کی صورت میں کرتی تھی جس میں حقیقی کے بعد پی ایس پی نکالی گئی اور قائد تحریک سے علیحدگی کے بعد جو بچی وہ یہ ایم کیو ایم پاکستان ہے جو گزشتہ الیکشن میں نہ دھاندلی رکوا سکی اور اپنا مینڈیٹ گنوا بیٹھی۔ پہلے ایم کیو ایم کراچی کی واحد نمایندہ جماعت کہلاتی تھی اور پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر آتی تھی مگر اب ایم کیو ایم دوسرے اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر ہے اور کراچی کی سب سے زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کے پاس ہیں۔
یہ الگ بات کہ کیسے ہیں مگر بے بس ایم کیو ایم تسلیم کرچکی ہے کہ انھیں دھاندلی سے ہروایا گیا اور اس کی مجبوری یہ ہے کہ جو پی ٹی آئی، ایم کیو ایم کی جگہ لائی گئی ہے اس پر ایم کیو ایم اپنا مینڈیٹ چرانے کا الزام بھی لگاتی ہے اور اپنی مجبوری میں دو وفاقی وزارتوں کی خاطر تحریک انصاف کی وفاقی حکومت میں بھی شامل ہے۔
پیپلز پارٹی کی خود اپنی پالیسی کے باعث کبھی کراچی کے شہری علاقوں میں مقبولیت نہیں رہی اور پیپلز پارٹی اسی ناانصافی اور کوٹہ سسٹم کے باعث ایم کیو ایم کی مقبولیت کی وجہ بنی اور کراچی کے دیہی علاقوں تک محدود چلی آرہی ہے اور پیپلز پارٹی نے کوٹہ سسٹم نافذ کرکے جس طرح سندھ کو دیہی اور شہری حلقوں میں تقسیم کیا تھا وہ پارٹی بھٹو صاحب کی تھی اور زرداری صاحب کی پیپلزپارٹی نے عملی طور پرکراچی کو بھی شہری علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کراچی دیہی میں سندھ حکومت نے یونین کونسلیں اور شہری کراچی میں یونین کمیٹیاں قائم کرکے کراچی کو عملی طور پر دیہی اور شہری میں تقسیم کردیا تھا اور یہ تفریق نمایاں ہے اور پیپلز پارٹی دیہی کراچی پر زیادہ مہربان ہے۔ ضلع ملیرکی ڈی ایم سی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔
جس کی سربراہی پی پی پی کے پاس ہے اور لیاری کے باعث ڈی ایم سی ساؤتھ کی چیئرمین شپ بھی پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔کراچی میں صرف ڈی ایم سی ویسٹ میں وائس چیئرمین کا عہدہ پی ٹی آئی کے پاس ہے اور وہ بھی ایم کیو ایم کے باعث ہے۔
بلدیہ عظمیٰ اور ڈی ایم سیز کی طرح سندھ حکومت نے اپنے بلدیاتی نظام میں کراچی کی بلدیہ عظمیٰ جو ملک کی سب سے بڑی بلدیہ ہونے کے باوجود لاہور کی طرح میٹرو پولیٹن نہیں کہلاتی اور صرف بلدیہ عظمیٰ کہلاتی ہے کی طرح اس کی یونین کمیٹیاں بھی اختیارات سے محروم اور بے مقصد بنائی گئی ہیں جن کی چار سال کی کارکردگی انتہائی ناقص اور برائے نام ہیں۔ ان یوسیز کو پہلے دو لاکھ روپے ماہانہ دیے جاتے تھے جب کہ جنرل پرویز کے 11 سال قبل تک برقرار رہنے والے ضلع نظام میں بھی ہر یوسی کو صرف دو لاکھ روپے ماہانہ ملتے تھے تو ان یوسیز نے بہترین کارکردگی دکھائی تھی جب کہ موجودہ تین سو سے زائد ان یونین کمیٹیوں میں کسی ایک بھی یوسی کی کارکردگی مثالی یا قابل تعریف نہیں ہے۔
موجودہ یوسیزکو اب پانچ لاکھ روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ شہر میں بہت سی یوسیز کے پاس اپنے دفاتر تک نہیں ہیں اور وہ کرائے کی جگہوں میں اپنے دفاتر بناکر کام کر رہی ہیں۔ ضلع حکومت میں یوسیز بااختیار تھیں جن کے ناظمین کو مالی اور انتظامی اختیارات حاصل تھے اور سٹی حکومت اور ٹاؤن کونسلوں کی انھیں مکمل حمایت اور مدد حاصل تھی۔ موجودہ بلدیاتی نظام میں کراچی میں صرف 6 ڈی ایم سیز ہیں جب کہ سٹی حکومت میں کراچی میں 18 ٹاؤن کونسلیں تھیں جن میں بعض بہت بڑے علاقے پر مشتمل تھیں جب کہ اس وقت بھی زیادہ ٹاؤنزکی ضرورت تھی مگر سندھ حکومت نے ملک کے سب سے بڑے شہر میں صرف چھ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنیں اور ایک ضلع کونسل ہیں۔
کراچی کے ساتھ پی پی حکومت کے تعصب کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حیدرآباد، سکھر اور نوابشاہ کی میونسپل کارپوریشنوں کے سربراہ میئر کہلاتے ہیں مگر کراچی کی 6 میونسپل کارپوریشنوں کے سربراہ چیئرمین قرار دیے گئے ہیں۔ لاہور کا میئر لارڈ میئر اور کراچی کا میئر صرف میئر ہی کہلاتا ہے جس کے اختیارات بھی محدود ہیں۔پنجاب کی بڑی میونسپل کارپوریشنوں میں ڈپٹی میئروں کی تعداد تین سے نو تک تھی جب کہ سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کراچی میں صرف ایک ڈپٹی میئر کا عہدہ ہے۔بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ایم کیو ایم کی اکثریت کے باعث ہی اس کا میئر ہے اور تمام یونین کمیٹیوں کے چیئرمین بلدیہ عظمیٰ کی کونسل کے رکن ہیں۔
اجلاس کی صدارت ضلع نظام میں ڈپٹی میئر کرتا تھا مگر اب میئر کراچی کرتا ہے۔ کراچی کی اکثر یوسیز کے چیئرمین کارکردگی دکھانے میں مکمل ناکام اور مال بنانے میں کامیاب کہے جاسکتے ہیں جو 5 لاکھ ماہانہ محض تنخواہوں اور دفتری اخراجات پر لٹا دیتے ہیں جب کہ دو لاکھ ماہانہ ملنے والی یوسیز کے ناظموں نے پارک اور چڑیا گھر بنائے تھے جب کہ موجودہ چیئرمینوں کے پاس تو صفائی کرانے، فراہمی نکاسی آب کا بھی اختیار نہیں ہے۔
سٹی حکومت کی جمشید ٹاؤن کی یوسی 13 کے ناظم رمضان ناتھا نے عہدہ مکمل ہونے پر 54 لاکھ روپے کی رقم واپس کی تھی اور اب اسی یوسی 17 نے لاکھوں روپے لے کرکوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔ اسی یوسی کے جنرل کونسلر سمیر قریشی اور ناتھا پینل کے ارکان اپنی جیبوں سے لاکھوں روپے لگا کر اسٹریٹ لائٹس اور گٹروں پر ڈھکن لگوا چکے ہیں مگر موجودہ یوسی نے کچھ نہیں کیا اور یہی حال شہر کی باقی یوسیزکا ہے جن کی کارکردگی کم اورکرپشن زیادہ ہے اور ان کا وجود ہی بے مقصد رہا ہے۔
The post بے مقصد یونین کمیٹیاں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2IubGs8
via IFTTT
No comments:
Post a Comment