Monday, June 3, 2019

’ بختیار اور آزاد ‘ کے ’ بے اختیار عوام ‘ ایکسپریس اردو

میں ملک میں جاری ابتر معاشی صورت حال پر لیاری کے جمہوریت پسند وعوامی حقوق کی جنگ میں سرگرداں’’ رحیم بخش آزاد‘‘ پرگریہ کروں یا صحافت کی آبرو اور اس کی آزادی کی خاطر نظریے سے بالا تر’’ادریس بختیار‘‘ کی موت کا ماتم کروں۔ ذہن ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہے کہ’ رحیم آزاد ‘بھی عوام کی سیاسی آزادی کا متوالا تھا اور ’ ادریس بختیار‘ بھی صحافت کے پابہ زنجیر ہونے کے خلاف ہمیشہ اپنے انداز سے مزاحمتی کردار رہا۔

اب ان آزادی کے متوالوں کوکیا معلوم کہ آج کل ملک میں ہر سو معاشی بد حالی اور موجودہ حکومت کی آئی ایم ایف کے زیر اثر ، غربت افلاس اور دو وقت کی روٹی کی مشکلات میں اضافے کے ساتھ جمہوری آزادی کے حقوق کے جدال والے مناظر عام ہیں ، جس میں عام فرد کے لیے زندگی گذارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ، دوسری جانب آئی ایم ایف کی ہدایات پر چلنے والی عوام کی مشکلات سے بے خبرحکومت کی بے ہنگم اور بے سمت معاشی پالیسی آئے دن پٹرول اور ڈیزل کی ہوش ربا قیمتوں کے اضافے کا باعث بنی ہوئی ہے۔

اسی دوران سیاسی میدان میں اپوزیشن عوام کے حقوق سمیت صوبوں کے آئینی حقوق کی پامالی پر مسلسل سراپا احتجاج نظر آتی ہے، ایسی صورتحال میں جب سندھ کے شہری اور دیہی عوام سے ان کے جینے کی طبی امید فراہم کرنے والے تین اسپتال پر بھی وفاق کے آمرانہ اقدامات کی تلوار لٹکی ہوئی ہو تو ایسے میں سندھ کے عوام سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر کے اس فیصلے کی جانب ہی دیکھیں گے ، جس میں جسٹس مقبول باقر نے واضح طور پر لکھا کہ ’’ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق اور صوبوں کا آئینی حق کسی طور سلب نہیں کیا جا سکتا، حتیٰ کہ وفاق صوبوں کا یہ حق حالت جنگ اور بیرونی حملے کی صورت کے علاوہ ملک میں جاری افراتفری کی حالت میں بھی نہیں لے سکتا، بلکہ ملک میں لگائی جانے والی ایمرجنسی بھی صوبوں کے اختیارات کو نہیں ختم کر سکتی،چہ جائیکہ کہ تمام صوبائی اسمبلیاں اور پا رلیمان اپنے مشترکہ اجلاس میں کوئی حق دیں ۔‘‘

جب آئین اور قانوں کو سر بازار ایسے رسوا کیا جائے گا تو پھر میری ’ڈھارس‘ میرے لیاری کے جمہوریت پسند دوست ہی رہ جاتے ہیں، جن میں ’رحیم بخش آزاد‘ ایسا دانشمند اور سروں کی داستان گوئی میں مگن’ استاد نذر ‘کے ساتھ لیاری کے وہ پر امن نوجوان ہیں، جنہوں نے لیاری میں قتل وغارت گری کے دوران بھی سر تال اور راگ ساز سے اپنا رشتہ نہیں توڑا، لیاری کے یہ تازہ ذہن اور زندگی کو اپنے رنگ میں گذارنے والے مست و ملنگ آج بھی میرے کراچی کی قدیم تہذیب کی وہ نشانیاں ہیں،جن میں مجھے ہر جا ’رحیم بخش آزاد‘ نظر آتا ہے، اس کا بے پرواہ انداز اور بلا کی ذہانت والا چہرہ اس وقت بھی میری نظروں میں گھوم رہا تھا جب سنگولین کی تنگ و تاریک گلیاں بڑی شان سے اپنا سینہ چوڑا کر کے ’رحیم بخش آزاد‘ کے جنازے کو آخری منزل تک پہنچانے کے لیے کشادہ تھیں۔لیاری نے اس شہرکو لال بخش رند ، ن ۔م دانش ، صبا دشتیاری ، نور محمد شیخ، نادر شاہ عادل اور سیاست و ادب کے افق پر بے شمار افراد دیے، جنہوں نے امن ، سکھ ، موسیقی اور مل کے بیٹھنے کی ایسی بیٹھکیں بنائی کہ آج بھی لیاری میں ہر رنگ کی’ بیٹھک‘ اپنا الگ مزاج رکھے ہوئے ہے۔

لیاری کے آزاد منش جمہوری متوالوں کے’’سر تال اور لے‘‘ کا یہ سفر ’’راج کرے سردار‘‘ سے شروع ہوتا ہوا ’’چوکین بلوچانی‘‘ کے ساز راگ کے ساتھ آج بھی بلوچی موسیقی کے سازندوں کے ساتھ ’بچے رو رو‘ کے سر کے ساتھ جاری ہے کہ لیاری کی سرشت میں ’رحیم بخش آزاد‘ کی فکر تدبر اور حوصلہ شامل ہے ،جو مات ہونے کے لیے نہیں۔

ایسا ہی کچھ میرے صحافتی اقدار اور اس کی آزادی خاطر ’ ادریس بختیار‘ کاخاموش مگر پر احتجاج وہ راجستھانی کردارہے جو صحافت کی خود مختاری کا نشان بن چکا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ راجستھان کی ریتلی سرمئی شام یا صبح کی پہلی ’پو‘ پھوٹتی کرن کا آغاز راجستھانی افراد اب تک کیوں راگ ساز اور سر سے کرتے ہیں ۔کبیر داس ، سر داس ، تلسی داس اور میرا بائی کی سارنگی، مرلی، سرنائی اور جھنجوڑ راگ کی اس سرزمین کو، غم میں رودالی کی دلسوز آواز اور خوشی میں راجستھانی کھڑے سرکے’ انتر‘ ان کو اتنا موم کیوں کردیا کرتے ہیں کہ وہ ہر جگہ عوام کے’ امن ساتھاری‘ بن کر ان کے دکھ سکھ اور حق کی آوازبن جاتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ یہ جذبہ راجستھانی ’سرماتا ‘کی وہ دین ہے جو کبھی میرا بائی ، مائی بھاگی توکبھی مہدی حسن کے سروں کا الاپ بنتی ہے۔ میں بھلا راجستھان کی ماتا کے سپوت جام ساقی اور سہیل سانگی کے عوامی حقوق کی ان قربانیوں کو کیسے فراموش کردوں جو انھوں نے راجستھانی شعور تحت عوامی مانگ خاطر بنا کسی خوف اور ڈر کے دیں۔عجیب امن پرور اور جمہوری سوچ کی ’راجستھانی مٹی‘ ہے کہ جب اس میں ’ادریس بختیار‘ ایسا جنم لیتا ہے تو وہ بھی نظریئے سے بلند ہوکر انسانی حق اور ان کے جمہوری استحکام کا نمایندہ صحافی ہونا پسند کرتا ہے۔

راجستھان کی رودالی کا غم ہو یا مائی بھاگی کا ’کھڑی نیمب کا ہیکلی‘ یا مہدی حسن کے ’گلوں میں رنگ بھرے‘ کامدھر ساز گیت۔ایسا ہی جام ساقی اور سہیل سانگی کی عوامی جدوجہد واسطے قید و بند کی صعوبتیں جن کے راستوں کو آسان کرنے میں راجستھانی سر اور تال ہمیشہ تازہ ہوا کا جھونکا بنے۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ راجستھانی شعورکا سپوت’ادریس بختیار‘ اپنی ’راجوڑ مٹی‘ کے امن پرور راگ ساز اور سرکو بھول جاتا اور اپنے صحافتی قلم سے طاغوتی قوتوں کا ساتھاری بن جاتا ، نا ممکن تھا باشعور اور انسانی حق کے سر بکھیرتی راجستھانی ‘ ادریس بختیارکے لیے یہ سب کچھ، شاید یہی وجہ ہو کہ ادریس بختیار کے خاندان نے دریائے سندھ کنارے ’کوٹری‘ شہر کو اپنا مسکن بنایا۔اس تمام صورتحال میں راجستھانی سپوت ’ادریس بختیار‘ واسطے لازمی تھا کہ وہ اپنے راجستھانی شعورکی لاج رکھے۔

لہذا اس نے علمی شعورکو جب ’صحافت‘میں مشق کیا تو اس کی غیر جانبدار رپورٹنگ پر زمانہ اسے جاننے پر مجبور ہوا۔ یہی وہ راجستھانی عوامی حق کا جذبہ ہے جس کی تقلید اب ’ادریس بختیار‘کے نظریتی دم بھرنے والے ساتھاری بھی نہیں کر پا رہے۔ میرے راجستھانی سپوت ’ادریس بختیار‘ نے صحافت میں مفاد پرست رویے کی ہمیشہ مخالفت کی جو بد قسمتی سے اب ’صحافت‘ میں در آیا ہے، یہی وجہ رہی کہ ’ادریس‘ نے آخر تک اپنے راجستھانی سروں کے مان اور انسانی حق کو بلند رکھا کہ وہ کسی طور راجستھانی مٹی کا آزادی پسند کردار دھندلا نہیں کرنا چاہتا تھا۔’ادریس بختیار‘ بے روزگاری میں جرات کا وہ نشان بنا جس نے حکمرانوں کی راجدھانی اسلام آباد میں یہ کہنے تک سے گریز نہ کیا کہ ادارے جھوٹ نہ بولیں، یہ ادریس بختیار کی وہ ’راجستھانی‘ جرات کا ریکارڈڈ بیان ہے جس پر اہل صحافت اور راجستھان کو فخر ہے۔

The post ’ بختیار اور آزاد ‘ کے ’ بے اختیار عوام ‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2ELnBzN
via IFTTT

No comments:

Post a Comment