ایک وقت آئے گا جب پاکستان دنیا کا ناخواندہ ترین ملک بن جائے گا؟ ایسا اُس وقت ہوگا جب ہماری شرح خواندگی مزید 5 فیصد کم ہوجائے گی!دنیا اس ملک کے ساتھ افریقہ کے پسماندہ ممالک کی طرح سلوک کرے گی، ہم 20سال پرانی ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہوں گے اور دنیا مریخ پر بھی پہنچ چکی ہوگی۔
ایک اُمید موجودہ حکومت سے تھی کہ وہ قوم کو تعلیم سے آراستہ کرکے احسان عظیم کرے گی مگر اُس نے بھی سب سے پہلے تعلیمی بجٹ پر کٹ لگا دیا ہے۔ یعنی 14ارب روپے کی کٹوتی کرکے 43 ارب روپے تعلیم کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اب صوبائی بجٹ میں جائزہ لیا جائے گا کہ تعلیمی نظام کی کیا صورتحال ہوگی)۔
پچھلے مالی سال 2018-19ء میں وفاق کی سطح پر یہ بجٹ 57ارب روپے تھا۔ اب سمجھ سے باہر ہے کہ تعلیم ہی کے ساتھ ہر حکومت کھلواڑ کیوں کرتی ہے؟ حالانکہ عمران خان نے الیکشن سے قبل جہاں کئی وعدے کیے تھے، وہیں یہ کہا تھا کہ تعلیم کے لیے قومی بجٹ کا 20 فیصد مختص کیا جائے گا۔
عوام کو یاد ہے کہ عمران خان نے اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں جب 22 نکاتی تعلیمی منشور کا اعلان کرکے خوب داد سمیٹی تھی انھوں نے اپنے منشور میں لکھا تھا کہ پاکستان میں دو کروڑ بیس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جنھیں اسکولوں میں لانا اولین ترجیح ہو گی۔ ہیومین کیپٹل ڈویلپمنٹ کے لیے قومی کمیشن تشکیل دیا جائے گا جس کا کام تعلیم کے مختلف شعبوں میں افرادی قوت کی ضروریات کا جائزہ لینا ہوگا۔ تعلیمی معیار کے لیے قومی کمیشن بنایا جائے گا۔ تعلیمی میدان میں بہتری کے لیے ترقی پذیر دنیا کا سب سے بڑا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ منصوبہ شروع کیا جائے گا۔
دور دراز علاقوں میں تعلیم تک رسائی کے لیے نوجوان کاروباری طبقے کے لیے ایجوکیشن فنڈ قائم کیا جائے گا جس کا مقصد ٹیکنالوجی اور کیمونیکیشن پر مبنی سلوشنز تیار کرنا ہوگا۔ ملک میں ہر سال لڑکیوں کے اسکولوں کو سیکنڈری کی سطح پر اپ گریڈ کیا جائے گا اور سیکنڈری طلباء کے لیے ملک بھر میں ریڈیو، ٹیلی ویژن، اور آن لائن سیلف سرفنگ پروگرام شروع کیے جائیں گے۔ اسکول جانے والی طالبات کو وظیفہ دیا جائے گا۔ نیشنل سٹیئرنگ کمیٹی قائم کی جائے گی جو امتحانی بورڈ بنائے گی پھر یکساں مرکزی امتحانی اسکیم تشکیل دی جائے گی۔کم از کم 10 تکنیکی یونیورسٹیاں قائم کریں گے وغیرہ وغیرہ۔
اگر ان پراجیکٹس کو بجٹ میں ڈسکس ہی نہیں کرنا تھا تو عوام کو تعلیمی لالی پاپ کیوں دیا گیا؟ ملک لوٹنے والوں کا سب سے بڑا طریقہ واردات رہا ہے کہ عوام کو ناخواندہ رہنے دیا جائے لیکن تحریک انصاف کب سے ان روایتی سیاستدانوں کی ڈگر پر چل پڑی ہے کہ تعلیمی وہیلتھ بجٹ پر کٹ لگانا شروع کر دیے ہیں۔
تعلیمی بجٹ کے حوالے سے بقول شخصے اگر میں غلط ہوں تو چیئرمین ایچ ای سی پی کی پریس کانفرنس سن لی جائے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ ڈیمانڈ میں 50فیصد کٹوتی کی گئی ہے، اگر اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں سر مایہ کاری نہ ہوئی تو مستقبل تاریک ہو گا۔ پاکستان نے یونیورسٹیوں کے چھ بڑے پراجیکٹس بند کر دیے ہیں۔ ان پراجیکٹس میں نوجوان فیکلٹی پر پی ایچ ڈی کرنے پر پابندی بھی شامل ہے۔
پاکستان تعلیم پرجی ڈی پی کا محض 2.14 فیصد خرچ کرتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ امریکا میں تعلیمی بجٹ 17فیصد، برطانیہ میں 14.5فیصد، جاپان میں 13فیصد اور بھارت میں 3.7فیصد رکھا جاتا ہے۔ امریکا کی ایک یونیورسٹی کا بجٹ پاکستان کے کل تعلیمی بجٹ کے برابر ہے۔ اس وقت دنیا کی ٹاپ ٹین یونیورسٹیوں میں سے 8 یونیورسٹیاں امریکا کی ہیں۔بہرکیف قارئین کو یاد ہوگا کہ 2003ء سے 2008ء کے دور کو اعلیٰ تعلیم کا سنہری دور کہا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں۔ لیکن آج ہم دنیا میں 135ویں نمبر پر آگئے ہیں۔ میں نے تحریک انصاف کی کے پی کے میں حکومت کے گزشتہ پانچ سالہ دور کا جائزہ لیا تو اعداد و شمار دیکھ کر میں خود ورطہ حیرت میں ڈوب گیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پہلے سال (2013) میں تعلیم ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ پورے صوبے میں مارچ 2014 تک یکساں نصاب نافذ کریں گے لیکن یہ نہ ہوا۔
ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کسی مافیا کے شکنجے میں جکڑی گئی ہے اور وہ بے بس ہو گئی ہے۔ عمران خان کی نیت پر شک نہیں ہے۔ وہ ملک کو ترقی دینا چاہتے ہیں‘وہ انتخابی مہم کے دوران اور اس سے پہلے ملک میں تعلیم کو عام کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ ملک میں یکساں نظام تعلیم لانے کے وعدے کرتے رہے۔ اب چونکہ ملک کے مالی حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ بجٹ بنانا مشکل ہو گیا تھا۔ شاید اس لیے انھیں سالانہ بجٹ میں تعلیم کے شعبے کو نظرانداز کرنا پڑا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے غلط فیصلوں کے باعث آج ہمارا ملک انتہائی مشکل میں گرفتار ہے۔ چلیں تعلیم پر تو کسی حد تک کمپرومائز کر لیا گیا ہے لیکن اگر حکومت ملکی خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب کرنے میں کامیاب ہو جائے اور ان سے قومی سرمایہ واپس لینے میں کامیاب ہو جائے تو پھر امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے سال کے مالی بجٹ میں عمران خان تعلیم کے حوالے سے اپنے وعدے پورے کرنے کی کوشش لازمی اور ضرور کریں گے۔
پاکستان کو ترقی دینے کے لیے یہاں کے عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔ خیبرپختونخوا ‘ بلوچستان ‘اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں آج بھی قبائلی سردار ‘بڑے زمیندار اور گدی نشین چھائے ہوئے ہیں۔نظام پر انھی کا کنٹرول ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وہ شامل ہیں اور حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز بھی ہو رہے ہیں۔اس طبقے کی خواہش ہے کہ ملک میں تعلیم عام نہ ہو‘وہ عوام کو ناخواندہ اور جدید تعلیم سے بے بہرہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی طبقہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں چاہتا بلکہ اس کی کوشش اور خواہش ہے کہ صدیوں پرانا نظام ہی چلتا رہے جس میں ان کی حاکمیت نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ ذرا سوچیں کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے قبائلی علاقے صدیوں سے ایسے ہی چلے آ رہے ہیں۔
ان علاقوں کے بااثر لوگ ریاست کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہتے ہیں‘ ریاست سے فوائد بھی حاصل کرتے ہیں لیکن اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں ہونے دیتے اور نہ ہی یہ چاہتے ہیں کہ یہ علاقے باقی ملک میں رائج نظام کے تحت آ جائیں۔ وہ ان علاقوں کو قبائلی نظام کے تحت ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ان علاقوںمیں پنجاب اور کراچی جیسے قوانین لاگو ہوجائیں تو ان علاقوں میں بھی ترقی کا سفر شروع ہو جائے گا تو یہ اس وقت ہی ممکن ہو گا جب ان علاقوں میں عام آدمی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو گا۔ جب وہ تعلیم حاصل کرے گا تو اسے پتہ چلے گا کہ ان کا دشمن ان کے علاقوں سے باہر نہیں رہتا بلکہ ان کے علاقوں میں ہی رہنے والا ہے۔ وہ لسانی اور صوبائی تعصبات سے بالاتر ہو کر اپنے بالادست طبقے کے خلاف جدوجہد کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کمی کی جاتی ہے اور اب تو حد ہی ہو گئی ہے یعنی جو تھوڑا بہت پہلے موجود تھا اور خرچ ہوتا تھا اس میں بھی کمی کر دی گئی۔
خیر آپ مانیں یا نہ مانیں یہ پاکستان کے خلاف سب سے بڑی سازش ہو رہی کہ یہاں کہ عوام کو ایجوکیٹ ہونے سے روکا جائے اور یہ سازش کون کر رہا ہے؟ اس حوالے سے عمران خان کو پتہ لگانا ہوگا۔ کیا بیرونی قوتیں اس کار خیر میں حصہ دار ہیں؟ یا یہ سازشیں پاکستان کے اندر سے ہو رہی ہیں،کیا اس کام میں ہمارے اپنے لوگ ملوث ہیں؟ جو ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ اس ملک کے عوام پڑھ لکھ جائیں،میرے خیال میں عمران خان کو اندھیرے میں رکھ کر سازش کی جا رہی ہے جس کا نوٹس لیا جانا چاہیے کیوں کہ ہر چیز پر کمپرومائز ہو سکتا ہے تعلیم پر نہیں! اس لیے تعلیمی بجٹ پر کٹوتی لگانے کے فیصلے کو واپس کیا جائے اور اسے فی الوقت اسمبلی سے منظور نہ ہونے دیا جائے تاکہ موجودہ حکومت اور خاص طور پر عمران خان عوام کے سامنے تعلیم کا فروغ کرکے ، تعلیم میں بہتری لا کر عوام میں سرخروہ ہوسکیں!اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین)!
The post تعلیم پر حکومتی پالیسی ناقابل قبول! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2IGHpWc
via IFTTT
No comments:
Post a Comment