اخباری اطلاعات کے مطابق ’’خیبر پختونخوا‘‘ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل میں ورکرز ویلفیئر بورڈ کو صوبوں کے حوالے کرنے کے ممکنہ فیصلے کی ایک بار پھر بھرپور مخالفت کرتے ہوئے اسے آئین‘ اقوام متحدہ کے ساتھ کیے گئے معاہدوں اور صوبے کے66 ہزار رجسٹرڈ مزدوروں کے مفادات کے منافی قرار دیا ہے۔
صوبائی حکومت نے 17جون کو CCI کے اجلاس میں اس معاملے پر کیس لڑنے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔جس میں یہ موقف اختیار کیا جائے گا کہ EOBIاور ورکرز ویلفیئر بورڈ صوبوں کے حوالے کرنے سے خیبر پختونخوا کے ہزاروں مزدوروں کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔
صوبائی حکومت کے مطابق صوبے میں سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے۔جس کی وجہ سے فنڈ کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ صوبے کی طرف سے مرکز میں قائم ویلفیئر فنڈ میں گزشتہ چند سال میں محض چودہ کروڑ روپے جمع کیے گئے۔تاہم اس دوران میں مرکز کی طرف سے کارکنوں کی فلاح و بہبود کے لیے صوبے کو 24 ارب 61کروڑ روپے سے زائد کی رقم ملی۔مذکورہ ادارے صوبوں کے حوالے کرنے سے ہمارا صوبہ اور بلوچستان اس خطیررقم سے محروم ہو جائے گا۔جس کے بعد کارکنوں کی فلاح و بہبود کے لیے جاری منصوبے متاثر ہوں گے۔ ذرایع کے مطابق صوبائی حکومت نے اس سلسلہ میں دو ٹوک بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔
یہ مسئلہ کئی دفعہ زیر بحث آچکا ہے لیکن ترقی یافتہ اور بڑے صنعتی اداروں سے مالامال صوبے‘ چھوٹے صوبوں کے محنت کشوں کا خیال نہیں رکھ رہے ہیں۔ ریاستی سرپرستی میں چلنے والے صنعتی کارکنوں اور مزدور وں کے پنشن فنڈ (Employees Old Age Benefit Institution)-EOBIکو تقسیم ہونے کا خطرہ ہے‘ صوبے اس ادارے کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں‘ یہ مطالبہ 18ویں ترمیم کے بعد شروع ہوا‘سیاسی رہنماء اور خاص کر عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی اس پر فخر کرتی ہیں کہ انھوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کا مسئلہ حل کردیا ہے لیکن انھوں نے مزدوروں کے مسائل کو سامنے نہیں رکھا، اس لیے آج یہ بحران درپیش ہے۔
یہ ادارہ 1976ء میں قائم ہوا‘ تین سال قبل کی رپورٹ کے مطابق‘ اب تک اس ادارے میں 101,024آجر رجسٹرڈ ہیں‘ تاہم ان میں سے 29331 ادارے بند ہو چکے ہیں اور 3889 اداروں نے رجسٹریشن منسوخ کرا دی ہے‘ اس وقت عملی طور پر 67804 ادارے یہاں رجسٹرڈ ہیں‘ اس ادارے میں نجی شعبے میں کام کرنے والے 5,772,798 مرد و خواتین بھی رجسٹرڈ ہیں‘ اس وقت یہ ا دارہ تقریباً پانچ لاکھ کارکنوں کو فوائد پہنچا رہا ہے‘ جس میں سے 326,853 کارکنوں کو پنشن دی جا رہی ہے‘151,189 کارکنوں کے لواحقین کو پنشن دی جا رہی ہے‘ جس میں بیوہ اور یتیم بچوں اور معذوری کی پنشن بھی شامل ہے اور 8537 افرادکو معذوری کی پنشن دی جا رہی ہے۔
EOBI کو عرف عام میں پانچ پرسنٹ بھی کہتے ہیں‘ اس کی آمدنی کا ذریعہ وہ چھ فی صد رقم ہے جو کارخانہ دار اور مزدور ماہانہ تنخواہوں کے چھ فی صد کے حساب سے دیتے ہیں‘ اس اسکیم میں ہر سال تقریباً25000 پنشنرز کا اضافہ ہو رہا ہے۔آئین میں 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبوں کے حوالے کر دینے والی وزارتوں میں محنت اور افرادی قوت کی وزارت بھی شامل ہے‘اب چونکہEOBI محکمہ محنت کے زیر انتظام کام کرتا تھا‘ اب کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا کیا ہو گا۔ وزیر اعظم نواز شریف کو ان مسائل کی اہمیت کا اندازہ ہوا جو EOBIکی صوبوں میں تقسیم سے پیدا ہو سکتے تھے ‘اس لیے انھوں نے ایک حکم کے ذریعے اس فنڈ کی صوبوں کو منتقلی روک کر اس کو مشترکہ مفادات کی کونسل(CCI) کے ماتحت کر دیا ہے۔
پنجاب اور سندھ حکومت مسلسل مطالبہ کر رہی ہیں کہ اس فنڈ کو تقسیم کرکے صوبوں کو اپنا حصہ دیا جائے‘ EOBIکے افسران کا کہنا ہے کہ اگر یہ فنڈ پانچ‘چھ حصوں میں (چار صوبے‘اسلام آباد اور گلگت بلتستان) میںتقسیم کیا گیا تو اس سے فنڈ کے انتظامی اخراجات بھی بہت زیادہ بڑھ جائیں گے ‘موجودہ حالات میں کوئی بھی پنشنر کسی بھی جگہ سے پنشن وصول کر سکتا ہے‘ کیونکہ تمام ملک کا فنڈ ایک جگہ جمع ہوتا ہے‘اب اگر یہ فنڈ صوبوں میں تقسیم ہوتا ہے تو یہ بات واضح نہیں کہ دوسرے صوبوں میں نوکری کرنے والے مزدوروں کی پنشنوں کی وصولی کا کیا انتظام کیا جائے گا؟۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے زیادہ تر مزدورسندھ اور پنجاب کے کارخانوں میں کام کرتے رہے ہیں اور اب وہ اپنے صوبے میں پنشن وصول کرتے ہیں۔
EOBIکا سرمایہ مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی ہے‘ اب اس جمع شدہ فنڈ کی مثال غریب کی خوبصورت بیٹی کی طرح ہوگئی ہے جس پر ہر ا نسان کی نظریں لگی ہوئی ہیں‘اس محکمے پر مختلف اطراف سے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ سرمایہ یہاں لگاؤ‘ کوئی کہتا ہے کہ یہاں لگاؤ‘صوبائی حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہیں جن کے مطابق وہ اس سرمایے کو استعمال کریں گی۔
ملک میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ورکرز ویلفیئر بورڈ کا ادارہ قائم کیا تھا‘اس ادارے کے تحت مزدور طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف ادارے قائم کیے گئے‘ ان میں ایک اولڈ ایج بینیفٹ (EOBI) کا ادارہ ہے‘ ورکرز ویلفیئر بورڈ اور پانچ پرسنٹ کے اداروں کے پاس اربوں روپے کے فنڈ جمع ہیں‘ حکومت بھی اس میں اپنا حصہ ڈالتی ہے‘ مزدوروں سے بھی تھوڑی بہت رقم کاٹی جاتی ہے لیکن زیادہ فنڈ کارخانوں کے منافعے سے پانچ پرسنٹ کی شکل میں ان اداروں کو منتقل ہوتا رہتا ہے‘ اب مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ پارلیمنٹ نے 18ویں آئینی ترمیم کے تحت محنت کا محکمہ بھی صوبوں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ محنت کا محکمہ پہلے سے صوبوں کے ماتحت ہے۔
اس فنڈ کی صوبوں میں تقسیم کا یہ اقدام مزدور طبقے اور خاص کر پختونخوا اور بلوچستان کے مزدوروں کے ساتھ انتہائی ظلم ہوگا۔ورکرز ویلفیئر بورڈ اور پانچ پرسنٹ کی آمدنی کا بڑا ذریعہ موجودہ فنڈ اور کارخانوں کے منافعے میں پانچ فی صد حصہ ہے‘اب جہاں کارخانے ہوں گے اور منافعے کمائیں گے تو وہاں پر اس فنڈ میں رقم بھی آئے گی‘جب موجودہ اثاثے تقسیم ہوجائیں گے تو یقیناًً خیبر پختونخوا اور بلوچستان وغیرہ کے حصے میں چند کروڑ یا چند ارب روپے آجائیں گے، شاید یہ فنڈ چند سال کے لیے کافی ہوں‘بعد میں کیا ہوگا؟ پاکستان کے مخصوص حالات اور حکمران طبقوں کی امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے تمام تر صنعتی ترقی پنجاب یا سندھ میں ہوئی ہے ‘گدون امازئی انڈسٹریل اسٹیٹ صوابی‘ امان گڑھ نوشہرہ سمیت دیگر صنعتی علاقے تو اب صنعتوں کا قبرستان بن چکے ہیں۔
ان حالات میں جب یہاںکارخانے نہیں ہیں تو ورکرز ویلفیئر بورڈ اور پانچ پرسنٹ میں فنڈ کہاں سے آئے گا‘اس بدقسمت صوبے کے مزدوروں کو یقین ہے کہ چند سال کے عرصے میں سندھ اور پنجاب کے مزدوروں کی مراعات میں مزید اضافہ ہوجائے گا اورچھوٹے صوبوں کے مزدوروں کی موجودہ مراعات بھی ختم ہو جائیں گی ‘اس کے بعد ان کے بچوں کی تعلیم اور صحت کا کیا ہوگا؟ اگر چھوٹے صوبوں کی صنعتی حالت ٹھیک ہوتی تو پھر ان اداروں کی صوبوں کے پاس آنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا لیکن خیبرپختونخوا کی معاشی حالت‘دہشتگردی اور ابتداء ہی سے یہاں پر حکمرانوںکی صنعت دشمن پالیسیوں کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ صوبائی حقوق کے نام پر نزلہ بے چارے مزدوروں پر گرے گا۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ اور اولڈ ایج پنشن صوبوں کودینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی صورت حال پر غور کیا جائے تو واقعی مزدوروں کی تشویش میں وزن محسوس ہو تا ہے‘یہ صوبہ تو محنت کش اور خام مال پیدا کرنے والا صوبہ ہو سکتا ہے لیکن کارخانے یہاں نہیں ہیں‘جو تھوڑے بہت کارخانے بنے تھے ان کے لیے لیا گیا بینکوں کا قرضہ کھا کر سرمایہ دار بھاگ گئے‘اب چونکہ یہاں کارخانے نہیں ہیں اس لیے مزدوروں کے فلاح و بہبود کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں ۔ اب اگر خیبر پختونخوا کا شیڈول دیکھا جائے تو 2013-ء2014ء کے دوران EOBIمیں آمدن صرف 60کروڑ 45لاکھ روپے تھی‘جب کہ کارکنوں کو دی گئی پنشن اور ان کے خاندانوں کو مالی فوائد دینے پر اخراجات 193 کروڑ 30لاکھ تک ہوئے یعنی خرچ آمدن سے تین گنا زیادہ ہوئے‘ان اخراجات میں جب 8کروڑ 10لاکھ کے انتظامی اخراجات بھی شامل کیے جائیں تو یہ مالی صورت حال بہت خراب نظر آتی ہے۔
آمدن اور خرچ میں ایک ارب 36کروڑ 80لاکھ کا فرق سامنے آتا ہے۔ بلوچستان میں یہ فرق تقریباً ایک کروڑ روپے سے زیادہ بنتا ہے‘اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں چھوٹے صوبے اس قابل نہیں ہیں کہ EOBIکو چلا سکیں اور مزید پنشنروں کی شمولیت سے یہ فرق مزید بڑھتا جائے گا۔ پنجاب کی حکومت اگر EOBI کے اپنے حصے کے فنڈ کا مطالبہ کر رہی ہے تو وہ تو حق بجانب ہے کیونکہ وہاں صنعتیں کافی ہیں اور اس طرح فنڈ بھی کافی ہوگا‘ان کے مزدور کی حالت تو بدل جائے گی‘ ہمارے صوبے کے مزدوروں کا کیا ہوگا؟ حکمرانوں اور ممبران پارلیمنٹ سے درخواست ہے کہ کارکنوں‘ ضعیف‘ پنشن زدہ کارکنوں کے بیواؤں‘ یتیم بچوں اور معذور لوگوں کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا جائے کہ وفاقی حکومت بھی اس اسکیم کا نظم و نسق سنبھالے اور اس ادارے کو ایک قومی ادارے کے طور پر چلائے۔
The post مزدور کے ساتھ ظلم نہ کرو appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2MNdhgX
via IFTTT
No comments:
Post a Comment