کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو کھلے عام اور ظاہر وباہر ہوتے ہیں لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر دکھائی نہیں دیتے بلکہ ’’دشمنی‘‘ لگتے ہیں لیکن اصل میں دوستی ہوتی ہے لیکن اس بات کو اسی جگہ بڑے پتھر کے نیچے دبا دیجیے ورنہ بات پھر دور تلک جائے گی اور ممکن ہے کہ بہت سارے’’پردے‘‘اٹھ جائیں اور پکی پکی’’دشمنیاں‘‘ گہری دوستیاں دکھائی دے جائیں کہ جو دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتاہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔
دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے
بات کو لمبی کھینچنے کے بجائے سیدھے شفتالو پر آتے ہیں اور یہ شفتالو حضرت شیخ سعدی کا ہے،کہ میں کہیں جا رہا تھا ایک جگہ دیکھا کہ ایک’’کوا‘‘ اور بگلا اکٹھے اکٹھے بیٹھے ہوئے ہیں، میں حیران ہوکر سوچنے لگا کہاں بگلا کہاں کوا ایک سفید براق دوسرا کالا توا، ایک مردار خور دوسرا دھلی دھلائی خوراک کھانے والا ، ایک کا روزگار پانی دوسرے کی گندگیاں، ایک انتہائی بے چین اور کسی پل چین سے چپ نہیں بیٹھنے والا اور ایک انتہائی خاموشی سے ایک ٹانگ پرکھڑے ہوکر مراقبہ کرنے والا۔لیکن قریب گیا اور دونوں چل پڑے تو رشتے کا پتہ بھی لگ گیا، دونوں لنگڑے تھے۔اب بظاہر ’’روپیہ اور روزہ‘‘ میں کوئی رشتہ دکھائی نہیں دیتا۔
سوچیے دیکھیے کوئی رشتہ دکھائی دیتاہے؟ نہیں دکھائی دیتا اور آپ کو تو بالکل بھی دکھائی نہیں دے گا کیونکہ جب آپ کو پارٹیوں، لیڈروں اور نعروں جلسے جلوسوںاور دھرنوں ورنوں کے درمیان اپنے ’’موٹے موٹے‘‘ رشتے نظر نہیں آتے کہ کتوں کی آپس میں سخت دشمنی ہوتی ہے لیکن کسی فقیر کے آنے پر ایکا کرلیتے ہیں۔ اب اس ’’فقیر‘‘کو بھی آپ نہیں جانتے ہوں گے کیونکہ اس شہر میں آئینے تو ہوتے نہیں اور اگر ہوتے بھی ہیں تو اندھے
کیابدگماں مجھ سے کہ آئینہ میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے رنگار دیکھ کر
حالانکہ روپے اور روزے میں بہت بڑا صاف صاف اور خوب موٹا رشتہ ہے دونوں’’رو‘‘اور رو،زے۔ اور اب کیا یہ بھی بتانا پڑے گا کہ رو۔ نے،رلانے کا کیا مطلب ہوتاہے، جی ہاں یہ وہی ’’رو‘‘جو دونوں کا جزواعظم ہے اور دونوں ہی یہی کرتے ہیں۔کسی اور جگہ کا ہمیں علم نہیں لیکن جہاں ہم رہتے ہیں وہاں آسمان سے برکتیں اترتی ہیں تو پتھر بن جاتی ہیں، اپنا اپنا ماحول ہوتاہے ایک ہی قسم کی بارش کی بوندیں کہیں پانی اور کہیں’’اولے‘‘ بن جاتے ہیں اس لیے دونوں ہی نعمتیں روپے اور روزے۔ جو نعمتیں تھیں اور ہیں لیکن۔یہاں اپنی مملکت خداداد میں؟ اب اس خاندان کا ایک اور’’رو‘‘
کھڑاہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیادیا مجھ کو؟
کتابوں کی جگہ پارٹٰیاں بھی رکھ سکتے ہیں لیڈر بھی نعرے بھی گانے بھی اور ترانے فلسفے کلیے اور تھیوریاں بھی۔حالانکہ اس سب کے بدلے ایک روٹی۔(لیکن رو۔ٹی)میں بھی تو ’’رو‘‘۔اور جب یہ تینوں’’رو‘‘آپس میں مل کر بلکہ یک رو ہوکر روبرو ہوجاتے ہیں رو روکنے والا کون؟۔کہ روگ میں بھی تو رو۔ک بھی ’’رو‘‘ہے۔اس طرح یہ چار ’’رو‘‘تو ہوگئے،اور چوتھے بھائی روگ کا انتظار ہے۔لیکن یہ بھی ایک فریب ہے وہ کب کا آچکاہے اور لاحق بھی ہوچکا ہے لیکن نام بدل کر اور نقاب پہن کر ’’نظام‘‘کی شکل میں حالانکہ اصل میں ’’راون‘‘ ہے۔
’’روان‘‘کانام تو آپ نے سنا ہی ہوگا لیکن وہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے نہ ہی ’’سونے کی لنکا‘‘ختم ہوئی نہ باون گزے پیدا ہونا بند ہوئے ہیں اور نہ گھر کے بھیدی ختم ہوئے ہیں۔ راون کا اصل نام’’دشاسن‘‘ یعنی دس سروں والا۔ لیکن اس نے تاپ تپسیا کی، نوہزار سال تک تپسیا میں مصروف رہا اور ہر ایک ہزار سال کے بعد اپنا ایک سرکاٹ کرآگ میں قربان کرتا۔نو سرقربان کرنے کے بعد برہما دیوتا نے درشن دے کرپوچھا مانگ کیامانگتاہے؟ دشاسن نے کہا دائمی حیات۔ برہما نے کہا یہ قانون قدرت کے خلاف ہے جوپیدا ہوگا وہ مرے گا بھی۔کچھ اور مانگ۔ اس نے اپنی خواہش کو تھوڑاسابدل کرکہا۔کہ دیوتاؤں، اسوروں اور ناگوں میں سے کوئی مجھے نہ مار سکے۔ برہما نے کہا ’’تتاآستو‘‘یعنی دے دیا۔
جس کے بعد اس نے پوری کائنات کی مخلوقات کو رلا کر رکھ دیا اندر سے جنت چھینی۔کوپیر سے خزانے اور ہوائی رتھ چھینا اور سارے عالم کو رلانے کی وجہ سے اس کا نام راوں یعنی رلانے والا بن گیا۔
شاید آپ اس کہانی کو محض افسانہ سمجھیں لیکن ایسے افسانوں میں نام کردار واقعات وغیرہ فرضی اور تمثیلی ہوتے ہیں باقی سب حقیقت ہوتی ہے۔ راون اس انسانی نظام کا نام ہے جس کے ’’سر‘‘اور چہرے کئی کئی ہوتے ہیں لیکن دکھائی صرف ایک دیتا ہے یا ایک استعمال کرتاہے باقی ’’نو‘‘بھلے ہی کٹے ہوں جلے ہوں لیکن ان کے خواص اور کرتوت اسی ’’ایک سر‘‘ میں مرتکز ہوچکے ہوتے ہیں۔ ’’سونے کی لنکا‘‘بھی کہیں اور یا دور یا اس چھوٹے سے لنکا میں نہیں اگر واقعی ایسا ہوتا تو لنکا تو موجود ہے وہ اتنا سونا کہاں گیا۔لیکن کہیں بھی نہیں گیا ہے، ہر ملک کی راجدھانی میں وہ سونا بھی جمع ہوتا رہتا ہے، وہ دس نہ دکھائی دینے والے سر بھی ہوتے ہیں اور وہی جہان کو رلانے والا، راون بھی۔جو کسی ایک شخص یافرد کانام نہیں اس نو سری جمع ایک سری نظام یعنی راون رلانے والے کا دوسرا روپ ہوتا ہے اور اس کا کام دنیا کو رلانا ہوتا ہے۔
اس لیے اس کے قبضہ اختیار میں جو بھی چیز آتی ہے وہ ’’رو‘‘پڑتی ہے رلانے لگتی۔ (رو۔پیہ) (رو۔زہ)۔ رو، ٹی۔ رو۔ ک۔رو۔گ۔یعنی خاندانی راون۔ اب قصے کا آخری حصہ۔سارے برہمانڈ یعنی کائنات کو رلانے پر دیوتاناخوش تھے چنانچہ سب صدر یا چیئرمین دیوتا ’’برہما‘‘ کے پاس فریاد لے کر پہنچے کہ یہ کیا بلا تم نے ہم پر مسلط کر دی۔ برہما نے کہا،اب تو میں اسے ’’ور‘‘دے چکا ہوں ذرا اس لفظ ’’ور‘‘پر غور کیجیے بلکہ الٹا کردیجیے وہی’’رو‘‘نکلے گا چاہے اس کا نام مینڈیٹ ہویاکچھ اور۔
برہما نے کہا ’’ور‘‘ تو واپس نہیں لیاجاسکتا ہے لیکن اس نے اپنے غرور میں باقی سب مخلوقات کانام لیتے ہوئے ’’انسان‘‘کانام نہیں لیاہے اس لیے کوئی ’’انسان‘‘اسے مارسکتاہے پھر وشنو بھگوان نے انسان کا اوتار لیا اور رام چندر کی شکل میں پیدا ہوکر اسے مارڈالا۔لیکن کون کہتا ہے کہ وہ’’مرا‘‘اب بھی زندہ ہے۔لیکن ایسی سونے کی لنکاؤں میں جہاں انسان نہیں پہنچ سکتا۔ہاں اگر ’’ہنومان‘‘یعنی بندر۔یا نیم انسان یا کالانعام کی مدد اسے حاصل ہوجائے ورنہ رو۔،رو،اور پھر رو۔
The post رو، رو، رو اور پھر رو appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2ZwPwLP
via IFTTT
No comments:
Post a Comment