Tuesday, June 4, 2019

عید کا پیغام ایکسپریس اردو

اگرچہ پاکستان کی کرنسی بے توقیری کا شکار ہے۔ مہنگائی نے ماضی کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔ بتایا گیا ہے کہ اس سال 170 بلین روپے زکوۃ دی جائے گی ۔ ملک کے سب سے بڑے انگریزی زبان کے اخبارکے اقتصادی صفحے پر شایع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اتنی ہی رقم گزشتہ سال زکوۃ کے لیے دی گئی ۔دنیا میںاتنی بڑی رقم فیاضی کے لیے وقف کرنے کی مثال نہیں ملتی۔

مسلمان عیدالفطر کی نماز سے قبل فطرہ دینے کے پابند ہیں۔ علما کا کہنا ہے کہ ساڑھے سات تولے سونا یا باون تولے چاندی یا اس کے مساوی رقم رکھنے والے پر زکوۃ لازمی ہے۔ پاکستان میں عمومی طور پر غریب رشتے داروں،جاننے والوں ، فقیروں، سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیموں اور عوامی مفاد میں سرگرم عمل غیر منافع بخش اداروں کو زکوۃ دینے کی روایت ہے۔ عام آدمی انفرادی طور پر ان لوگوں کو زکوۃ دینے کے علاوہ دینی مدارس اور جہادی تنظیموں کوزکوۃ دینے کو اولیت دیتارہا ہے۔ ہر شہر، گائوں میں دینی مدارس اور جہادی تنظیموں کے کارکن ایک زمانے میں منظم طریقے سے زکوۃ وصول کرنے کی مہم چلاتے تھے۔

9/11کی دہشتگردی کے بعد جب امریکا نے مختلف جہادی تنظیموں اور رفاحی ٹرسٹ کو القاعدہ اور طالبان کی مالیاتی پائپ لائن کا حصہ قرار دے کر ان پر پابندی عائد کی۔ امریکا ، برطانیہ کی ایما پرکئی جہادی تنظیموں اور رفاحی ٹرسٹ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بلیک لسٹ میں شامل کر دیا۔ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا پابند قرار پایا۔ چنانچہ جہادی تنظیموں اور رفاحی ٹرسٹ پر پابندی لگا دی گئی۔

وفاقی وزارت داخلہ نے ان تنظیموں کے کارکن کو زکوۃ ، خیرات ، صدقات اور عید الضحٰی کے موقعے پر قربانی کی کھالیں وصول کرنے سے روکنے کے لیے بے دلی سے اقدامات کیے۔ ان تنظیموں نے نام تبدیل کرکے نئے ناموں کے ساتھ کام کرناشروع کردیا۔یہ تنظیمیںزکوۃ، فطرانہ اور خیرات کے علاوہ عیدالضحیٰ کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی کھالیں اور گوشت وصول کرتی تھیں ۔

ایک وقت تھا کہ جب چھوٹے بڑے شہروں میں یہ بینرز نظر آتے تھے کہ آپ کی قربانی افغانستان یا مقبوضہ کشمیرمیں۔ مگر جب پشاورپبلک اسکول پر دہشتگردوں کے حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان تیار ہوا تو ان جہادی تنظیموں اور رفاحی ٹرسٹ کے خلاف آپریشن کی گونج سنائی دی۔ ایک دو سال تو سختی رہی پھرکالعدم تنظیموں نے نئے ناموں سے زکوۃ، صدقات اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا کام شروع کر دیا۔ پاکستان میں ایدھی،چھیپا، ایس آئی یو ٹی وغیرہ زکوۃ، صدقات اور قربانی کی کھالیں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنے فلاحی منصوبوں پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی نے عوام کے چندے سے ہی کراچی سمیت پورے ملک میں ایمبولنس کی گاڑیوں کا جال بچھایا۔

ایدھی کی پیروی کرتے ہوئے چھیپا ایمبولنس چلنے لگی۔ ایدھی نے عوامی دسترخوان کی روایت کوقائم کیا اور بحریہ ٹائون، سیلانی اور عالمگیرٹرسٹ نے عوامی دستر خوان کی روایت کو آگے بڑھایا ۔ یوں روزانہ لاکھوں لوگ عزت نفس کے ساتھ دو وقت کا کھانا کھانے لگے۔اس طرح ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ان عطیات سے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ کو دنیا کے بہترین اسپتالوں میں تبدیل کیا۔ ڈاکٹر باری نے انڈس اسپتال جیسا ادارہ قائم کیا۔ بہترین طبی ماہرین، جدیدعلاج کی سہولتوں سے لیس اس اسپتال میں کیش کاونٹرموجود نہیں ہے۔مریضوں کے علاج معالجے کی تمام مفت سہولیات کے علاوہ ان کے تیمارداروں کو بھی کھانا دیا جاتا ہے۔ایس آئی یو ٹی اور انڈس اسپتال کے علاوہ ملک میں کئی اور اسپتال بھی اسی نوعیت پر قائم ہوئے اور کئی تعلیمی ادارے بھی اسی طرح کا کام کر رہے ہیں۔

موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے ایسے ہی عطیات سے اپنی والدہ کے نام لاہور میں کینسر کا جدید اسپتال شوکت خانم اسپتال کے نام سے قائم کیا۔ اس کی ایک شاخ کو پشاور میں قائم ہوئے عرصہ ہوگیا ہے کراچی میں ایسے ہی منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان رمضان المبارک میں شوکت خانم اسپتال کی چندہ مہم کے لیے خصوصی طور پر کراچی تشریف لے آئے اور ایک افطار ڈنر میں شرکت کی۔ اس افطار ڈنر میں جب شرکا ء سے چندہ دینے کا کہا گیا تو صرف دوگھنٹوں کے دوران 24کروڑ روپے کی خطیر رقم وصول کی گئی۔ اس بات کا امکان ہے کہ عید الفطر تک یہ رقم ایک ارب تک پہنچ جائے گی مگر معاشرے میں مذہبی جنونیت کی جڑیں گہری ہونے سے جہاں روشن خیال لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑگئیں ہیں وہاں رفاہی اداروں کو ملنے والی امداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔

ایدھی ٹرسٹ کے روح رواں فیصل ایدھی نے گزشتہ سال انکشاف کیا تھا کہ ان کے ادارے کو ملنے والے عطیات، خیرات اور صدقات کی مد میں ہونے والی آمدنی میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ اس صورتحال کے بنا  پر ایدھی ٹرسٹ نے کئی ترقیاتی منصوبے التوء میں ڈال دیے۔ایسی ہی صورتحال کا سامنا انڈس اسپتال کو بھی ہے۔انڈس اسپتال کی انتظامیہ نے ڈاکٹروں کو ملنے والی مراعات میں کمی کردی اور کئی منصوبوں پر عمل درآمد فی لحال روک دیاہے ۔فلاحی تنظیموں پر نظر رکھنے والے صحافیوں کا تجزیہ ہے کہ اگرچہ زکوۃ کی مد میں دی جانے والی رقوم میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے لیکن یہ عطیات بڑی تعداد میں کالعدم اداروں کومنتقل ہورہے ہیں۔ اس صورتحال کا بین الاقوامی اداروں نے بھی نوٹس لیا ہے ۔ امریکا ، برطانیہ اور فرانس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سوال اٹھا یا تھا کہ یہ عطیات مذہبی دہشتگردوں کو مالیاتی تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایشیائی اورمشرقی بعید کی انسدادمالیاتی دہشتگردی کی ٹاسک فورس نے اس مالیاتی پائپ لائن کو روکنے کے لیے مختلف پابندیاں لگانا شروع کردی ہیں۔ ٹاسک فورس کے موجودہ سربراہ بھارتی شہری ہیں۔ اس مالیاتی پائپ لائن کو روکنے کے لیے جو مختلف نوعیت کی پابندیاں لگائی گئیں اس سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا۔ اب وزارت داخلہ نے اس دفعہ سختی سے ہدایات جاری کی ہیںکہ زکوۃ کی رقم کسی صورت میں بھی کالعدم تنظیموں کے ہاتھ نہ لگے۔ ہر پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او نے بازاروں میں وزارت داخلہ کی ہدایات پر مشتمل بینرز آویزاں کردیے ہیں۔

عید کے اس تہوار کے موقع پر ہر پاکستانی جس پر زکوۃ فرض ہے اس کا یہ بنیادی فرض بنتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ زکوۃ کا ایک روپیہ بھی کالعدم تنظیموں کے خزانے میں نہ جانے پائے۔ یہ تنظیمیں اپنے مقاصد کے لیے نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرتی ہیں اور پھر ان سے دہشتگردی کا کام لیتی ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو یہ بات بتائی جائے کہ انفرادی فیاضی سے گریز کریں کیونکہ لوگوں کو محض زکوۃ دینے سے غربت کا معاملہ حل نہیں ہوتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ اداروں کوزکوۃ دیں اوریہ ادارے جن میں ایس آئی یو ٹی، انڈس اسپتال ، شوکت خانم اسپتال اور ایدھی ٹرسٹ جیسے ادارے شامل ہیں ،ملک میں فیاضی کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کو مثبت استعمال کرنے کی روایت پر عمل کر رہے ہیں۔ اس اعلیٰ روایت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انفرادی طور پر زکوۃ دینے کے بجائے ادارے کو زکوۃ دینے کے رجحان کی حوصلہ آفزائی کی جائے ، عید کا پیغام ہی یہ ہے کہ آپ کی زکوۃ کسی صورت کسی دہشتگردکے کام نہ آئے بلکہ اس تعلیم ، صحت ، پانی کی  فراہمی کے جیسے منصوبوں پرخرچ ہو سکے۔

The post عید کا پیغام appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/3186di9
via IFTTT

No comments:

Post a Comment