Wednesday, June 26, 2019

درست فیصلوں کی ضرورت ایکسپریس اردو

معاشی استحکام ملک کی اولین ضرورت ہے۔لیکن ایک مضبوط ومستحکم سیاسی و سماجی اور معاشی نظام ریاستی سسٹم کے جیوپولیٹیکل میکنزم سے مربوط ہے ، بلا امتیاز احتساب کے بغیر صورتحال الجھے گی ،تاثر یہی ابھرے گا کہ صرف سیاستدانوں کا احتساب ہورہا ہے ، بیوروکریسی کو کوئی ہاتھ نہیں لگا رہا۔

منگل کو پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ کرپشن کیسز پر کسی سے سمجھوتہ نہیں کروں گا، اس لیے کسی نے براہ راست این آر او کے لیے رابطہ نہیں کیا، طیب اردوان کی طرف سے نواز شریف کی حمایت کا خدشہ تھا ، انھوں نے بات تک نہیں کی، وزیراعظم نے واضح کیا کہ بیوروکریسی کے احتساب کا نظام بنا رہے ہیں۔

پاکستان اور یورپی یونین کے مابین نئے اسٹرٹیجک باہمی تعاون منصوبہ پر معاہدہ طے پایا ہے، یورپی یونین کی طرف سے ان کی اعلیٰ نمایندہ فیڈریکا موگیرینی نے جب کہ پاکستان کی طرف سے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دستخط کیے ہیں،انھوں نے سائبر سیکیورٹی ، منی لانڈرنگ اور سرمایہ کاری پر بات چیت بھی کی۔

ادھر بجٹ کی منظوری کے لیے حکومتی حکمت عملی تیار ہے اور مقابلے پر اپوزیشن جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد ہوا ہے، شہباز شریف ،بلاول بھٹو زرداری، ن لیگ کی مریم نواز ، عوامی نیشنل پارٹی، آفتاب شیرپائو کی قومی وطن پارٹی، میر حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی اور محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت دیگر مدعو رہنمائوں نے اے پی سی میں شرکت کی۔ جس میں مولانا فضل الرحمان کی میزبانی میں اپوزیشن رہنمائوں کی مشاورت جاری رہی،خطے کی سلگتی صورتحال کے تناظر میں امریکا،ایران،افغانستان،بھارت، اسرائیل کے مابین کشمکش اور کشیدگی کے باعث جنگ کے خطرات بڑھ رہے ہیں،پاکستان کو اپنی تاریخ کے ایک نازک ترین بحران کا سامنا ہے، ڈپلومیسی،امن پسندی، ہمسایہ برادر اور مسلم ملکوں سے تاریخی اور مذہبی رشتوں کے سیاق وسباق اور علاقائی حوالوں سے اپنا کلیدی اور عالمی کردار بھی ادا کرنا ہے، لازم ہے کہ پاکستانی سیاست زمینی حقائق سے لابلد نہیں رہے، اسے ترغیب ،تحریص اور مفادات کی جنگ زرگری میں اپنی سالمیت اور عالمی امن و استحکام کے عظیم کاز کو بھی اپنے تدبر اور حکمت و توازن کے ساتھ نبھانا ہے۔

یوں داخلی اور خارجہ دونوں حوالوں سے وطن عزیز پر عجب وقت پڑا ہے۔ ملکی قیادت پر ہر لمحہ بڑھتا ہوا معاشی دبائو اس کے لیے ایک آزمائش بھی ہے اور ایک گولڈن چانس اور موقع بھی جسے بروئے کار لا کر پاکستان عالمی اور داخلی امتحانوں سے عہدہ برآ ہونے کا ایک عہد ساز تاریخی کردار اپنے نام مخصوص کرا سکتا ہے،سب کچھ ممکن ہے بشرطیکہ حکمراں حقائق کا درست ادراک کرنے کے ساتھ ملکی سالمیت اور استحکام کے لیے بروقت فیصلے کریں،دانشمندی ، دور اندیشی اور تدبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے ان باطل قوتوں کو پسپا کریں جو پاکستان کو ایک مشکل معاشی دلدل میں پھنساکر اپنا سیاسی گیم پلان کامیاب بنانے کی سازش کررہے ہیں۔

لہٰذا تمام اسٹیک ہولڈرز کا فرض ہے کہ وہ پیداشدہ صورتحال میں مل بیٹھ کر سیاسی مسائل کا پائیدار اور پرامن حل تلاش کریں، وقت یہی ہے کہ درست فیصلے درست وقت میں کشادہ نظری اور دور اندیشی سے کیے جائیں۔ بقول غالب   ؎

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

گھبرانے کی ضرورت نہیں مگر سیاست کے ’’باون گزوں‘‘ سے خبردار رہنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، خنجر بدست دشمنوں کا زمانہ نہیں یہ مارآستیں سے بچنے کی سیاسی بصیرت کا لمحہ ہے۔ ملکی سیاسی و معاشی حالات پر نظر رکھنا وقت کا تقاضہ ہے، کوئی جذباتی اور ہیجانی صورتحال پیدا کرنا ملکی مفاد میں نہیں، لہجوں پر قابو رکھنے اور جوش کی جگہ ہوش کو کام میں لانے کا وقت ہے۔اور وقت ہی کی ضروریات ،محرکات کا اندازہ وہ لوگ ہی لگا سکتے ہیں جنھیں معاشی مسیحا کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر اس دستاویزی حقیقت کو معیشت پر چھائے کالے بادلوں نے گھیر رکھا ہے جو تاحال سیاسی اکانومی کی اسموتھ سیلنگ کا کوئی پتا نہیں دیتے۔

لگتا ہے کہ اقتصادی اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کو تیار ہی نہیں، یا جنھیں اقتصادی چارہ گری پر مامور کیا گیا ہے وہ اس تذبذب میں گرفتار ہیں کہ کس کا احتساب ہونا چاہیے،کس کو قانون کی دھونکنی سے بے حال ہونا چاہیے، کس کو چھونے کی اجازت نہیں، عدالتی پروسیس شفاف ہے ، اسی لیے انتظامی فیئر پلے ناگزیر ہے اور اقتصادی اوورہالنگ اور تطہیر جوابدہی کے آفاقی اور عالمگیر اصولوں سے ہم آہنگ ہوگا تب ہی پاکستان کے معاشی مصائب کم ہونگے اور معیشت کا مطلع صاف ہوگا۔

بتایا گیا ہے کہ حکومت نے صنعتکاروں کے مطالبات کو منظور کرتے ہوئے مالی سال 2019-20 میں لگائے گئے بعض ٹیکسوں میں ترامیم کا اعلان کیا ہے جس سے معیشت کو دستاوبزی بنانے کے عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔تمباکو پر ڈیوٹی 300 روپے فی کلو سے کم کرکے 10 روپے کردی گئی ہے البتہ تمام قسم کی درآمدی گاڑیوں بشمول وہ گاڑیاں جو درمیانہ طبقہ استعمال کرتا ہے پر فیڈرل ایکسائزڈیوٹی میں اضافہ کردیاگیا ہے۔

میوچل فنڈز کے ڈیویڈنڈ پر انکم ٹیکس بھی 25% فیصد سے کم کرکے 15% کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔منگل کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیرمملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے انکم ٹیکس کمشنروں کو غیرملکی کرنسی یا سونے کے شبے میں لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارنے کے اختیارات واپس لینے کا اعلان کیا۔انھوں نے نان ریذیڈنٹ پاکستانیوں کے لیے پاکستان میں قیام کی مدت میں بھی نرمی کا اعلان کیا ۔حکومت اگلے مالی سال کی ان بجٹ ترامیم کی منظوری جمعہ کو فنانس بل 2019ء کے موقع پر لے گی۔

منگل کو وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ نے اجلاس میں شرکت نہیں کی ۔وزیرمملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ ٹیکس نظام کو سادہ اور آسان فہم بنایا جارہا ہے ۔حماد اظہر نے کہا کہ موجودہ حکومت نے دس سال کا کام دس ماہ میں کردیا ہے ۔ساڑھے پانچ کروڑ لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کرلیا جن میں ایک لاکھ 52 ہزار آف شور کمپنیوں کا ہے۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے گھروں پر چھاپے مارنے کااختیار واپس لے لیا ہے۔ گھی، آٹے پر نہیں البتہ چینی پر ٹیکس بڑھایا گیا ہے ،ٹیکس جمع کرانے کے لیے اب وکلا کی ضرورت نہیں ہوگی، موبائل ایپ کے ذریعے جمع کرائے جاسکیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ہماری معیشت میں 70 سال سے بنیادی نقائص ہیں جنھیں دور نہیں کیا گیا ہے۔ تعلیم صحت کے بے پناہ مسائل ہیں ان مسائل کی وجہ عمران خان نہیں ہیں۔جو لوگ چالیس سال سے حکمرانی کررہے تھے ان سے چالیس سال کا حساب لے کر رہیں گے۔گیس کا گردشی قرضہ نااہلی کی وجہ سے 150 ارب روپے سے بڑھ گیا ۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں پاکستان کے بیرونی ذخائر 19 ارب ڈالر سے کم ہوکر 6 ارب ڈالر رہ گئے۔

ایک خبر کے مطابق ایمنسٹی اسکیم کے گوشوارے جمع کرانے میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے،ایک اطلاع کے مطابق پاکستانیوں نے 10 کھرب ڈالر کے اثاثے قانونی بنالیے، ان پر ایمنسٹی کا جادو یواے ای، سوئیٹزرلینڈ،برطانیہ وغیرہ میں رنگ لایا۔خدا کرے ایسا ہو۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ڈی جی برائے انٹرنیشنل ٹیکس ڈاکٹر اشفاق کے مطابق کالے دھن کو سفید کرنے میں متحدہ عرب امارات سر فہرست ہے۔

 

The post درست فیصلوں کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/31YgMow
via IFTTT

No comments:

Post a Comment