وزیراعظم پاکستان، عمران خان نے اکیس جون کو قوم سے مختصر خطاب کیا اور ملک کو درپیش مالی بحران سے آگاہ کیا اور اس بحران سے نکلنے کے لیے اپنی کاوشوں کا ذکر کیا، وہ کاوشیں جن کے نتیجے میں غالبا انھیں لگا تھا کہ اس ملک میں اتنا ٹیکس جمع ہو جائے گا کہ وہ ملک کو قرضوں کی اس دلدل سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ ابھی تک سال بھر میں جتنا ٹیکس جمع ہوتا ہے اس میں سے نصف، ملک کے قرضوں پر فقط سود کی ادائیگی کی قسط میں نکلتا ہے۔ اندازہ کریں کہ ہم بمشکل صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں تو قرضوں کی ادائیگی کب اور کیسے ہو گی۔ سود کو اسی لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ اس کے پھندے میں پھنسا ہوا کبھی نکل نہیں پاتا ۔
عمران خان نے مزید کہا کہ اس ملک پر جب بھی کبھی مشکل گھڑی آئی تو بلکہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں سمیت پوری قوم نے بھر پور تعاون کیا اور اس آزمائش میں سے ہم ہر بار نکل گئے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ملک کو اس مشکل صورت حال سے نکالنے کے لیے پانچ ہزار ارب روپیہ ٹیکس کی مد میں اکٹھا کرنا ہے… اگر قوم چاہے تو ہم آٹھ ہزار ارب روپیہ جمع کر سکتے ہیں ( اگر قوم چاہے تو!)۔
انھوں نے اس سلسلے میں متعارف کروائی جانے والی ایمنسٹی اسکیم کا بھی ذکر کیا جو کہ چند دن باقی رہ جانے کے باعث ابھی تک کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ میں کوئی ماہر معاشیات تو نہیں مگر اس ملک کے عوام کا ایک حصہ ہوں ، عمر اس دشت کی سیاحی میں گزاری ہے اور لوگوں کے مزاج سے کچھ آشنائی ضرور ہے سو اپنی حقیر رائے پیش کرنا چاہوں گی۔
حکومت کے معاملے میں ٹیکس دیتے ہوئے جب ہم عام لوگ چوری کرتے ہیں تو اس سے ہمارا ضمیر ہمیں ہلکا سا کچوکا ضرور لگاتا ہے مگر ہم اسے مطمئن کر لیتے ہیں کہ حکومت ہمارے لیے کیا کر رہی ہے، اب تک کیا کیا ہے یا آیندہ کیا کر لے گی۔ لوگوں سے ٹیکس لینا ریاست کا حق ہے مگر اس کے بدلے لوگوں کے کیا حقوق ہیں، یہ بھی اہم ہے۔ ہم ان ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں جہاں لوگ دل سے یا بے دلی سے مگر پورا ٹیکس دیتے ہیں، لیکن اس کے بدلے انھیں کیا ملتا ہے؟
میں تو اتنی سی بات سے متاثر ہوجاتی ہوں کہ ان کے ہاں کچن کا عام نل کھول کر آپ پورے اعتماد سے وہ پانی پی سکتے ہیں اور ہمارے ہاں آپ رقم ادا کر کے جو پانی خرید کر پی رہے ہوتے ہیں، اگلے دن ٹی وی پر بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ وہ بھی جعلی منرل واٹر ہے اور کسی عام ٹونٹی سے بھر کر بیچا جا رہا ہوتا ہے ۔ جس ملک میں کرپشن لہو اور ماس میں بسی ہو وہاں ٹیکس چوری بالکل عام سی چیز ہے۔
ماضی کے حکمران جو تھوک ہمیں لگا کر گئے ہیں ان کے ادوار میں ٹیکس کی چوری میرے خیال میں کوئی جرم نہیں تھا کیونکہ ہمارے ٹیکسوں کی رقوم نہ صرف انھیں پال رہی تھیں بلکہ ان کے اللوں تللوں پر اور ان کی اگلی نسلوں کے مستقبل بنانے پر بیرون ممالک کے بینکوں میں جمع ہو رہی تھیں۔ اب کوئی بھی حکومت آجائے، کوئی کتنا ہی دیانت دار کیوں نہ ہو، عوام اتنے ڈسے ہوئے ہیں کہ وہ شک کی کیفیت سے باہر ہی نہیں نکل پا رہے ہیں۔ ہم اپنے علاج کے لیے سرکاری اسپتالوں میں نہیں جاسکتے کیونکہ ہمیں ان پر اعتماد ہی نہیں ہے۔
ہمیں تو کیا اس ملک پر تین دہائیوں تک حکومت میں رہنے والے ان لیڈروں کو اعتماد نہیں ہے جنھیں اس بات پر کڑی سزا دینا چاہیے کہ انھوں نے اتنے عرصے میں اس ملک میں ایک ایسا اسپتال بھی نہ بنوایا جہاں ان کا اور ان کے خاندان کا علاج ہو سکے اور وہ چھینک آنے پر بھی بیرون ممالک کو بھاگتے ہیں ۔ یہ ان کے اعتماد کا عالم ہے تو ہمیں ان پر کیا اعتماد ہوتا ۔ عوام نے اس لیے بھی ٹیکس چوری کی عادت اپنا لی کہ ان کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بہتر نظام تعلیم میسر نہیں ، اپنی گاڑیاں خریدتے ہیں، ان کی خرید و فروخت پر ٹیکس دیتے ہیں، پٹرول پر ٹیکس دیتے ہیں تو جو حکومتیں ہمیں ایک اچھا ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں دے سکتیں ہم انھیں ٹیکس کیوں دیں ۔
حکومت نے چالیس ہزار روپے کے پرائز بانڈزکو آیندہ نو ماہ کی مدت میں ختم کردینے کا اعلان کیا ہے، یہ بھی سیاہ پیسے کو سفید کرنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے، نو ماہ کا عرصہ کم نہیں کہ لوگ اس عرصے میں اپنے گھروں میں جمع شدہ بڑی مالیت کے پرائز بانڈ تڑوا سکیں ۔ ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے بھی لوگوں کو بہت سے خدشات ہیں، اس بار تو سیاہ کو سفید کرنے کے لیے لالچ دیا جا رہا ہے مگر جو رقوم منظر عام پر آجائیں گی ان پر اس کے بعد ٹیکس کی مد میں جو رقم جائے گی وہ کس قدر ہو گی اور اس کا مصرف کیا ہو گا؟ ہم لوگوں میںسے جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں وہ عموماً وہ ہیں جن کے پاس اس کے سوا چارہ کوئی نہیں ، جیسے ہمارا ٹیکس ہمیں تنخواہیں اور عوضانے ملنے سے قبل ہی کٹ جاتا ہے۔
ایمنسٹی اسکیم میں Public office holder کی شق ڈال کر بھی ایک بڑے طبقے کو ایمنسٹی اسکیم سے محروم کر دیا گیا ہے۔ نہ صرف ناجائز بلکہ جائز ذرائع سے رقوم کما کر ، بچت یا ٹیکس نہ دینے کی نیت سے اپنے گھروں میں اور نان ڈکلیرڈ اثاثوں کی صورت میں اپنی کمائی کو چھپانے والا ایک بڑا طبقہ اس اسکیم کے ثمرات سے محروم ہے، حالانکہ زیادہ ضرورت انھی لوگوں کو ہے۔ جس کے پاس اختیار نہ ہو، وسائل اور ذرائع آمدنی نہ ہوں، وہ کس طرح رقم کما اور چھپا سکتا ہے؟
ملک سے باہر یا اندرون ملک جن لوگوں نے اپنی دولت کو مختلف کرنسیوں ، جواہرات یا بانڈز کی صورت میں چھپا رکھا ہے، وہ کس وجہ سے اسے ظاہر کریں گے، کیونکہ کوئی مائی کا لال ابھی تک سابقہ حکمرانوں کے لوٹ کھسوٹ کر کے باہر رکھے ہوئے پیسے کو ملک میں واپس لا سکا ہے نہ آیندہ کوئی امید ہے ۔ حکومت کی لگ بھگ ایک سال کی مدت میں کچھ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آیا جس کے ثمرات عام آدمی کے لیے ہوں اور نہ ہی کوئی امید ہے، ابھی تک تو حکومت چلانے اور گرانے کے مسائل ہی چل رہے ہیں۔
لوگ اس لیے بھی بینکوں اور حکومت پر اعتماد نہ کرتے ہوئے اپنی رقوم، اثاثے اور دیگر قیمتی اشیاء گھروں میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہم سب ، یہ سب کچھ اپنے مستقبل کے لیے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کماتے اور جوڑ جوڑ کر رکھتے ہیں ۔ عورتیں اپنی محدود آمدنی میں سے بھی بچتیں کر کر کے اپنے بچوں کی شادیوں اور دیگر ضروریات کے لیے جمع کرتی اور اسے اپنے پاس ہی سب سے زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں۔
اچھے وقتوں میں تھوڑا تھوڑا کر کے لیا گیا سونا، کسی چھوٹی موٹی اسکیم میں سستے میں لیا گیا پلاٹ یا گھر، جس کی اب مالیت بڑھ گئی ہے ، اسے چھپانا صرف اس لیے مقصود ہوتا ہے کہ اس پر مالیت بڑھ جانے کی وجہ سے اب ٹیکس بھی بڑھ گیا ہے اور اسے ظاہر کرنے کا مطلب ہے کہ اس پرزیادہ ٹیکس ادا کریں۔ ا چھے وقتوں کی بچتیں… مزید ذرائع آمدنی نہ ہونے کے باعث، تھوڑی تھوڑی کر کے باقی ماندہ زندگی گزارنے کا وسیلہ بھی ہوتی ہیں، اب انھیں ڈکلیر کرنے کا مطلب ہے کہ وہ ساری بچت دو ایک سال میں ٹیکس ادا کر کے ہی ختم کر دی جائے کیونکہ ہمارے ہاں ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے اور اسی وجہ سے ٹیکس کی آمدنی بھی کم ہے۔
ہمیں یہ علم ہے کہ ہم اس ملک میں ہر چیز پرٹیکس دے رہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس کی مد میں رقم جمع کرنی ہے تو تفریح کی غرض سے کھانے پینے پر، مہنگے برانڈز پر، ٹیلی فون کی خرید و فروخت اور استعمال پر ٹیکس بڑھا دے۔ جن چیزوں سے عام آدمی کی زندگی متاثر ہوتی ہے جو پہلے ہی پس رہا ہوتا ہے، اس پر مستزاد بجلی اور گیس کے بڑھتے ہوئے نرخ، پٹرول کی قیمت میں اضافے کے باعث ہر چیز گراں ہو جاتی ہے… جو طبقہ صاحب حیثیت ہے اور ٹیکس ادا کرنے کی حیثیت میں ہونے کے باوصف ٹیکس ادا نہیں کرتا، ان کے طرز زندگی کے مطابق جو اشیاء صرف ہیں، ان پر ٹیکس بڑھائیں اور ایمنسٹی اسکیم سے جن لوگوں کو استثناء دیا گیا ہے، ان میں ان لوگوں کو شامل کر کے دیکھیں جو اپنی اس آمدنی کے ذرائع کو justify تو کر سکیں مگر ان کے پاس جواز ہو کہ وہ ٹیکس حکومت پر اعتماد نہ ہونے کے باعث ادا نہیں کرتے تھے۔ ان کے ماضی کو دفن کر کے انھیں آیندہ کے لیے ٹیکس نیٹ میں لے آئیں، ممکن ہے کہ اس سے بہتر نتائج حاصل ہوں ۔ اپنے مشیران کی بجائے، عام آدمی کی سوچ چیک کریں ، امید اور دعا ہے کہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ انشاء اللہ !!
The post سیاہ اور سفید… appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2WXstba
via IFTTT
No comments:
Post a Comment