Saturday, June 1, 2019

ایک شہر کے تین رنگ ایکسپریس اردو

امریکا کے شہر Memphis میں دریائے مسسپی کے کنارے گھومتے ہوئے ہم دریا کے ایک پل پر جا پہنچے تو میرے ساتھی نے مجھے روک کر کہا تم ایک تاریخی حیثیت کے حامل پل پر چل رہے ہو جسکا نام Auction Bridge ہے۔ میں نے پوچھا کیا یہ پل کسی نیلامی کے ذریعے تعمیر ہوا تھا جواب ملا کہ نہیں 150 سال کے لگ بھگ پرانی بات ہے جب اس پل پر افریقہ سے اغوا کرکے لائے گئے سیاہ فام انسانوں کو بحری جہازوں میں بھر کر لایا جاتا اور اس پل پر کھڑے کر کے نیلام کیا جاتا تھا۔

افریقی ملکوں کے مافیا ان لوگوں کو اغوا کر کے بیچتے، گورے انھیں جہازوں میں لاد کر یہاں رسوں سے جکڑ کر پل پر سیکڑوں کے حساب سے خریداروں کو گنوا اور دکھا کر بولی لگواتے اور اونچی بولی والے کو فروخت کر دیتے تھے۔ جب شروع شروع میں کھیتی باڑی کے لیے ورکروں اور مزدوروں کی فوری اور شدید ضرورت پڑی اور ورکروں کی کمی پیدا ہوئی تو تعمیر و کاشتکاری کے لیے نیلامی میں خریدے گئے افراد سے کام لیا جاتا رہا اور چونکہ نیلامی کے لیے یہ پل استعمال ہوتا تھا۔ اس پل کا نام Auction Bridge کے نام سے مشہور ہو گیا۔

اس پل کے قریب ایک پارک کا نام بھی Auction Park ہے۔ وہیں موجود ایک گرینائٹ بلاک بھی غلاموں کی نیلامی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ بہت پرانی بات نہیں یہ کام گزشتہ صدی تک ہو رہا تھا۔ یہاں نقل مکانی کر کے دوسرے ملکوں سے آئے افراد کی بھی دوسری نسل موجود ہے لیکن ایک کثیر تعداد جو سیاہ فام لوگوں کی نظر آتی ہے وہ دراصل نیلام ہوئے افراد کی تیسری نسل ہے۔

ان سیاہ فام لوگوں نے تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ ترقی نہیں کی جو پرانے سفید فام آباد کاروں نے کی ہے البتہ مختلف اسپورٹس خاص طور پر فٹ بال اور باسکٹ بال میں انھوں نے نام پیدا کیا ہے اور نچلے درجے کی ملازمتوں میں ان کی خاصی تعداد ہے جب کہ ایک بڑی تعداد جرائم میں ملوث پائی جاتی ہے جس کی بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ بیچارے اپنا ماضی نہیں بھول پاتے۔

اسی پل سے ایک مشہور شخصیت کی یادگار پر جانا ہوا۔ یہ اپنے وقت کا پاپولر سنگر موسیقار اور ایکٹر Elvis Presley تھا۔ وہ 1935میں Memphis میں پیدا ہوا۔ اسکول کے دنوں ہی سے موسیقی کا شوقین تھا، تعلیمی لحاظ سے نکما لیکن گٹار بجانے میں ماہر تھا۔ اس کے استاد نے کہا کہ تم نے کلاس میں C گریڈ لیا ہے، موسیقی میں بھی نالائق ہو گے جس پر اس نے گٹار بجا کر دکھائی اور سب کو حیران کر دیا۔ بڑا ہوا تو ٹیلیوژن شو کرنے لگا۔ وہ اپنے وقت کا تینوں فیلڈز یعنی بحیثیت موسیقار، ایکٹر اور گٹارسٹ اتنا مقبول ہوا کہ نوجوانوں کا پسندیدہ ہیرو ثابت ہوا اور اسے Best Selling Solo Artist ہونے کا درجہ دیا جاتا۔

اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ King of Rock and Roll کہلاتا اور پاگل پن کی حد تک پسند کیا جاتا۔ اس کو اپنے وقت کا ملک میں تیسری پوزیشن پر پاپولر سنگر اور موسیقار سمجھا جاتا تھا لیکن اس کو بے حد نشے کی عادت نے جوانی ہی میں برباد کرنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ دل کے عارضے میں نکلا اور وہ 1977ء میں 42 سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک سے Memphis ہی میں انتقال کر گیا۔

امریکی شہر Memphis ہی سے متعلق ایک اور قابل ذکر واقعہ یعنی مارٹن لوتھر کے قتل سے متعلق معلوم ہونے پر میں Lorraive Motel کے سامنے پہنچا جس کی دوسری منزل پر اس کے کمرے کے باہر بالکونی ہے۔ جہاں کنگ کھڑا تھا جب اس پر جیمز ارل وے نامی گورے نے فائر کیا لیکن مارٹن لوتھر کنگ زخم کی تاب نہ لا سکا اور موت کی آغوش میں چلا گیا۔ یہ واقعہ 4 جنوری 1968ء کو ہوا۔ اس کا قاتل بعد میں گرفتار ہو گیا۔ اس پر مقدمہ چلا قاتل نے اقبال جرم کیا اور اسے قید کی سزا ہوئی۔ مارٹن لوتھر کنگ ایک پادری تھا اور سیاہ فام امریکیوں پر مختلف قسم کے نسل پرستانہ مظالم کے خلاف متحرک تھا۔ اس وقت سیاہ فام شہریوں کے خلاف کئی قسم کی بندشیں تھیں جن کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن ہوگئی تھی۔

لیکن ان کی کسی جگہ شنوائی نہ تھی۔ کنگ سول رائٹس موومنٹ کا بانی اور محرک تھا اس کا پلان بالکونی سے تقریر کرنے کے علاوہ پانچ لاکھ افراد کا جلوس لے کر واشنگٹن تک مارچ کرنے کا تھا جو حکومت کو کسی صورت قبول نہ ہوتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ وہ ویت نام میں حکومتی دخل اندازی کے خلاف تھا۔ اس کے قتل کے محرکات پر مختلف آرا ہیں لیکن ایک بات کی ہر کوئی تائید کرتا ہے کہ وہ امن پسند Activist تھا۔ وہ Atlanta میں 1929 میں پیدا ہوا اور قتل کے دن 1968 تک اس پر نسل پرستی یا تشدد پسندی کا کوئی الزام نہیں تھا بلکہ اس کی تو جدوجہد کی بنیاد ہی ان دو برائیوں کے خلاف جنگ تھا۔ مارٹن لوتھر کی یاد میں ہر سال جنوری کا تیسرا سوموار عام تعطیل کا دن ہوتا ہے۔

اب مارٹن لوتھر کنگ کے چند اقوال، جو قطع نظر کسی کے مذہب و عقیدہ ہر انسان کے لیے مشعل راہ ہیں۔

زندگی کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آپ دوسروں کی مدد کے لیے کیا کر رہے ہیں۔

بے انصافی ہر جگہ انصاف کے لیے خطرہ ہے۔

اندھیرے کو صرف روشنی بھگا سکتی ہے۔

نفرت کو صرف محبت جیت سکتی ہے۔

کوئی درست کام کرنے کے لیے کسی دن یا وقت کا انتظار نہیں کیا جاتا اسے کسی بھی وقت شروع کیا جا سکتا ہے۔

The post ایک شہر کے تین رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2JTEDzU
via IFTTT

No comments:

Post a Comment