اس عالمی سامراجی غیر اعلانیہ، غیر تعلیمی ’’تھیوری‘‘ کو جاننے کے لیے آپ 17 ویں صدی کے شروع اور 19 ویں صدی کے دوران عالمی مالیاتی منظرنامہ دیکھیں تو 17 ویں صدی کے دوسرے عشرے کے دوران ایسٹ انڈیا کمپنی آزاد ہندوستان میں تجارتی مقاصد کے لیے داخل ہوئی ۔
تجارتی کوٹھیاں قائم کر کے ان کی حفاظت کے نام پر برطانوی فوجی انڈیا میں داخل کرتی گئی اور بتدریج غداروں کو خرید کر علاقوں پر قبضے کرتی گئی۔ لارڈ کلائیو نے 1765 سے 1767تک غدار وطن میر جعفر کے بعد اس کے بیٹے نجم الدولہ کو بہار و بنگال کا نواب مقررکر کے اس کے ساتھ دو انگریز افسر تعینات کیے جو نواب کو وصول ہونیوالے ٹیکسوں کی نگرانی کرتے تھے۔ ٹیکسوں میں سے کچھ حصہ نواب کو ملتا تھا ۔
باقی گورنر لارڈ کلائیو کے پاس آتا تھا۔ گورنر اس میں سے کچھ حصہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریز فوجیوں کو دے کر باقی تاج برطانیہ بھیج دیتا تھا۔ برطانوی سامراج نے سابقہ حکمرانوں کو غداروں کے ذریعے حاکمیت سے محروم کر کے ان کی جگہ 7 سوریاستوں کے حکمران غداروں کو مقررکر کے 1858 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نقاب اتار کر براہ راست تاج برطانیہ کی حکومت قائم کر لی۔ نئے نئے ادارے بناکر ان کے حاکم انگریز رکھے گئے۔ انگریز براہ راست حکومت کر رہے تھے عوام سے ٹیکس وصولیاں کرتے تھے۔
برطانوی حکومت نے ڈھاکہ کی نفیس عمدہ ململ کے برطانیہ میں داخلے کے وقت امپورٹ ڈیوٹی 80 فیصد کردی اور برطانوی ململ کے غلام انڈیا میں داخلے کے وقت امپورٹ ڈیوٹی نہایت کم کردی۔ برطانوی حکومت ڈھاکہ کی ململ کی صنعت کو روکنا چاہتی تھی۔اس کے باوجود برطانیہ میں ڈھاکہ کی ململ کی مانگ بڑھتی گئی۔ برطانوی سامراج نے ڈھاکہ کے کاریگروں کی انگلیاں اور ہاتھ قلم کر دیے تھے۔ برطانیہ انڈین عوام کا خون نچوڑتا رہا۔ کرہ ارض کے تین حصوں پر برطانوی حکومت قائم تھی۔ اٹھارہویں صدی کا صنعتی انقلاب جو تھامس نیوکومن (1663 سے 1729 تک) کے ایجاد کردہ بھاپ انجن سے شروع ہوا تھا تو بتدریج ترقی کرتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ جیمز واٹ نے اس سے بہتر انجن بنا لیا۔ بھاپ کھڈیوں، کپڑا بننے کی مشین ایجاد ہوگئی۔
رچرڈ ٹریوی کے بعد جارج اسٹیفن سن نے ریل گاڑی ایجاد کرلی۔ 1858 تک پورے یورپ میں ریلوں کا رواج شروع ہوچکا تھا۔ دست سازی (ہاتھ کھڈیوں) کی جگہ کارخانوں، کشتیوں کی جگہ دخانی جہازوں نے جگہ لے لی۔ خام مال یعنی کوئلے کی مانگ، دھاتوں، سوت کی مانگ بڑھتی گئی، سامراجی ملکوں کو منڈیوں کی ضرورت تھی جہاں صنعتی پیداوار کو زیادہ نفع پر کھپایا جاسکے۔ 1884میں جرمنی نے ٹوگولینڈ، کیمرون، جنوبی، مغربی اور مشرقی افریقہ، جزائر مارشل، نیوگنی، جزائر بسمارک میں جرمنی تجارتی کمپنیاں قائم کرکے 1890میں تمام علاقوں کو جرمن شاہی نوآبادیات میں شامل کرلیا تھا۔ 1872میں جرمنی کے شہنشاہ ولیم اول، روسی شہنشاہ زار، الیگزینڈر دوم، آسٹریا کے شہنشاہ فرانسس جوزف نے مل کر تین شہنشاہوں کا ’’مقدس اتحاد‘‘ قائم کرلیا تھا۔ 1881سے 1894 تک روس صنعتی ترقی کرچکا تھا۔ امریکا میں جرمنی، برطانیہ، فرانس نے سرمایہ کاری 1850 کے بعد بڑھادی تھی۔
امریکا میں صنعتی کلچر کے فروغ کے ساتھ ہی مزدوروں میں آزادی کی لہر بڑھتی گئی۔ امریکی شہر شکاگو میں 1886 میں مزدوروں نے سرمایہ داروں کے خلاف ہڑتال کردی۔ سرمایہ کار کی سرمایہ دارانہ شیطانی فطرت ہے کہ (۱) سستے سے سستا خام مال (۲) سستی سے سستی لیبر فورس (۳) زیادہ سے زیادہ کھپت (۴)کم سے کم سرمایہ کاری پر زیادہ سے زیادہ ’’نفع‘‘ حاصل ہو (۵)عوام خوشحال، یا معاشی بدحالی کی دلدل میں دھنستے جائیں اس سے اس کا تعلق نہیں ہوتا ہے۔ یہ بھی قانون فطرت ہے کہ جو معاشی و انتظامی سسٹم فطرت کے قوانین سے متصادم ہوتا ہے اس سسٹم کے خلاف شدید مزاحمت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری سے سرمایہ کار آئے روز دولت کے انبار اکٹھے کرتے گئے اور مزدور آئے روز غربت کے اندھیرے میں ڈوبتے گئے۔ جرمنی کے کارل مارکس نے مزدوروں میں آئے روز غربت کا نتیجہ سرپلس سرمایہ (قدر زائد) کو قرار دے کر سرپلس سرمائے کو مزدوروں کا حق قرار دیا۔
جیسے ایک سرمایہ کار ایک کروڑ ڈالر سے صنعتکاری کی ابتدا کرتا ہے، زمین، مشینری، خام مال اور مزدوروں کی محنت سے ایک کروڑ ڈالر کی جگہ 10 کروڑ ڈالر بنالیتا ہے۔ اس میں سے اگر اصل لاگت ایک کروڑ ڈالر نکال دیے جائیں تو باقی نو کروڑ ڈالر بچ جاتے ہیں۔ سرمایہ دار کے پاس اضافی نوکروڑ ڈالر مزدوروں کی محنت کے ہوتے ہیں۔ اس سرپلس سرمائے کے حصول کے لیے پورے یورپ میں مزدوروں میں انقلابی لہر بڑھتی گئی۔ تین شہنشاہوں کا ’’مقدس اتحاد‘‘ 1872 مزدوروں کے انقلاب کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔
کمیونسٹ مینی فسٹو 1848 میں شایع ہوا تھا۔ پورے یورپ میں صنعتی کلچرکے بڑھنے کے ساتھ اس کے غیر فطری عمل کے خلاف صنعتی ورکرز میں تحریک مزاحمت بڑھتی گئی۔ کارل مارکس کی تھیوری میں ایک بڑا نقص تھا کہ اس نے مزدوروں کو ملک کے دوسرے شہریوں یعنی عوام سے الگ کر دیا۔ میری رائے میں ایک صنعتکار صرف مزدوروں کا استحصال ہی نہیں کرتا بلکہ وہ غربت زدہ عوام جو یہ اشیا خریدتے ہیں۔ عوام کو بھی لوٹ کر ان کی قوت خریدکم کر دیتا ہے۔
اس طرح جوں جوں صنعتی کلچر پھیلتا گیا سرمایہ داروں، جاگیرداروں نے مل کر اپنے ایجاد کردہ جمہوری کلچرکو استعمال کر کے ملکوں کی حکومتوں پر قبضہ کرکے ایک طرف مزدوروں کو اپنا صنعتی غلام، ملک کے پورے عوام کو معاشی غلام بنایا ہوا ہے۔ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے مل کر ملکوں پر قبضے کیے ہوئے ہیں اور حکومتیں بناکر ملکی وسائل کو اپنے طبقے تک محدود کیا ہوا ہے اور تمام ملکی اداروں پر اشرافیہ کو بٹھایا ہوا ہے، ادارے ان کے تابع ہوتے ہیں۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔ ان قوانین پر عمل کرانے کے لیے فورسز ان کی غلامی میں ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ روسی (ولادی میر ایلیچ اولیانوف) لینن (10اپریل 1870 سے 22جنوری 1924) نے پورے یورپی ملکوں میں مزدوروں میں بیداری پیدا کردی تھی۔
لینن ایک ملک سے دوسرے ملک جاتا رہا اس پر پابندیاں بھی لگیں لیکن پہلی عالمی جنگ کے بعد 1920میں لیگ آف نیشنز نے پاسپورٹ سسٹم اور ویزا ریگولیشن جاری کر کے ملکوں کے درمیان آزادانہ آنے جانے پر پابندیاں لگا دی تھیں۔ اس طرح کارل مارکس کی تھیوری کے مطابق سرپلس سرمائے کے مالک مزدور اور حکومت کے مالک مزدور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے قابض ہوکر ملک چلاتے ہیں۔ اس نظریے نے پورے ملک کے عوام کی نفی کردی ہے۔ مزدور معاشرے سے کٹ گئے۔
پھر اشرافیہ نے آسانی سے مزدوروں کو دبوچ لیا۔ اس کے ساتھ ٹریڈ یونینز پر پابندیاں لگا دیں۔ 1964سے راقم مسلسل مزدور لیڈروں سے کہتا رہا کہ جب تم ہڑتال یا احتجاج کرتے ہو تو صرف تمہاری فیکٹری یا ادارے کے ورکرز ساتھ ہوتے ہیں۔ دوسرے ملوں، فیکٹریوں اور اداروں کے ورکرز تم سے لاتعلق ہوتے ہیں اور پھر اکثریتی عوام تم سے دور ہوتے ہیں۔ تم لوگ مزدور انقلاب کی بات کرتے ہو۔ مرحوم فرید اعوان میری بات سمجھ گیا تھا۔ منظور رضی، نبی احمد اور کئی دوسرے مزدور لیڈر انقلاب کے دعوے دار آج تک ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
حیدرآباد میں جام ساقی، رسول بخش پلیجو، غلام محمد لغاری، حفیظ قریشی، شمیم، اسحاق ایڈووکیٹ، عنایت کشمیری، ابن حیات پنہور ودیگر کئی انقلابیوں سے بار بار کہا کہ ’’عوامی معاشی آزادی ‘‘ کا انقلاب ملک کے عوام اور تمام مزدوروں تمام کسانوں کے ملاپ سے ممکن ہے۔ لیکن آج کے حالات جن کا تعلق عالمی تاریخ 1900 کے بعد سے ہے امریکی سامراج نے پوری دنیا کو بتدریج قبضے تلے کیا ہوا ہے۔ ان حالات میں ہر ملک کے عوام کو معاشی آزادی حاصل کرنے کے لیے سب کو مل کر جنگ معاشی آزادی لڑنا پڑے گی۔ معاشی آزادی کے بغیر عوامی خوشحالی ناممکن ہے۔ (جاری ہے)
The post کرنسی ڈی ویلیو ایشن تھیوری (حصہ اول) appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2X3LexX
via IFTTT
No comments:
Post a Comment