Saturday, June 1, 2019

زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے ایکسپریس اردو

کسی کے عروج و زوال کو دیکھنے یا پھر انسان کی اوقات جانچنے کا سب سے آسان طریقہ ’’ قبرستان‘‘ ہی ہے۔آدمی کی ویلیو اور اس کے حقیقی مقام کی نشاندہی بھی بلاشبہ یہیں ہوجاتی ہے اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت بھی ہے کہ اگرکسی بھی انسان کو اپنی موت یاد رہے تو اسے حاصل ہونے والی کوئی بھی کامرانی اسے مغرور اور تکبر والا نہیں بناسکتی، کوئی ناکامی اسے بے حوصلہ نہیں کرتی، کوئی خوشی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کرتی اورکوئی مایوسی نا امید نہیں کر پاتی۔

کبھی حافظے میں ’’لوح مزار‘‘ لاکر دیکھیں تو جی دنگ رہ جاتا ہے کہ ہر ایک سرکے ساتھ فقط سنگ ہی رہ گیا ہے۔ لیکن جن کے سروں میں مغزکی جگہ خناس بھرا ہو، انھیں سادہ سی باتیں بھی سمجھ میں نہیں آتیں اور جنھیں موت بھولی ہوئی ہو وہ یقینا زندگی کے آداب یاد نہیں رکھ سکتے۔

ہمارے آخری نبی اور شیر خدا دونوں کا ارشاد ہے کہ ’’انسانوں کو جیتے جی قبرستان ضرور جانا چاہیے فاتحہ خوانی ہی کے لیے نہیں بلکہ عبرت حاصل کرنے کے لیے بھی۔‘‘ اور واقعی یہ آفاقی سچائی ہے کہ بڑا نام صرف اللہ کا ہے اور اس کے سوا ہر چیز بہرطور فانی ہے اور خاک بسری میں ایک آسان سبق یہ بھی ملتا ہے کہ ہر عروج کے بعد زوال انسان کا مقدر بنتا ہے اور یہ بھی کہ جس نے ماں کی گود دیکھی وہ قبر کا منہ بھی دیکھے گا۔

کراچی کے سخی حسن اور پاپوش نگرکے قبرستان میں جانا ہو تو رئیس امروہوی، سید محمد تقی، جون ایلیا، مصور صادقین اور اقبال مہدی، اطہر نفیس، استاد امانت علی خان، صبا اکبر آبادی، احمد رشدی، تسلیم فاضلی، خواجہ معین الدین، محشر بدایونی، تمنا بیگم، مجیب عالم، ملک انوکھا، کارٹونسٹ جمشید انصاری، تابش دہلوی، سبط حسن، اقبال باہو، انور سولنگی اور پروفیسر غفور احمد محو خواب ملیں گے۔ طارق روڈ کے قبرستان میں میر خلیل الرحمن، گلشن اقبال قبرستان میں قاضی واجد، جمشید انصاری اور صہبا اختر۔ ملیرکینٹ قبرستان میں نیوز ریڈر شمیم اعجاز اور معین اختر، گلستان جوہر کے قبرستان میں کرکٹر تسلیم عارف۔ گذری قبرستان کے گیٹ نمبر دو پر چلے جائیں تو ہدایت کار ایس ایم یوسف، اداکار سلیم ناصر کی قبریں قرب و جوار میں ملتی ہیں اور یہیں ملکہ ترنم نور جہاں بھی پیوند خاک نظر آتی ہیں۔ شہنشاہ غزل مہدی حسن بھی کراچی کے کسی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

لاہور کا میانی صاحب قبرستان کراچی کے میوہ شاہ قبرستان جتنا قدیم اور انتہائی وسیع و عریض ہے اور اس میں اہل علم و فن کے ساتھ اداکاروں، مصنفوں، شاعروں اور ہدایت کاروں کی بھاری تعداد خاک بسر ملتی ہے جن میں سعادت حسن منٹو اور ساغر صدیقی جیسے نابغہ روزگار شخصیات بھی شامل ہیں اور اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان میں قدرت اللہ شہاب، کوثر نیازی، پروین شاکر اور احمد فراز کی قبریں دیکھ کر کون ہے جو اپنی اوقات میں نہ آجائے (خواہ لمحے بھر کے لیے ہی سہی) اسی قبرستان میں ایک بہت ہی شکستہ سی قبر ہے جس کے ٹوٹے پھوٹے کتبے پر نظریں پڑیں تو نگاہیں پتھرا جاتی ہیں، دماغ کو جھٹکا لگتا ہے شبیر حسن المعروف جوش ملیح آبادی۔ جی ہاں شاعر جذبات و انقلاب ’’یادوں کی برات‘‘ والے جوش ملیح آبادی جنھیں بھارت ’’پدمابھوشن‘‘ اور پاکستان ’’ہلال امتیاز‘‘ دے چکا ہے، جنھیں بھارت میں رکھنے کے لیے نہرو نے ترلے اور منتیں کیں۔

تاریخ عالم ایسے عبرت ناک نظاروں سے بھری پڑی ہے لیکن قبرستان سے واپسی پر ہی ہر انسان اسی فانی دنیاداری میں جت جاتا ہے جو اس کا عارضی پڑاؤ ہے جہاں اس کی تنی ہوئی گردن اور ماتھے پر شکن آلودگی کے ساتھ چہرے پر رعونیت صاف دکھائی پڑتی ہے۔ غورکیا جائے تو خاک سے بنے انسان کو اپنے آس پاس قدرت کی بے ثباتی کے نمونے مل جائیں گے جہاں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان دنیا کی طرح ہی فانی ہے اور مٹی کے بنے، اس کے جسم کو ایک روز مٹی میں ہی مل جانا ہے لیکن باوجود اس کے حضرت انسان اپنے غرور، تکبر اور بڑبولے پن کی حدوں کو چھونے میں مصروف ہے اور اسی زعم میں مبتلا ہے کہ خدا جانے اسے جو مقام یا عروج دیا ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گا۔

ہم نے صحافت اور فلم انڈسٹری کے دشت کی سیاہی میں بڑا طویل عرصہ گزارا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے سیکڑوں نامور لوگ اور ان کے خاندان بام عروج پر پہنچے اور پھر زوال کی گرد میں اٹ کر بے چہرہ ہوگئے۔ بیشتر تو آسمان کی بلندیوں سے گمنامی اور پستی کی گہرائیوں میں گر کر غائب بھی ہوگئے۔ ان کے بارے میں اب کوئی نہیں جانتا یا پھر کبھی کبھار کسی محفل یا نشست میں عبرت کے لیے ان کا تذکرہ سننے میں آجاتا ہے۔ بہر کیف ان گناہ گار آنکھوں نے ان گنت واقعات دیکھے، سنے یا پڑھے اور ہر لمحے خدا کی قدرت کا اور زیادہ احساس و ادراک ہوا۔

ہمیں اس بات پر فخر اور خوشی بھی ہے کہ ہمارے کچھ کرم فرما اور احباب نے ’’ لیجنڈ ‘‘ کی حیثیت بھی حاصل کی اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہی دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے پودے سے تناور درخت بن گئے۔ بلندی کی طرف ان کے سفر کا ہر لمحہ ہماری آنکھوں سے گزرا۔ یہ ایسی اپنائیت اور ایسا تعلق تھا جو کہ آکر دم تک قائم رہا۔ ہم نے انھیں چھوٹے سے بڑا اور پھر بہت بڑا ہوتے دیکھا، ان کی عظمتوں نے ہمارا سر فخر سے بلند کردیا۔ بعض اوقات تو خود لکھتے ہوئے یقین نہیں آتا کہ ایسے لوگ کبھی تھے اور ایسے واقعات واقعی کبھی رونما ہوئے بھی تھے۔ تو پھر آج کی نسلوں کوکیوں کر آسانی سے یقین آئے گا؟

ان دنوں میں ہم میں سے کسی کو بھی گمان نہ تھا کہ کسی دور میں یہ سب شہرت کے آسمان پر آفتاب اور ماہتاب بن کر جگمگائیں گے اور غیر معمولی شہرت حاصل کرلیں گے۔ فلم ہو، علم و ادب ہو، فنون ہنرکا کوئی بھی شعبہ ہو یا پھر صحافت کا درخشاں دور سب کا سب اب خواب و خیال ہوچکا ہے۔ بلند و بالا اور اپنے شعبوں میں چمکنے والی شخصیات جن کے کارنامے کبھی فراموش نہیں کیے جاسکیں گے اور ایسی ہستیاں شاید دوبارہ دیکھنے کو بھی نہیں ملیں گی۔

خواب تھا جوکہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ نامور ہو یا گمنام سبھی کو اپنی اپنی باری پر مٹی میں مل کر مٹی کا رزق بننا ہے اور جو ابھی دنیاوی چکاچوند میں موجود ہیں وہ بھی ایک نہ ایک دن اپنی لحد کا اندھیرا ضرور دیکھیں گے کہ یہی مشیت ایزدی ہے۔ بشر خواہ ذرہ ہو یا اپنے شعبے وفن میں ’’دُرِ یکتا‘‘ ہو وہ خاک بسر ہی ہوجائے گا۔ یہ زمین آسمان کی ہی طرح حد نگاہ بہت ہی وسیع و عریض ہے ہماری سوچوں اور نگاہوں سے بھی زیادہ بڑی لیکن یہ آسمان کو ایک نہ ایک دن کھا ہی جاتی ہے۔

The post زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2QAQYcC
via IFTTT

No comments:

Post a Comment