ہم کشمیرکے معاملے پر امریکا سے یکساں پالیسی کی توقع رکھتے ہیں۔ خطے میں امریکاکا بھارت کو اہمیت دینے کا طرزعمل غلطی پر مبنی ہے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے ایک جرمن جریدے ڈئراشپیگل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا ہے۔ ان کے خیالات مسئلہ کشمیرکے حوالے سے صائب اور دنیا کی توجہ مسئلے کے حل کی جانب مبذول کروانے کی مخلصانہ کوشش ہے۔
دنیا کشمیرکی سچائی سے منہ موڑنا بھی چاہے تو نہیں موڑسکتی، یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق حل کا تاحال منتظر ہے، دنیا اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتی کہ بھارتی انتظامیہ نے کشمیریوں کا تشخص مٹانے کی مذموم کوشش کی ، ان کا جھنڈا چھینا ، ان کی شناخت ختم کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا اور ریاست جموں وکشمیر کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے۔
کشمیری آج بھی بھارتی فوج کے ہاتھوں بدترین مظالم کا شکار اور انصاف کے منتظر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے جسے بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کی سرکار نے بھارت کے اندر مستقل حیثیت سے ضم کرنے کی سازش کی ہے، جسے کشمیریوں اور پاکستان نے مسترد کیا ہے ۔ ایک سال گزرنے کے باوجود آج بھی مقبوضہ کشمیر میں کمیونیکیشن بلیک آؤٹ جاری اور بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں۔
بھارت یوں تو اٹوٹ انگ کی رٹ لگاتا ہے، لیکن کشمیریوں پر مظالم کے لیے اس نے مقبوضہ کشمیر میں آٹھ سے دس لاکھ تک کی فوج رکھی ہوئی ہے۔کشمیری آج بھی اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے مظالم برداشت کررہے ہیں۔
آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے تحت فوجیوں کو کشمیریوں کوگولی مارنے اور انھیں بغیر وارنٹ کے گرفتارکرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کشمیریوں پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، کیونکہ وہ خود کو قانون وآئین سے ماورا سمجھتے ہیں۔ اسی تناظر میں یہ بات بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ کشمیر کے بارے میں جو ہمارا موقف ہے، وہی اقوام متحدہ کا بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کے انسداد دہشتگردی کے قانون انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق نہیں ہیں۔
عدالت سے ماورا ہلاکتوں، اغوا اور غیر قانونی کارروائیوں کے بارے میں بھارت سے بار بار جوابات طلب کیے گئے ہیں لیکن وہ کوئی جواب دینے میں ناکام رہا۔ عالمی برادری مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریاستی دہشت گردی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہندو بھارتی سول اور فوجی اہلکاروںکے خلاف قانونی کارروائی میں تامل کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ یہ رپورٹ اس بات پر مہرتصدیق ثبت کرتی ہے کہ کشمیری مسلمان بھارت کے بدترین مظالم کا شکار ہیں۔
جرمن جریدے ڈئر اشپیگل سے دوران گفتگو وزیراعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کا جارحانہ رویہ چین، بنگلہ دیش، سری لنکا اور پاکستان کے لیے خطرہ ہے،اس کے رویے کی وجہ سے خطے میں کشیدگی کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ بھارت نازی فلسفے پر چلنے والی ایک فاشسٹ ریاست ہے جوہمسایہ ملکوں کو دھمکیاں دیتی رہتی ہے لیکن امریکا، چین کی وجہ سے اسے اہمیت دے رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے انتہائی واضح اور دوٹوک الفاظ میں بھارت کی فاشسٹ اور دہشت گرد ریاست ہونے کا پردہ چاک کیا ہے،کیونکہ وہ کشمیرکا مقدمہ اقوام عالم کے سامنے لڑرہے ہیں۔
اسی موضوع پر امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ میں شایع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیموں کو علاقائی مفادات حاصل کرنے کے لیے کئی بار استعمال کیا ہے۔ ترکی میں کلب پر حملہ، جلال آباد جیل، نیو یارک اور اسٹاک ہوم میں متعدد حملے بھارت کے ایما پر ہوئے ہیں۔ جریدے کے مطابق بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنا حامی دہشت گروپ لانچ کر رکھا ہے۔
بھارت داخلی لحاظ سے کئی طرح کی توڑ پھوڑ سے گزر رہا ہے، کوئی غیر ہندوآبادی انتہا پسندوں کے حملوں سے محفوظ نہیں، بھارت کو مودی حکومت اس مقام پر لے گئی ہے جہاں داخلی مزاحمت اورعالمی خدشات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ امریکی جریدے میں شایع ہونیوالے ان حقائق کوکیا امریکا صرف اس لیے نظر اندازکررہا ہے کہ وہ چین کے مقابلے میں بھارت کو طاقت ور بنانا چاہتا ہے، پھر تو وزیراعظم پاکستان نے جس بات کی نشاندہی کی ہے وہ سو فی صد درست ہے ، امریکا جو دنیا کی واحد سپر پاور ہے ،جس کا آئین وقانون بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کا تقاضا کرتا ہے تو کیا امریکی صدر ٹرمپ اپنے ہی حلف سے انحراف کررہے ہیں اور امریکی حکومت، پاکستان کے ساتھ نا انصافی کررہی ہے۔ یہ مفادات پرستانہ سوچ پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرنا کی کوشش ہے۔
اسی پس منظر میں حالیہ برس جولائی میں پاکستان نے دہشت گردی کے بھارتی الزامات کے جواب میں اقوام متحدہ کو بتایا تھاکہ جنوبی ایشیاء کے خطے میں بھارت وہ ملک ہے جہاں پرہندو قوم پرست حکمران بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا ارتکاب اور اس کی بھرپور سر پرستی کرتے ہیں۔ بھارت نے دہشت گردی کو اپنے ہر ہمسایہ ملک اورخود اس کی اپنی مسلم آبادی کے خلاف جبری پالیسیوں کے آلہ کارکے طور پر استعمال کیا ہے۔
بھارت کم سے کم چار مختلف اقسام کی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ان بھارتی سول اور فوجی اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی ضرورت ہے جنھوں نے کشمیر میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔5 اگست 2019 سے وادی میں80 لاکھ کشمیریوں کے لاک ڈاؤن کے بعد اور تمام سیاسی رہنماؤں کی قید سے بھارت کی ریاستی دہشتگردی میں شدت آگئی ہے۔ اجتماعی سزاؤں سے اور 13000کشمیری نوجوانوں کو اغوا اور تشدد کرکے ان کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا جب کہ پرامن مظاہرین کے خلاف وحشیانہ طاقت استعمال کی گئی ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں، جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کوکشمیر سے اول تو دور رکھا جا رہا ہے یا اگر اجازت دی بھی جا رہی ہے تو چند مخصوص علاقوں تک ہی میڈیا کی رسائی ہے، ان علاقوں تک جانے ہی نہیں دیا جا رہا جہاں یہ سفاک گورنمنٹ اپنی فوج کے ساتھ آگ و خون کا کھیل کھیل رہی ہے۔ اس وقت ان مظلوم کشمیریوں کی داد رسی کرنے والا یا مددگار کوئی نہیں سوائے خدا کی ذات کے۔اس کے بعد کچھ قصور اپنوں کا بھی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا نائن الیون حملے سے کوئی تعلق نہیں،القاعدہ افغانستان میں تھی،پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 70 ہزار سے زائد جانیں گنوائی ہیں، ہماری صرف دلچسپی اس امر میں ہے کہ افغانستان میں جو بھی نئی حکومت آئے اس پر بھارت کا اثر و رسوخ نہ ہو تاکہ ہمسایہ ملک کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو سکے۔
دنیا جانتی ہے کہ بھارت موجودہ دورکا سب سے بڑا دہشتگرد ملک ہے، کشمیر میں براہ راست دہشتگردی دہائیوں سے جاری ہے جسے دنیا دیکھ رہی ہے لیکن کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ بے بس ہے، یورپی یونین اور دیگر تمام عالمی تنظیمیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ عالمی تنظیموں کی خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہاں غیر مسلم طاقت میں ہیں۔
ان کا قبضہ ہے لیکن کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر مسلم امہ کی بے حسی سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اس مسئلے پر ترکی اور ملائیشیا کی طرف سے مذمت کی جاتی ہے ان کے علاوہ شاید ہی کسی مسلم ملک نے بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کی ہو۔ صرف پاکستان ہر سطح پرکشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتا اور مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے کے لیے اقدامات کرتا ہے۔ افواجِ پاکستان کی کشمیر کے ساتھ محبت، لگاؤ اور جذباتی وابستگی غیرمشروط ہے۔ افواجِ پاکستان کا موقف ہے کہ کشمیر خون کی طرح ہماری رگوں میں دوڑتا ہے۔
لائن آف کنٹرول پر بھارتی کارروائیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ہزاروں نہتے، بے گناہ اور معصوم پاکستانی اب تک بھارتی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان کارروائیوں کے باوجود پاکستان نے امن پسند ملک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے حقائق دنیا کے سامنے رکھے لیکن بھارت کی بڑی مارکیٹ اور مالی مفادات کے پیش نظر دنیا نے مصلحتاً خاموشی اختیارکی ہے حتیٰ کہ مسلم ممالک نے بھی بھارت کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر آواز بلند کرنے کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دی ہے۔بھارت پر انتہا پسند جماعت بے جی پی کی حکومت ہے وہ ہر طرف ہندوؤں کو دیکھنے کی خواہش مند ہے۔ وہ ہندوتوا کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔ نریندر مودی کی موجودگی میں بھارت سے کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔
بھارت کی ریاستی دہشت گردی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی جائز اور قانونی جدوجہد کو نقصان پہنچانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے بھارتی حکومت کے دہشت گردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا ہے۔دنیا کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے بصورت دیگر مظلوم اور استحصال کا شکار اقوام اپنے تحفظ کی خاطر مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر سکتی ہیں۔
حرف آخر، اگر یہ سب ظلم و جبرکشمیریوں پر اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ حقِ خود ارادیت مانگتے ہیں تو اقوامِ متحدہ ان مظالم پرکیوں خاموش ہے؟ انسانی حقوق کے دعویدارکہاں ہیں؟ ان تمام سوالوں کا جواب کشمیرکی آزادی سے جڑا ہے۔انشاء اللہ وہ سحر جلد طلوع ہونے والی ہے، جس میں کشمیریوں کے لیے آزادی کی نوید ہوگی۔
The post امریکا بھارت گٹھ جوڑ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3oJs7Ep
via IFTTT
No comments:
Post a Comment