اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آیندہ 2 ماہ کے لیے شرح سود 7 فیصدکی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس پیرکو منعقد ہوا جس میں افراط زر اور پاکستان کی معیشت پر کورونا وبا کے عالمی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان جاری کرتے ہوئے کہا کہ معیشت میں بہتری آ رہی ہے۔ غذائی اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا، رواں مالی سال مہنگائی کی شرح ہدف کے مطابق رہے گی۔ ملکی معیشت کی بحالی کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے، کاروباری احساسات مزید بہتر ہوئے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ معیشت کی بہتری کے اشاریئے مثبت اور مارکیٹ میکنزم میں پیشرفت کی عکاسی کرتے ہیں مگر اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹھوس زمینی حقائق مائیکرو ترقی کی عکاسی کی بہتر ترجمانی بھی اسی صورت میں کر سکیں گے کہ عوام کو جمہوری اور اقتصادی ثمرات یا ٹریکل ڈاؤن اثرات سامنے نظر آئیں، کوئی اب اعلامیوں، شماریاتی انڈیکس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے سرکاری چارٹ کا اعتبار نہیں کرے گا، کہا تو جاتا ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز میں چینی، آٹے اور دیگر اشیاء کی قیمتیں سرکاری چارٹ کے مطابق فروخت کی جا رہی ہیں لیکن عوامی سروے کچھ اورکہانی سناتے ہیں۔
عوام کو ہر چیز مہنگی ملتی ہے، دکاندار، تاجر اور آڑھتی کے پاس اپنی قیمتیں ہیں، ان کی وضاحتیں الگ ہیں، ایک سبزی فروش بھی اس بات پر تیار نہیں کہ مٹر مہنگا بک رہا ہے یا پیاز، ادرک، لہسن، ساگ، اچار، چائے، بیسن، دودھ، دہی اور پھل عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ کوئی ایسی معتبر اتھارٹی نہیں کہ صارف اس سے رابطہ کرے اور مہنگائی کی حقیقت اس سے بیان کرے، ایک عجیب سی بے بسی اور ناقابل یقین من مانی کا دور دورہ ہے۔
مہنگائی کے ستائے بزرگ عوام کا کہنا ہے کہ ان کی عمریں گزر گئیں، سبزی،گوشت اور پھل خریدنے میں، مگرکوئی ایسا دور نہیں دیکھا کہ عام اشیا کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہوں، ارباب اختیار مائیکرو اکنامک میکنزم اور ترقی وخوشحالی کا واقعاتی حوالہ اور اعداد وشمارکا جنگل صارف کو نہ دکھائیں، ایک عام مزدور اور غریب خاندان کو سستی روٹی، سستا تیل اورکم قیمت پر اشیائے خور و نوش درکار ہیں، ان کا بجٹ محدود ہے، ریلیف نام کی کوئی چیز غریب آدمی کو میسر نہیں، ایک ذہنی دباؤ ہے جو بے مول ہے اور مزدور طبقہ اس میں پستا چلاجا رہا ہے۔
غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، بھکاریوں کے پاس اربوں کا بیلنس مل رہا ہے، یہ صورتحال اقتصادی مسیحاؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے، معاشی مسائل نے عوام کے مستقبل کو بقول شاعر سوالیہ نشان بنا لیا ہے۔
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفوکیا ہے
دوسری طرف کورونا کی دوسری لہر پاکستان کی معاشی نمو میں کمی کے خاصے خطرات کو سامنے لا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مہنگائی کھانے پینے کی اشیا کی رسدکے دباؤ کا نتیجہ ہے جو عارضی ہو گا۔ رواں مالی سال مہنگائی 7 سے 9 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ مہنگائی اور معاشی نمو دونوں کے منظر نامے کو لاحق خطرات متوازن محسوس ہوتے ہیں۔
نمو کو بڑھانے کے لیے وبا کے دوران دی گئی نمایاں مالیاتی، زری اور قرضہ جاتی تحریک (stimulus)جاری رکھی جائے گی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال21ء کی پہلی سہ ماہی میں جلد فروخت ہونے والی صارفی اشیا کی فروخت بحال ہوئی، پیٹرولیم مصنوعات اور گاڑیوں کی اوسط فروخت کا حجم مالی سال20ء میں کورونا کی وبا سے پہلے کی سطح سے بڑھ چکا ہے۔
سیمنٹ کی فروخت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) میں بحالی کا عمل جاری ہے اور مالی سال21ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران اس میں 4.8 فیصد سال بہ سال توسیع ہوئی۔ گزشتہ برس بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اسی سہ ماہی میں 5.5 فیصد سکڑاؤ دیکھا گیا۔کووڈ وبا کے اثرات کوکم کرنے کے لیے حکومت کی فراہم کردہ تحریک، پالیسی ریٹ میں کٹوتیوں اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے بروقت اقدامات سے بحالی میں مدد مل رہی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق جاری کھاتے میں خاصی فاضل رقم اور معیشت کے بہتر ہوتے امکانات اور احساسات کی بدولت ایم پی سی کے گزشتہ اجلاس کے بعد پاکستانی روپے کی قدر میں ساڑھے 3 فیصد اضافے میں مدد ملی اور بیرونی بفرز مزید مضبوط ہوئے جس سے اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر12.9ارب ڈالر تک پہنچ گئے جو فروری2018 کے بعد سے بلند ترین سطح ہے۔ اب تک کی کارکردگی کی بنیاد پر بیرونی شعبے کے امکانات میں مزید بہتری آئی ہے اور مالی سال21 کے لیے جاری کھاتے کا خسارہ اب جی ڈی پی کے2 فیصد سے کم رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق مجموعی مالی حالات مناسب اور سازگار رہے جس میں پیش بینی کی بنیاد پر حقیقی پالیسی ریٹ تھوڑا سا منفی رہا۔ اگرچہ نجی شعبے کے قرضوں کی نمو سال بہ سال بنیاد پر معتدل رہی، تاہم اس کی ماہ بہ ماہ نموکورونا وائرس سے پہلے کے رجحانات کی جانب گامزن ہے۔ آیندہ چند ماہ میں ان اقدامات کے ساتھ ساتھ موافق سیاسی اثر اور معیشت کی اضافی گنجائش کی بدولت مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملنی چاہیے۔
دنیا میں اقتصادی ترقی پر وہاں کے ملکوں کی نگاہ مرکوز ہے، حکمراں عوام کو ریلیف دے رہے ہیں، متحدہ عرب امارات نے غیر ملکیوں کی سرمایہ کاری کے لیے بہت سی پابندیوں میں نرمی پیدا کرتے ہوئے کمپنیوں کی ملکیت کے دائرہ کار میں توسیع کر دی ہے۔ اس کا اعلان یو اے ای کے سرکاری میڈیا نے کیا ہے۔ امارات نے اپنے سرمایہ کاری کے قوانین میں کورونا کی ہلاکت خیز وبا کے پیش نظر تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ کووڈ 19کی وجہ سے ملک کی معیشت بہت دباؤ میں آگئی ہے۔
گو یہ اثرات ایک لحاظ سے عالم گیر ہیں جس کا اثر اس صحرائی ریاست کے عوام بھی محسوس کر رہے ہیں اور حکومت اپنے عوام کو ریلیف دینے کے لیے مختلف اقدامات کرنے پر غور و فکرکر رہی ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں یو اے ای نے بھی اپنے نظام انصاف میں تبدیلیوں کا اعلان کیا تھا نیز خواتین کو بھی اس قدامت پسند معاشرہ میں زیادہ آسانیاں دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل مملکت سعودی عرب نے پہلی مرتبہ خواتین کوگاڑی چلانے کی اجازت دینے کا انقلاب انگیز فیصلہ کر لیا تھا۔
یو اے ای نے خواتین کی حفاظت اور تحفظ کے زیادہ بہتر انتظامات کرلیے ہیں جس سے نسوانیت کے حامی حلقوں نے بہت خوشی کا اظہارکیا۔ یو اے ای میں اگلے برس ورلڈ ایکسپو میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے دوکروڑ پچاس لاکھ وزیٹرزکی آمد متوقع ہے جن کو حکومت ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے تیاریوں کو حتمی شکل دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ واضح رہے یو اے ای کی حکومت ورلڈ ایکسپوکوکامیاب بنانے کے لیے بے تحاشا اخراجات اور غیر معمولی انتظامات کر رہی ہے۔ امارات کی حکومت کو توقع ہے کہ اسرائیل بھی اس حوالے سے ان کے ساتھ تعاون کرے گا،کیونکہ اب اس صیہونی ریاست کے لیے عالم عرب کے دروازے رفتہ رفتہ کھل رہے ہیں جو کہ اسرائیل کی جادوگری کا ثبوت ہے۔
دوسری طرف پاکستان اور دیگر ممالک میںاسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے پرگرما گرم بحث ہو رہی ہے، دونوں طرف کے دلائل دیے جا رہے ہیں، یاران مجلس حق اور مخالفت میں معاملے کے ہر پہلوکو کھنگالنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور متعلقہ حقائق کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عرب ممالک کے رویوں کی جانچ پرکھ کی جا رہی ہے، فلسطینیوں کی حالت زارکا تفصیل سے نقشہ کھینچا جا رہا ہے، امریکا اسرائیل تعلقات کی بنیادوں پر سیر حاصل گفتگو ہو رہی ہے، پاکستان کی نظریاتی اساس کو یہودی ریاست کو تسلیم کرنے پرکیا زک پہنچ سکتی ہے اس پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔ جب آپ کسی مسئلے پر درمیان میںاٹکے ہوتے ہیں تو قومی سطح پر بحث ومباحثہ کروانا بہترین عمل ہوتا ہے۔
اس سے ایک تو آپ کو عوامی رائے کا اندازہ ہوتا ہے، دوسرا مسئلے کو حل کرنے کے لیے آپ کے سامنے کئی تجاویزآجاتی ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار اپنے ورلڈ وژن کو خطے سمیت عالمی منظرنامہ سے جوڑنے کی کوشش کریں، ملک میں ہر شہری کو زندگی اچھی لگنی چاہیے۔
اسے اپنا اور ملک کا معاشی منظر نامہ دلکش اور امید افزا دکھائی دینا چاہیے۔ خیال رہیعالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنے ایک بلاگ میں کہا ہے کہ موجودہ معاشی مسائل اورکورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے ترسیلات زر وصول کرنے والے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے ممالک میں غربت کی شرح میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ترسیلات زر وصول کرنے والے دیگر ممالک کی طرح پاکستان، مصر اور ازبکستان میں 13 لاکھ افراد رواں سال 2020 کے اختتام تک غریب افرادکی فہرست میں شامل ہونے کا اندیشہ ہے۔
ان ہوشربا معروضات اوردرد انگیزحقائق کے چشم کشا ہونے میں کوئی شک نہیں، لہذا حکمران تیزی سے بدلنے والی دنیا کے ہمرکاب ہوں اور عوام کو ریلیف دیں، ان کے صبرکا پیمانہ لبریز ہونے سے پہلے معاشی ثمرات کو یقینی بنائیں، اسی میں ملک وعوام کا فائدہ ہے۔
The post معیشت اور عوامی ریلیف appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fAUWyp
via IFTTT
No comments:
Post a Comment