حسن ناصر کی شہادت نے بائیں بازو کے ہر کارکن کو ہلا کر رکھ دیا، سیف خالد بھی اس سے متاثر ہوئے۔
افضل حسن رندھاوا نے مصنف کو بتایا کہ حسن ناصرکی شہادت کی خبر سن کر سیف خالد ضلع کچہری میں مزاحمت کی قرارداد لے کر چلے لیکن اکثر وکلاء نے دستخط کرنے سے معذوری ظاہرکی۔ جب وہ کچھ دستخط حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو کوئی اخبار اسے چھاپنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سیف خالد نے لاہور کا رخ کیا۔ وہاں حسن ناصر کی شہادت کی تحقیقات کے مقدمہ میں میجر اسحاق کی مدد کرنے لگے۔ احمد سلیم نے کتاب میں کراچی سے شہر بدر ہونے والے طالبعلم رہنماؤں کا ذکر کیا ہے ۔
یہ رہنما یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف تحریک چلانے پرکراچی بدر ہوئے۔ حیدرآباد، سکھر اور ملتان میں ہنگامے کرکے نکلے تو سیدھا لائلپورکا رخ کیا اور سیف خالد کے گھر یلغارکی، کل آٹھ لڑکے تھے۔ ان کی اہلیہ شمیم خالد نے رات گئے آلو کے پراٹھے بنا کرکھلائے۔
لائلپور میں جلسے جلوس کے صرف 33 روز بعد کراچی واپس آئے۔ اس بار ہم نے سیف پر زیادہ بوجھ ڈالا تھا۔ بقول ایک رہنما کے میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ سیف کا دسترخوان بہت وسیع تھا اور زندگی بھر اسی طرح وسیع رہا۔ احمد سلیم لکھتے ہیں کہ 1964کے دوران نیپ کے حلقوں میں روس اور چین کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ایوب خان کو میدان سے باہر کرنے کے لیے مضبوط امیدوار کی ضرور تھی، بالآخر فاطمہ جناح کے نام پر اتفاق کیا گیا۔ سیف خالد نے بڑھ چڑھ کر مادر ملت کے حق میں کام کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تمام عرصہ میں مولانا بھاشانی اپنے آشرم سے باہر نہ نکلے، ان پر ایوب خان کی حمایت سمیت طرح طرح کے الزامات لگے۔ 1963 میں وہ لائلپور واپس آگئے۔ کاروبار کی طرف رجوع کیا۔ انھوں نے عبدالرزاق اور میاں زاہد سرفراز کے ساتھ شراکت کی اور جوتوں کا کاروبارکیا۔ سیف خالد کے صاحبزادے ندیم خالد مزید بتاتے ہیں کہ ان کے والد بنیادی طور پر کاروبار کے آدمی نہیں تھے۔
سیاست ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ سیف کی اہلیہ نے روسی ٹیلی وژن کا کاروبار شروع کیا۔ آئی اے رحمن کی رائے ہے کہ سیف خالد کاروباری ذہنیت کے حامل نہیں تھے۔ سوویت یونین سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ سیف کے ہاتھ میں کوئی کتاب و رسالہ ضرور ہوتا تھا۔
60ء کی دھائی میں قیام لاہور میں ان کی نقی بلڈنگ میں کارکنوں کا ہجوم رہا کرتا تھا۔ بہت سے سیاسی کارکن اور دانشور شامل تھے۔ رحمن صاحب کاکہنا ہے کہ یہ سب لوگ مجھے لیفٹ کے بارڈر پر سمجھتے تھے اور میں اس سے مطمئن تھا۔ مصنف نے چوتھے باب کا عنوان نیشنل عوامی پارٹی تنظیم کاری سے دھڑے بند تک رکھا ہے۔
1964میں لاہور اور کراچی نیپ کی سرگرمیوں کے بڑے مراکز تھے۔ جولائی 1965 میں مغربی پاکستان نیشنل عوامی پارٹی نے آزادئ جمہوریت اور سوشل ازم کے بارے میں اہم فیصلے کیے۔ کمیونسٹ پارٹی کو پنجاب میں کھڑا کرنے میں سیف خالد نے اہم کردار ادا کیا۔ پھر بھٹو اور پاکستان کے جنگ باز حلقوں نے یہ منفی پروپیگنڈہ کیا کہ میدان میں جیتی ہوئی جنگ تاشقندکی میز پر ہاردی گئی۔ اس سلسلہ میں کسی خفیہ شق کا بھی ذکر کیا گیا جسے بھٹو نے اپنے پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کیا۔ لیکن وہ زندگی بھر اس خفیہ شق کو قوم کے سامنے نہ لاسکے۔
احمد سلیم لکھتے ہیں کہ معاہدہ تاشقند کے ایک ماہ بعد 5 فروری 1966 کو لاہور میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے دو روزہ سیمینار میں عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن نے 6 نکات کا اعلان کیا جس نے جلد ہی پاکستان کی سیاست پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ مصنف نے 1966 میں غوث بخش بزنجو کے کراچی سے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا تفصیلی ذکرکیا ہے جو انتہائی معلوماتی ہے۔ مسلم لیگ کے رہنما محمود ہارون کی حمایت سے غوث بخش بزنجو اس انتخاب میں کامیاب ہوئے، پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعد کوئٹہ چلے گئے۔
احمد سلیم نے مزید لکھا ہے کہ 1965 کی جنگ کے بعد پنجاب کے کمیونسٹ چین نواز ہوگئے۔ اس دوران کمیونسٹ پارٹی سندھ اور مشرقی پاکستان میں پارٹی کے درمیان ایک معاہدہ ہوگیا۔ اس عمل میں جمال نقوی، نازش امروہی اور سندھ کے دیگر کمیونسٹ حضرات قومی سطح پر مشرقی پاکستان کی پارٹی کے معاون سے ابھر کر سامنے آئے۔ امام علی نازش کو آرگنائزنگ کمیٹی کا جنرل سیکریٹری مقررکیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے کمیونسٹ مونی سنگھ کے مشورہ پر غوث بخش بزنجو اورگل خان نصیرکو نئی آرگنائزنگ کمیٹی میں بلوچستان کے نمائندوں کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔
نازش امروہوی زیر زمین رہے تو اصل جماعت جمال نقوی کے پاس رہی۔ جمال نقوی کے غلط رویہ کے باعث پارٹی کے فعال کارکنوں نے علیحدگی اختیارکر لی۔ احمد سلیم پانچویں باب ’’آمریت سے آمریت تک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ لائلپور ایوب مخالف تحریک میں کسی سے پیچھے نہ تھا۔ صرف نیپ ولی گروپ ایوب مخالفت میں آگے آگے تھی۔ ان کے صاحبزادے ندیم اپنی یادوں کو کھنگالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ میرے والد ایک جلوس کی قیادت کررہے تھے، پولیس نے جلوس کو منتشرکرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔
میرے والد سمیت سیکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ ایک دفعہ ولی خان ایک بڑے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے لائلپور آئے، ان کے جلوس کا اختتام ہمارے گھر پر ہوا۔ پیپلز پارٹی کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے احمد سلیم لکھتے ہیں کہ میاں محمود علی قصوری لاہور سے تشریف لائے۔ ان کے پاس سیف خالد کے لائلپور کی کسی مرکزی سیٹ سے ایم این اے کا انتخاب لڑنے کی آفر تھی۔ میاں محمود قصوری کی یہ سوچ تھی کہ سیف خاندان سے ذہنی طور پر قریب تھے، سیف خالد نے منع کردیا۔
کمیونسٹ پارٹی نے اپنے کارکنوں کو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے سے روک دیا تھا۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کے تنازعہ کا مصنف نے خاصا ذکر کیا ہے۔ بھٹو دور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نواز بٹ 1972 میں کراچی پارٹی کے سیکریٹری تھے۔ ان ہی دنوں بزنجو نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ امیر الملک مینگل پارٹی کی بلوچستان کمیٹی کے سیکریٹری جنرل تھے۔ انھوں نے کمیٹی کا اجلاس بلا کر بزنجو کی پیپلز پارٹی سے اتحاد ی حکومت بنانے کے خلاف قرارداد پیش کی۔ اجلاس میں نواز بٹ بھی موجود تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اب قرارداد پاس ہوگئی جس پر میر بزنجو نے کہا کہ ایسا کرو مجھے نیپ کا سیکریٹری جنرل بنادو۔ میں گورنری سے کل ہی استعفیٰ دیتا ہوں۔ کمیونسٹوں نے اجمل خٹک کو سیکریٹری جنرل بنانے کا فیصلہ کیا۔ بقول نواز بٹ بعد میں پتہ چلا کہ میر بزنجو جو بات کررہے تھے وہ بہت اہم تھی۔ احمد سلیم نے 1973کے آئین کی منظوری کے پس پردہ واقعات بیان کیے ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی پر بھٹو حکومت نے پابندی لگائی تو سیف خالد اور نواز بٹ نے این ڈی پی کے قیام میں سرتوڑ کوشش کی تھی۔ سیف خالد تو نظریاتی کجروی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔
وہ سوشل ازم اور سیکیولرازم کے معاملہ پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن وہ پارٹی کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرنے کے حق میں تھے۔ ولی خان کے اشارہ پر بیگم نسیم ولی خان اور شیرباز مزاری پی این اے میں شامل ہوچکے تھے۔ سیف کا مؤقف تھا کہ علیحدہ پارٹی نہیں بنانی چاہیے کیونکہ اس سے وہ تنہائی کا شکار ہوجائے گی۔ سیف خالد کے بھتیجے شہباز اقبال کا کہنا ہے کہ چاچا (سیف) کا مؤقف تھا کہ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعد نیپ نے جمہوری جدوجہد کو آگے بڑھایا تھا۔
جب این ڈی پی سے نکل کر نیشنل پروگریسو پارٹی بنی اور چاچا سیف کو اس کا سربراہ بنایا گیا تو یہ فیصلہ ان کی زندگی کا انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ اس دوران مزدور کسان پارٹی کی کانفرنس لائلپور میں سیف کے گھر پر منعقد ہوئی حالانکہ روسی چینی جھگڑے کے وقت سے سیف اور میجر اسحاق میں سیاسی دوری رہی لیکن ذاتی دوستی ویسے ہی برقرار تھی۔ احمد سلیم نے کمیونسٹ پارٹی کی دوسری کانگریس کی روداد بھی لکھی ہے۔ پارٹی کی زیرزمین سرگرمیوں میں اس اعتبار سے کامیاب ترین تھی کہ تین روز تک جاری رہنے والی پارٹی کانگریس کی گئی تو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
یہ کانگریس فیڈرل بی ایریا کراچی میں عبدالوحید کے گھر پر ہوئی۔ کانگریس کو خفیہ رکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا تھا، حتیٰ کہ اس بلڈنگ کے اوپر والے حصہ میں منصور سعید رہتے تھے انھیں بھی اس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ سیف خالد کی زندگی کا آخری اہم واقعہ تھا۔ پھر وہ بیمار پڑگئے۔ سیف خالد نے اپنی مختصر زندگی میں بھرپور نظریاتی ورثہ چھوڑا۔ دنیاوی کاروبار میں وہ بری طرح ناکام رہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ احمد سلیم نے سیف خالد کی زندگی کے واقعات کو تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کیا ہے جو نہ صرف ایک سوانح عمری ہے بلکہ تاریخ کی بھی ایک مستند کتاب بن گئی ہے۔
The post جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا (دوسرا اورآخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/37cVOW6
via IFTTT
No comments:
Post a Comment