انتہائی قلیل تعداد میں چند خوش نصیبوں کو چھوڑ کر، جن کے سامنے بڑے بڑے مقاصد ہوتے ہیں، باقی تمام انسانوں کی حرکات و سکنات کا مطمع نظر راحت اور آسودگی کا حصول ہوتا ہے۔ خوشی اور غم،خوشحالی و بدحالی،کامیابی و ناکامی،اچھے اور برے حالات زندگی کا حصہ ہیں۔زندگی عبارت ہی اونچ نیچ سے ہے۔
اتار چڑھاؤ ہی زندگی کو زندگی بناتا ہے۔کامیابی کا تصور بہت ہی خوش کُن ہے لیکن مسلسل خوشحالی اور کامیابی زندگی کو Uneventfullاور بے مزہ بنا دیتی ہے۔خوش حالی اور کامیابی انسان کے اندر چھپی بے پناہ صلاحیتوں کو پنپنے سے روک کر اس کو اوسط درجے پر یا اس سے بھی نیچے لے آتی ہے جب کہ اچھے تیراک کی صلاحیتیں نکھرتی ہی تب ہیں جب اسے طوفان سے پالا پڑے،تیز و تند لہروں کا سامنا ہو۔ہمت کے شناور کو بھنور بھی کنارہ مہیا کر دیتاہے۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ساری اچھائیاں خوش حالی سے جڑی ہوئی ہیں کہ اگر آپ خوش حال ہیں تو ہر نعمت آپ کے آنگن میں آ کر اترتی ہے اور آپ کو ہر جگہ ریلیف ہی ملے گا لیکن مشکل حالات،نا موافق صورتحال میں شخصیت کی جو تعمیر ہوتی ہے وہ تعمیر خوش حالی میں ممکن نہیں۔
آسودگی اپنے دامن میں لتھارجی اور عامیانہ پن لاتی ہے جب کہ مشکل حالات میں انسان کی خوابیدہ صلاحیتیں بھی جاگ پڑتی ہیں۔جیت اور کامیابی کی تمنا کرنا مقصود ضرور ہے لیکن ہار اور ناکامی حیران کن مثبت تبدیلیاں اپنے دامن میں لیے ہوتی ہے۔وہ انسان بہت عظیم ہوتا ہے جو کامیابی اور ناکامی، خوشی اور غم کو اچھے طریقے سے ڈیل کر سکتا ہو۔خوشی اور غم،کامیابی اور ناکامی سے ہر ایک کو کبھی نہ کبھی واسطہ ضرور پڑتا ہے اس لیے ان دونوں کیفیتوں کو اچھے ڈھب سے گزارنے کی صلاحیت حاصل ہونا ایک بہترین وصف ہے۔
یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ معجزات بہت برے حالات میں نمودار ہوتے ہیں، ہمیں اس کا ایک مظاہرہ سیدنا ایوب ؑ کی ابتلا اور آزمائش کے اختتام پر ملتا ہے۔ ایک اور پر تو سیدہ حاجرہ اور سیدنا اسمٰعیل ؑ کے قصے میں ملتا ہے۔دونوں ایک بے آب و گیاہ دشت میں ہیں۔دور دور تک کوئی انسانی آبادی نہیں۔
سیدنا اسمٰعیل ؑ جو ابھی تک ایک ننھے معصوم بچے ہیں،پیاس سے ان کاحلق خشک ہو چلا ہے۔ان کی والدہ ماجدہ بچے کو تڑپتا دیکھ کر پانی کی تلاش میں مارے مارے ادھر اُدھر دوڑ رہی ہیں، ایسے میں اﷲ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور معصوم اسمٰعیل ؑ کی ایڑیوں کے نیچے ایک ایسا چشمہ رواں ہو جاتا ہے جو آج بھی جاری وساری ہے اور لاکھوں کروڑوں افراد کی پیاس بجھا رہا ہے۔سیدنا یعقوب ؑ اورسیدنا یوسف ؑ کے امتحان کو دیکھیے۔روتے روتے جب سیدنا یعقوبؑ کی بینائی چلی جاتی ہے تو مصر سے سیدنا یوسف ؑ اپنی قمیض روانہ کرتے ہیں تاکہ بینائی عود کر آئے۔پھر دکھوں کی انتہا دیکھنے کے بعد باپ بیٹا ا س حالت میں ملتے ہیں کہ سال ہا سال تک زندان کی تاریکیاںجھیلنے والے سیدنا یوسف ؑ مسندِ اقتدار پر بیٹھے ہیں۔
آپ اس کا ایک اور مظاہرہ اﷲ کے آخری رسول،اﷲ کے ابد تک آخری پیغام کے حامل پیغمبر کو طائف کی گلیوں میں پتھر کھاتے دیکھیں۔پھر طائف سے واپسی پر آپﷺ اپنے ہی شہر میں کسی کی پناہ کی ضمانت کے بغیرداخل نہیں ہو سکتے، سارا شہر آپ کے خون کا پیاسا ہے۔ایسے نا مساعد حالات میں مدینہ کا ایک چھوٹا سا گروہ آپ کے پیغام کی صداقت کا دم بھرتے ہوئے ایمان لاتا ہے اور پھر اندھیرے روشنی کو راستہ دینا شروع کر دیتے ہیں۔راہیں کھلنی شروع ہو جاتی ہیں اور مشکل کی اس گھڑی میں کائنات کی سب سے افضل ہستی کو ربِ کائنات اس بات کی یقین دہانی کرانے کے لیے کہ مستقبل آپ کا اور آپ کے ماننے والوں کا ہے،معراج شریف میں اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھاتا ہے۔قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔
Imagination کی صلاحیت ایک بہت بڑا انعام ہے۔یہ تصویر میں ایسے رنگ بھر دیتی ہے کہ آدمی انگشت بدندان رہ جاتا ہے۔اگر آپ نے ایک حسین منظر دیکھا ہے اور بعد میں جب بھی اس کا خیا ل آئے اور آپ کے ذہن کے پردے پر ہو بہو وہی منظر نمودار ہو جائے تو یہ فینسیFancyہے لیکن اگر آپ اتنے باصلاحیت ہیں کہ ری کلکشن کرتے ہوئے اس کو اپنی مرضی کے نئے منظر میں بدل سکتے ہیں تو یہ Imagination ہے۔آسودگی انسان کو Dullبنا دیتی ہے لیکن برا وقت،مشکل حالات آپ کو نئی راہیں تلاش کرنے اور عام ڈگر سے ہٹ کر متبادل راستے اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔نئی راہوں کی تلاش صرف اسی صورت ممکن ہے جب آدمی Imaginativeہو۔برے وقت میں انسان کی صلاحیتیں نکھرتی ہیں اور اس کی Imaginationکی قوت مضبوط ہوتی ہے۔
زندگی میں برا وقت نہ آئے تو اپنوں میں چھپے غیر اور غیروں میں چھپے اپنے دونوں ہی نہفتہ رہتے ہیں۔ زندگی کی دھوپ چھاؤں میں کئی سبق پنہاں رہتے ہیں لیکن اچھے دوستوں اور ہمدردوں کی پہچان مشکل لمحات میں ہی ہوتی ہے۔ایک اچھا دوست ہزاروں بے کار جاننے والوں سے بہتر سرمایہ ہے۔ جب آپ صاحبِ مسند ہوں،جب آپ کامیابی کی سنہری دھوپ میں نہلا رہے ہوں تو ہر کوئی ساتھ دینے اور ہاتھ بٹانے کے لیے موجود ہوتا ہے لیکن جب یہ ڈھل جاتی ہے تو آپ کو بہت احتیاط کرنی ہوتی ہے کیونکہ وہی ساتھی جو کل تک آپ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے، آج آپ کے بظاہر بے ضرر لفظ پر بھی برا منا سکتے ہیں۔بڑے مشہور بول ہیں کہ اک ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے لیکن ایسے میں اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ آپ کو لوگوں کی پہچان ہونے لگتی ہے۔اچھا وقت آپ کے اندر، سستی، عامیانہ پن، غرور، انا جیسے برے خصائل باہر لاتا ہے جب کہ برا وقت آپ کے اندر کی بہترین صلاحیتوں کو باہر لانے کا موجب بنتا ہے۔
جسم کی مضبوطی کے بے شمار فوائد ہیںلیکن ذہن کی الرٹنس اور مضبوطی کہیں زیادہ اہم ہے۔مضبوط ذہن کا مالک اچھے برے ہر طرح کے حالات میں اچھا کھیون ہار ثابت ہوتا ہے۔ذہن کی مضبوطی،جسم کی مضبوطی سے بہت بڑا انعام ہے۔درد و غم کو ہمت سے سہنا،مشکلات کے آگے سپر نہ ڈالنا،درد کو ، دکھ کو ہنستے ہنستے جھیل جانا ایک مضبوط شخصیت کی علامت ہے ورنہ ہم میں سے اکثر مشکلات میں پہلے لمحے ہی ہمت ہار کر واویلا شروع کر دیتے ہیں۔
دکھوں کا مداوا صرف اور صرف ہمت ،جرات اور صبر سے ہو سکتا ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ آسودگی خوشی لے کر آئے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ مفلسی اور مشکل حالات غم و اندوہ اور کرب کو جنم دیں۔نہ تو خوشی کا آسودگی سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی دکھ درد کا مفلسی سے۔ یہ دونوں کیفیتیں ہیں۔آپ کو اپنے ارد گرد ایسے بے شمار افراد مل جائیں گے جو مشکلات میں بھی ایک خوبصورت زندگی گزار رہے ہیں اور ایسے بھی بہت ہیں جن کے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہے لیکن خوشی ان سے روٹھی ہوئی ہے۔
ایک ہندو پروہت جس کی عالمی پہچان ہے، اس نے بیان کیا کہ دنیا کی ایک بہت بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے بھارتی چیف ایگزیکٹو سے ملاقات ہوئی تو پروہت نے سی ای او سے پوچھا کہ سی ای او بنانے سے پہلے تمھارا جو انٹر ویو ہوا اس میں کیا سوالات تھے۔
اس نے جواب دیا کہ بورڈ نے صرف ایک سوال پوچھا کہ اتنی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی اگر بڑے خسارے سے دوچار ہو جائے اور گر رہی ہو،ڈوب رہی ہو توتم اس Fallکو کیسے ہینڈل کرو گے۔کہنے لگا کہ میں نے تجاویز پیش کرتے ہوئے پورے اعتماد سے کہا کہ میں اس طرح کمپنی کو سنبھال لوں گا۔بس میرے جواب سے بورڈ مطمئن ہو گیا۔تو فرد ہو یا گروہ،کمپنی ہو یا ملک جومشکل حالات میں واویلا مچانے کے بجائے FalL کو ہینڈل کر سکتا ہو،وہ کامیابی سمیٹنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔اور اگر Fallسے نظریں چرا کر دوسروں کو لعن طعن کرنے اور موردِ الزام ٹہرانے میں لگ جائے تو جان لیں کہ اس کے اندر Fallکو ہینڈل کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔برا وقت ہی بڑے آدمی کا امتحان ہے۔
The post FALLکو ہینڈل کرنا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3meYuKb
via IFTTT
No comments:
Post a Comment