پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آیندہ مالی سال 2019-20کے لیے70کھرب 36ارب30 کروڑ روپے کے مجموعی حجم کا پہلا باضابطہ وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا جس میں بجٹ خسارہ3151 ارب روپے ہوگا جسے ٹیکس اصلاحات کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔
ٹیکس ریونیو کا ہدف5555 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے ۔بجٹ میں گوشت،چینی ،گھی، تیل،سگریٹ ،خشک دودھ ، پنیر ، کریم ، سیمنٹ ، سی این جی ، ٹیکسٹائل، لیدر، اسپورٹس اشیاء، کارپٹس، سیمنٹ ،ایل این جی، اینٹیں،سگریٹ، سریا ،کھادوں، اسٹیل مصنوعات، مشروبات و منرل واٹر، جوسز،سی این جی،برانڈڈ اشیاء ، فرون فوڈ ،پینٹس، وارنش، الیکٹرک و ہوم اپلائنسز، لبریکنٹ آئل،اسٹوریج بیٹریاں، سیمنٹ،ایل این جی،ہیرے جواہرات، سونا چاندی، گاڑیاں، ماربل، ٹرانسپورٹ کرائے،کاسمیٹکس کے سامان سمیت تین ہزار سے زائد درآمدی اشیاء مہنگی کردی گئی ہیں تاہم کھادیں، مینوفیکچررز کے لیے خام مال سستا کیا گیا ہے،زرعی اشیاء کے آڑھتیوں پر کم ازکم ٹیکس دس ہزار روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے سالانہ کردیا گیا ہے۔
غیر ملکی قرضوں سے کراچی کے مختلف منصوبے مکمل ہونگے۔وزیراعظم نے کمیشن قائم کردیا جو 10 سال میں 24 ہزار ارب کے قرض کی تحقیقات کریگا۔
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن نے حسب پروگرام ہنگامہ برپا کردیا، بجٹ دستاویزات پھاڑ دیں،اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا، اپوزیشن نے وزیر مملکت خزانہ حماد اظہر کی بجٹ تقریر کا پہلا حصہ خاموشی سے سنا، جیسے ہی وہ ٹیکسوں پر آئے اپوزیشن نے شدید ہنگامہ آرائی، نعرہ بازی، شورشرابہ ،گو نیازی گو کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔
اپوزیشن ارکان نے وزیراعظم کی نشست کا گھیراؤ کیا تو حکومتی ارکان عمران خان کے گرد حصار بنا کر کھڑے ہوگئے، اپوزیشن رہنما شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکراحتجاج میں شریک رہے تاہم بجٹ تقریر کے اختتام پر عمران خان نے ہاتھ لہرائے،خوشی کا اظہار کیا اور نوجوان وزیر مملکت خزانہ حماد اظہر کو آگے بڑھ کرشاباش دی۔
اپوزیشن نے بجٹ مسترد کردیا اور کہا کہ اہل خانہ کے لیے باورچی خانہ چلانا مشکل ہوگیا،مریم اورنگ زیب کے مطابق عوام کی چیخیں نکل گئیں،اسے عوام دشمن قراردیتے ہوئے مصطفی نواز کھوکھر اور اسفند یار ولی نے کہا کہ کٹھ پتلی حکومت نے بیرونی ڈکٹیشن لی۔
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ یہ سب سے زیادہ خسارہ والا بجٹ ہے، ارکان نے پنشن کی رقم کو ناکافی قراردیا۔تاجر برادری بھی بجٹ سے سخت ناخوش نظر آئی۔ تاجر رہنماؤں کے مطابق بجٹ عوام اور صنعت کے لیے تباہ کن ہوگا، ایف پی سی سی آئی کے نزدیک وفاقی بجٹ سے مایوسی ہوئی، بزنس کمیونٹی سے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔
اقتصادی نامہ نگاروں کے مطابق کراچی چیمبر کے ارکان نے کہا کہ5550 ارب روپے کے ٹیکس وصولی کا ہدف انتہائی مشکل ٹاسک ہے، تاجر برادری کا کہنا تھا کہ موجودہ بجٹ حکومت کا اپنے خلاف خود کش حملہ ثابت ہوگا۔ میڈیا کے مطابق سرکاری ملازمین نے تنخواہوں میں اتنے کم اضافے کو یکسر مسترد کردیا۔
ادھر اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے عہدیداروں نے وفاقی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے بجٹ کو متوازی بجٹ کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں ہوشربا اضافے کا بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے صارفین کے لیے کافی مشکلات پیدا ہونگی، بہرحال بجٹ میں کوئی غیر معمولی لالی پاپ نہیں دیا گیا۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ بجٹ اسٹرٹیجک ہے ، ملکی معیشت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، اقتصادی اور مالی شعبوں میں بعض اقدامات قابل تحسین ہیں، اب مفت کی مراعات لینے، من و سلویٰ لینے اور عیش کی کمائی سے زندگی گزارنے کی حوصلہ کنی کی گئی ہے۔
نان فائلرز کو گاڑیاں و جائیداد خریدنے کی اجازت دیدی گئی ہے البتہ قابل ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے کو قابل سزا جرم قرار دیدیا گیا ہے اوراس پر ایک سال تک کی سزا ہوگی تاہم اکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں شامل ہونے کے لیے دیر سے گوشوارے جمع کروانے پر ایک ہزار روپے سے بیس ہزار روپے تک جرمانے عائد ہونگے۔
تنخواہ دار ملازمین کو دیر سے گوشوارے جمع کروانے پر ایک ہزار روپے جرمانہ،غیر تنخواہ دار نان فائلرز کو دیر سے گوشوارے جمع کروانے پر تین ہزار روپے ،ایسوسی ایشنز آف پرسنز کو دیر سے گوشوارے جمع کروانے پر دس ہزار روپے اور کمپنیوں کو دیر سے گوشوارے جمع کروانے پر بیس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
بجٹ میں گریڈ 1 سے 16 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد ایڈہاک اضافہ کردیا گیا ہے جب کہ گریڈ 17 سے 20 تک کے ملازمین کو 5فیصد ایڈہاک ریلیف دینے کی تجویز ہے۔گریڈ 21 اور 22 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
مزدور کی کم سے کم اجرت بڑھا کر 17500 کردی گئی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے واجب الادا ٹیکس کی حد 6 لاکھ روپے سالانہ کردی گئی ہے جب کہ غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے 4 لاکھ روپے سے زائد آمدنی پر انکم ٹیکس لاگو ہوگا۔سول حکومت کے اخراجات 460 ارب روپے سے کم کرکے 437 ارب روپے کیے جارہے ہیں جب کہ دفاعی بجٹ جس کی مالیت 1150 ارب روپے ہے برقرار رکھا گیا ہے۔
مالی سال 2019-20 کا وفاقی بجٹ منگل کو وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے ایوان میں پیش کیا۔ حماد اظہر نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ موجودہ حکومت کو 3100 ارب روپے قرضہ اور ادائیگیاں وراثت میں ملیں۔ ان میں تقریباً 97 ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات اور ادائیگیاں تھیں۔ بہت سے کمرشل قرضے زیادہ سود پر لیے گئے تھے۔
گزشتہ دو سال کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے گرتے گرتے دس ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے تھے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح 20 ارب ڈالر جب کہ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ پانچ سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ مالیاتی خسارہ 2260 ارب روپے کی خطرناک حد تک پہنچ گیا تھا۔ اتنا بڑا خسارہ الیکشن کے سال میں مالیاتی بدنظمی کی وجہ سے ہوا۔ بجلی کے نظام کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا ۔
پاکستانی روپے کی قدر بلند رکھنے کے لیے اربوں ڈالر جھونک دیے گئے۔ اس مہنگی حکمت عملی سے برآمدات کو نقصان پہنچا، درآمدات کو سبسڈی ملی اور معیشت کو نقصان ہوا۔ عالمی مالیاتی فنڈ سے چھ ارب ڈالر کے پروگرام کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف کے بورڈ سے اس کی منظوری کے بعد اس معاہدے پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا جس سے انتہائی کم سود پر دو سے تین ارب ڈالر کی اضافی عالمی امداد بھی میسر آئے گی۔ مالیاتی نظم و نسق اور بنیادی اصلاحات کے لیے حکومت کی سنجیدگی نظر آئے گی جس سے عالمی سرمائے کا اعتماد حاصل ہوگا۔
بلاشبہ بجٹ میں کچھ ریلیف اور بہت ساری مشکلات کے حوالے موجود ہیں، وزیراعظم نے قوم سے بار بار خطاب میں جو کچھ کہا دیکھنا ہے کہ ’’اس آہ ‘‘ میں کتنا اثر ہوگا۔ مگر ماہرین اقتصادیات اور اپوزیشن و تاجر برادری سے لے کر عوامی حلقوں کے خدشات اور توقعات کا جو منظر نامہ ہے اس نے معیشت کے مستقبل کے بارے میں کئی سرد وگرم سوالات اٹھا دیے ہیں، ماہرین معاشیات پی ٹی آئی حکومت کے پہلے دن سے ملکی معاشی نشیب وفراز ، مستقبل کے سیاسی و سماجی مصائب کا پینڈورا باکس کھلنے کے اندیشے لیے آگے بڑھ رہے تھے، اب جب کہ بجٹ آ ہی گیا ہے تو معاشی مسیحاؤں کی آزمائش بھی شروع ہوگئی ہے، بجٹ کے اثرات ومضمرات رفتہ رفتہ سامنے آتے جائیں گے۔
بتایا گیا ہے کہ بجٹ فریگمنڈ اور ٹارگیٹڈ ہے، ہر شے الگ تھلگ پیش کی گئی ہے جس میں صحت ، تعلیم، آئی ٹی، میرٹ، روزگار،غربت ،مہنگائی،جرائم کا پھٹتا ہوا لاوا،اور قانون کی حکمرانی،سیاسی ٹھہراؤ یہ سارے سیاسی سوالات زمینی حقائق اور حکومت کے سنجیدہ معاشی روڈ میپ کے تقابل میں ہونگے۔ پھر عوام جواب دیںگے کہ بجٹ سے قوم نے کیا پایا کیا کھویا۔
The post قومی بجٹ: مالی سال برائے 2019-20 appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2Ki5mX5
via IFTTT
No comments:
Post a Comment