فلسطین تنازع کی بنیاد 1917میں برطانوی سامراج کے اعلان بالفور کی صورت میں رکھی گئی تھی۔اس وقت تمام مغربی ممالک نے ارض فلسطین پر ایک صیہونی ریاست قائم کرنے کی تجویزمنظور کر لی تھی۔ یوں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ برطانیہ اور تمام مغربی طاقتوں بشمول امریکا نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی اور اسے تحفظ فراہم کیا۔
فلسطینیوں کی جدوجہد کو تقریباً ایک سو سال ہوچکے ہیں۔ اس دوران میں امریکا اور مغربی طاقتوں نے فلسطینی تحریکوں کے سربراہان کو متعدد بار مذاکرات کی میز پر بھی بٹھایا لیکن نتیجہ کچھ برآمد نہ ہوا۔
اب ایک سو سال مکمل ہونے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگلے انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کے تمام وعدے پورے کرنے کی ٹھان رکھی ہے تاکہ امریکا میں صیہونی لابی کی حمایت حاصل کی جاسکے۔ان تمام وعدوں میں سب سے بڑا وعدہ مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا ہے، جس کے لیے امریکا نے ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔
اس منصوبے کو ’’صدی کی ڈیل ‘‘ کہا جا رہا ہے۔ اس ڈیل کے نتیجہ میں امریکا چاہتا ہے کہ پورے خطے پر اسرائیل کی بالادستی قائم ہوجائے۔امریکا ’’صدی کی ڈیل‘‘ نامی منصوبہ سے در اصل فلسطینیوں کو ان کے حق واپسی سے محروم کرنا چاہتا ہے، امریکا چاہتا ہے کہ فلسطین میں تمام فلسطینیوں کو اردن کی طرف دھکیل کر زمین کا کوئی چھوٹا ٹکڑا دے دیا جائے اور فلسطینیوں کو فلسطین سے دستبردارکرا دیا جائے۔ امریکا، ریاست اسرائیل کے لیے فلسطین کو ختم کرنے کا ارادہ کر چکا ہے۔ امریکا کو صدی کی ڈیل منصوبہ پر تمام عرب و مسلمان ممالک سے حمایت درکار ہے۔
اردن نے اس ڈیل کو مسترد کر رکھا ہے۔ ایک سو سال بعد اعلان بالفور کی طرح ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کو ہی خطرات لاحق ہیں ۔ مصر ، اردن اور مراکش نے ٹرمپ انتظامیہ کو بتا دیا ہے کہ وہ امریکا کی زیر قیادت امن منصوبے میں شرکت کریں گے جب کہ بحرین پہلے ہی امریکا کے ساتھ ہے۔ سعودی عرب ، قطر، یواے ای نے مجوزہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت تسلیم کر لی ہے۔مصر اور اردن کی شرکت اہم قرار دی جا رہی ہے۔ فلسطینی لیڈروں نے جون کے اواخر میں ہونے والی کانفرنس کو مسترد کر دیا ہے۔
The post فلسطین کو اسرائیلی ریاست کا حصہ بنانے کی سازش appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2MKl7Im
via IFTTT
No comments:
Post a Comment