شام کاوقت تھا۔ابھی اندھیرا نہیں ہوا تھا، اس وقت مال روڈلاہورپرواقع سول سروسزاکیڈمی میں تربیت حاصل کررہاتھا۔حددرجہ مستنداوراعلیٰ درجہ کی تعلیم اوراس کے ساتھ ساتھ سرکاری معاملات کی تربیت آسان کام نہیں تھا۔ بہرحال مشکل بھی نہیں تھا۔
سارادن بھاگ دوڑمیں گزر جاتا تھا۔ہوسٹل جانے لگاتوعمارت کے باہر،نیلے رنگ کاایک کیری ڈبہ کھڑاہواتھا۔باہرایک بزرگ آدمی جوباریش بھی تھے،ہرآنے جانے والے نوجوان کودیکھ رہے تھے۔دراصل انکالختِ جگربھی ہمارے ساتھ زیرِتربیت تھا۔مجھے دیکھ کر کہنے لگے۔بیٹا،میں سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا۔ذرااوپر جاکر میرے بیٹے کواطلاع کردوکہ والد نیچے انتظارکررہا ہے۔
انتہائی ادب سے اکیڈمی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کی درخواست کی۔ توبے ساختہ طریقے سے بولے۔نہیں، یہاں کھڑا ہوکر انتظارکرونگا۔آپ بس اطلاع کر دیں۔ دوسری منزل پر گیا۔ اس افسرکواطلاع دی کہ آپکے والدمحترم نیچے کھڑے ہوئے ہیں۔ فوراًنیچے جاکرانھیں ملو۔ کافی دیر سے انتظارکررہے ہیں۔پیغام دیکر تیسری منزل پراپنے کمرے میں چلا گیا۔ میراکمرہ سب سے اوپروالی منزل پر تھا۔کمرے میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ گزارکرنیچے جاناتھا۔
اس لیے بھی،کہ میراایک دوست مجھے ملنے آرہاتھا۔اس وقت تک شام ہوچکی تھی۔نیچے گیاتووہی بزرگ کیری ڈبے کے باہر کھڑے ہوئے تھے۔ حیران ہوگیاکہ تقریباًدوگھنٹے سے انتظار کررہے ہیں۔ غور سے مجھے دیکھااورگلہ سے کہاکہ بیٹا،آپ نے بیٹے کومیرے متعلق اطلاع نہیں دی۔پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔سمجھ نہ آئے کہ کیاجواب دوں۔ذاتی طور پر خود جاکر صاحبزادے کوبتاکرآیاتھا۔بزرگ سے عرض کی کہ ان کے بیٹے کاکمرہ لاک تھا۔پیغام کاغذپرلکھ کر دروازے کی کنڈی پر لگا کر آیا تھا۔
انتہائی شرمندگی کی حالت میں واپس ہوسٹل میں صاحبزادے کے کمرے میں گیا۔ وہاں وہ چند دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ ایک طرف لے جاکر کہا،کہ دوڈھائی گھنٹے سے آپکے والد محترم نیچے انتظارکررہے ہیں۔تم نیچے کیوں نہیں گئے۔یہ توبہت معیوب بات ہے۔اسکاجواب انتہائی غیرمعقول تھا۔ تلخی سے کہنے لگاکہ باباجی کوکہو۔آج میں مصروف ہوں۔ پھرکبھی دوبارہ آجائے۔ یقین فرمائیے کہ میرے ہوش اُڑگئے۔اتنی بدتمیزی،اتنی گستاخی۔اپنے والدکی توہین۔ بڑی عاجزی سے نیچے گیا۔
بزرگ آدمی کوکہاکہ ان کا بیٹا، کمرے میں نہیں ہے۔اس شخص کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔میراہاتھ تھام کر فرمانے لگے۔ بیٹا،مجھے پتہ ہے تم غلط بیانی کررہے ہو۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میرابیٹاکمرے میں ہی ہے۔پرمیں کچھ نہیں کہناچاہتا۔ایک غریب ساآدمی ہوں۔بیٹا،بہت بڑاسرکاری افسربن کرٹریننگ لے رہا ہے۔بس اسے بتا دینا کہ میں واپس چلاگیاہوں تاکہ اطمینان سے نیچے آجائے۔ روتے روتے بزرگ کیری ڈبے میں بیٹھے اورواپس چلے گئے۔ یہ 1986کی بات ہے۔اس واقعہ کوآج تک نہیں بھول سکا۔
ہاں،بہت سے واقعات ہیں۔جنھیں قلمبندکرتے ہوئے دل کٹتاہے اورقلم جواب دے جاتاہے۔مگرنہیں لکھونگا توسینے میں اتناغبارموجود رہے گاجس سے دائمی غم جنم لیتا ہے۔ویسے غم توزندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی روح کاحصہ بن جاتاہے۔اس لیے کہ ہمارے ملک میں ہر سطح پر اس قدرناانصافی،منافقت اورجھوٹ ہے کہ سوچنے والا انسان،ہرروزمرتاہے اورہرروززندہ ہوتاہے۔صرف ایک واقعہ عرض کرتاچلوں۔تقریباًپندرہ برس پہلے میں حکومت پنجاب کے ایک محکمے میں ایڈیشنل سیکریٹری تھا۔ ایک دن سیکشن افسرمیرے پاس آیا۔ڈیرہ غازی سے تعلق رکھنے والا ایک پڑھالکھاانسان۔تعلیم کے لحاظ سے انجینئر تھا۔کمرے میں آکرخاموشی سے بیٹھ گیا۔ہاتھ میں کوئی فائل بھی نہیں تھی۔استفسارپرصرف یہ کہاکہ چندمنٹ میں اپنے آپکو ذہنی طورپراکٹھاکرلوں۔
پھربات کرتا ہوں۔ تقریباً تیس منٹ سکتے کی حالت میں بیٹھارہا۔پھرکہا،سر،آج سیکریٹری صاحب نے انھیں ایک آدمی کے کام سے شناختی کارڈکے دفتربھجوایا تھا۔ بوڑھاآدمی،شادمان میں کسی عزیزکے گھر ٹھہرا ہواتھا۔اسے گاڑی میں بٹھایااورشناختی کارڈکے دفترلے گیا۔ کام کروا کر واپس آرہاتھاتواس بزرگ آدمی نے خودبخود کہا۔ کہ میرا بیٹا کہاں رہتا ہے۔ اسکا گھر کدھرہے۔سیکشن افسر کہنے لگاکہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیاکہ یہ بزرگ آدمی کس کا والد ہے اورکیا بات کررہاہے۔پوچھنے پر انتہائی دکھ سے کہنے لگاکہ میں تمہارے سیکریٹری کا والد ہوں۔مکمل اَن پڑھ ہوں۔مجھے بیٹے اوربہونے اپنے گھر آنے سے منع کررکھاہے۔
مجھے تویہ بھی نہیں معلوم کہ اس کا دفترکہاں ہے۔وہ افسرحددرجہ پریشان ہوگیا۔بزرگ آدمی کوواپس شادمان چھوڑا اور سیدھا میرے پاس آکر آدھا گھنٹہ سکتے کی حالت میں بیٹھارہا۔ ایسی اولادایسی بہو! اگر والد،والدہ،غریب اوراَن پڑھ ہوں توکیاوہ قابل عزت نہیں۔انسان اتنابے شرم بھی ہوسکتاہے کہ اگر ترقی کرلے، تواپنے خاندان کوفراموش کر جائے۔ مگر صاحب،یہ ہوتاہے اوریہ ہرروز،ہرقصبے،ہرشہراورہردیہات میں ہوتا ہے۔ متعدد ایسے کم ظرف لوگ ہیں جوترقی کرنے کے بعد،سادہ اورغریب والدین سے اجتناب کرنے لگتے ہیں۔ملنے والوں کوبتاتے نہیں کہ دھوتی پہنے ہوئے،بوڑھے سے آدمی، گھرکے ملازم نہیں بلکہ ان کے والدہیں۔
ہم لوگ،سارادن سیاست پربات کرتے رہتے ہیں۔ اب نیب کرپشن پرکس کوگرفتارکریگی۔اس پرحددرجہ ادنیٰ بحث ہوتی رہتی ہے۔پیپلزپارٹی کے مصاحبین،اپنے لیڈرکو فرشتہ ثابت کرنے کی حددرجہ کوشش کرتے نظرآتے ہیں۔ ن لیگ کے اکابرین،آل شریف کواوتارثابت کرنے کے لیے ہرطرح کی دلیل کواستعمال کرتے نظرآتے ہیں۔ عسکری ماہرین فوج کاذکرکرتے نہیں تھکتے اورتحریک انصاف کے لوگ اسی علت کاشکارنظرآتے ہیں،جوسب میں ہے۔کوئی بجٹ کاروناروتاہے۔کوئی ہمیں یہ بتاتاہے کہ معیشت بس سنبھلنے والی ہے۔سرنگ کے آخر میں ہرطرف روشنی ہی روشنی ہے۔کوئی یہ گردانتاہے کہ ملک ڈوب چکاہے۔
مگرآج تک کسی کی زبان سے یہ نہیں سناکہ ملک سماجی طورپربرباد ہوچکا ہے۔پورے معاشرے میں متعدد طرح کی بھیانک خرابیاں اورعلتیں موجودہیں۔خاندانی قدریں تقریباًدم توڑچکی ہیں۔کوئی تسلیم ہی نہیں کررہاکہ معاشرے کے کھوکھلے پن کوزیرِ بحث لائیں۔اکثرصاحبِ علم صرف اورصرف بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ مگر معاشرے کے منفی پن کوسامنے نہیں لاتے۔ دعوے سے عرض کررہاہوں کہ گزشتہ تیس سال میں ہماری خاندانی روایات کاجنازہ نکل چکاہے۔بوڑھے والدین،اب اولاد کے لیے بوجھ تصورکیے جاتے ہیں۔ ہر لڑکی، بہوبننے کے بعدکوشش کرتی ہے کہ اپنے خاوند کو خاندان سے علیحدہ کرکے اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔اس قیامت کاکوئی ذکرنہیں کرتا۔
ابھی عیدکوگزرے ہوئے چنددن ہوئے ہیں۔ میرا ایک دوست،جسکاتعلق فیصل آبادسے ہے۔ملنے آیاتوکہنے لگاکہ عیدلاہورمیں ہی کرے گا۔سوال کیاکہ اپنے آبائی گھر جاؤ۔بھائی بہنوں کوملو۔عیدتوانھی کے ساتھ ہی منائی جاتی ہے۔کہنے لگاکہ ایک بات کرناچاہتاہوں۔اجازت اس لیے لے رہاہوں کہ کچھ تلخ بات ہے۔عرض کی کہ فرمائیے، آپ میرے دوست ہو۔بتاتاچلوں کہ وہ حددرجہ اچھا انسان ہے۔دوسروں کی تکلیف کواپناغم سمجھتاہے۔بتانے لگا کہ والدین توفوت ہوچکے ہیں۔بڑے بھائی ہیں۔ لاہور ڈیفنس میں ایک بڑے بنگلے میں رہتے ہیں۔امیرانسان ہیں۔پچھلی عیدپرمیں ان کے گھرچنددن رہنے کے لیے گیا۔بھائی اوربھابھی دونوں نے پوچھاکہ واپس کب جاؤگے۔کتنے دن ٹھہرناچاہتے ہو۔اس کی اہلیہ بھی ساتھ تھی۔بنگلہ میں چھ بیڈ روم تھے اورتین خالی تھے۔میرادوست کہنے لگاکہ ان کے سوالات سن کرجواب دیاکہ میں رہنے تونہیں آیا۔میں تو صرف عید ملنے آیاہوں۔بس آدھے گھنٹے میں واپس چلا جاؤنگا۔
مناسب ساجواب سن کربھائی اوربھابھی صاحبہ کی جان میں جان آئی۔مروتاًفرمانے لگے۔آپ کااپنا گھر ہے۔ ضرور رہو۔مگراصلیت بالکل اورتھی۔انھیںفکرصرف ایک تھی کہ کہیں سگاچھوٹابھائی رہنے کے لیے ہاں نہ کردے۔ویسے یہ کالم لکھتے ہوئے عجیب سی کیفیت ہے۔آنکھوں میں بادل آچکے ہیں۔اپنے خاندان کے متعلق عرض کرتا چلوں۔ میرے دادا، راؤ اختر، تاندلیانوالہ میں رہتے تھے۔انتہائی سخت گیر انسان۔ میرے والد،راؤحیات،سب سے بڑے بیٹے تھے۔ایک دن میں تاندلیانوالہ گیاہواتھا۔والدصاحب اس وقت سیشن جج بن چکے تھے۔ گھرسے باہراپنے ایک دوست کے ساتھ سگریٹ پی رہے تھے۔اچانک بڑے راؤصاحب آگئے۔جج صاحب، اتناگھبراگئے کہ کہیں ان کے والد سگریٹ نہ دیکھ لیں کہ انھوں نے جلتاہواسگریٹ ویسٹ کوٹ کی جیب میں ڈال دیا۔ دادا جی نے کوئی بات کرنی تھی۔ دو چار منٹ میں واپس چلے گئے۔
والدصاحب کھڑے ہوئے تھے۔ ویسٹ کوٹ کی جیب میں جلتے سگریٹ نے سوراخ کر دیا۔ مگر وہ خاموشی سے بڑے راؤ صاحب کی بات سنتے رہے۔ جب داداجی چلے گئے توانھوں نے سگریٹ نکال کر باہر پھینک دیا۔جج صاحب کی جرات نہیں تھی کہ اپنے والد کے سامنے سگریٹ پی لیں۔ شائد آپکویقین نہ آئے۔ مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔میں اسسٹنٹ کمشنربن چکا تھا۔ مگرمجھ میں جرات نہیں تھی کہ جج صاحب کے سامنے کرسی پر بیٹھ سکوں۔ہمیشہ کھڑاہوکرانکی بات سنتاتھا اورپھر دوسرے کمرے میں چلاجاتاتھا۔بات ڈرخوف کی ہرگز نہیں تھی۔ بات صرف اورصرف اپنے بزرگوں کے احترام کی تھی۔وہ احترام جودل سے کیاجاتاہے۔جس میں کوئی مصنوعی پن نہیں ہوتا۔جوخالص درخالص ہوتا ہے۔ چاندکی ٹھنڈی روشنی کی طرح۔
سارادن دنیاکے ہرمعاملے پرہمیں جزئیات بتائی جاتی ہیں۔سمندرمیں مچھلیوں کے عدم وجودکے خطرے سے آگاہ کیاجاتاہے۔ملک میں آبی ذخائرکی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔ٹریفک پولیس نے آج کتناجرمانہ کیا۔اس پربھی خبربنتی ہے۔چلیے یہ بھی درست ہے۔مگرکوئی بھی یہ نہیں کہتاکہ خاندان کی بنیاد،یعنی گھربربادہورہے ہیں۔خون کے رشتے بھی سورج کی تپش کے سامنے برف کی طرح پگھل رہے ہیں۔بھائی تک خلوص سے عاری ہورہے ہیں۔بوڑھے والدین کوبوجھ سمجھاجارہاہے۔اصل میں ہمارے گھربڑے ہوگئے ہیں۔مگردل بہت چھوٹے،بلکہ بہت ہی تنگ نظر ہوچکے ہیں۔صاحبان،خاندان کی اکائی کوسب کچھ چھوڑکربچائیے۔یہ اہم ترین فریضہ ہے!
The post دل چھوٹے ہوچکے ہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2WKNtGY
via IFTTT
No comments:
Post a Comment